Inquilab Logo

امت ِمحمدیؐ ہونے کا حق ادا کیجئے

Updated: October 13, 2023, 1:48 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم رحمۃ للعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ یہ امتیاز اس وجہ سے ہے کہ اب قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے ہمیشہ ہمیش کی کامیابی نبی ٔرحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو ماننے ہی میں ہے۔

It is our responsibility to invite people to religion with concern for our reform and benevolence. Photo: INN
اپنی اصلاح کی فکر اور لوگوں کو خیرخواہی کے ساتھ دین کی دعوت دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ تصویر:آئی این این

ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم رحمۃ للعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ یہ امتیاز اس وجہ سے ہے کہ اب قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے ہمیشہ ہمیش کی کامیابی نبی ٔرحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو ماننے ہی میں ہے۔ چونکہ اس شریعت پر عمل پیرا ہوکر ہی کامیابی کی منزل تک پہنچنا ممکن ہے؛ اس لئے شریعت نے انسانوں کو مختلف ذمے داریاں سونپی ہے۔ یہ ذمے داریاں ذاتی زندگی سے لے کر عوامی زندگی تک محیط ہیں ۔ جہاں تک ذاتی زندگی کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بنیادی رہنمائی قرآن مجید میں سورہ تحریم کی آیت نمبر ۶؍ میں موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ، اس پر سخت مزاج اور زبردست فرشتے متعین ہیں ، اللہ ان کو جو کچھ حکم فرماتے ہیں ، وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور ان کو جو حکم دیا جاتا ہے، اسی کو بجالاتے ہیں ۔‘‘ بنیادی طور پر اس آیت کریمہ میں اپنی ذات اور اہل و عیال کو احکام شریعت پر کاربند نہ کر نے کی صورت میں جس خوفناک اور بھیانک نتیجے کا سامنا ہوگا، اس سے آگاہ کیا گیا ہے۔ 
اس سے آگے جب ہم عوامی زندگی میں امت محمدیہؐ کے کردار اور ذمے داری کی بات کرتے ہیں تو اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے مسلمانوں کی ذمے داری دعوت وتبلیغ کی ہے۔ اس تعلق سے سورہ آل عمران آیت نمبر ۱۰۴؍ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں ، اور وہی لوگ بامراد ہیں ۔ ‘‘اس آیت کریمہ میں دعوت وتبلیغ کے ذریعہ دوسروں کی اصلاح کی بات ہے۔ اس اعتبار سے اپنی صلاح کے ساتھ دوسروں کی فکر بھی ضروری ہے۔ 
 ایک اور آیت سے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب اول بنایا گیا ہے، ہم دعوت و تبلیغ کی نزاکت اور اہمیت کو بہتر ڈھنگ سے سمجھ سکتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے رسولؐ! جو کچھ آپ کے رب کی جانب سے آپ پر نازل کیا گیا ہے، آپ (سب) پہنچادیجئے۔‘‘ 
(المائدہ:۶۷) 
 مذکورہ آیت کے حوالے سے علامہ شبیر احمد عثمانی تفسیر عثمانی میں لکھتے ہیں : ’’آپ ﷺ نے بیس بائیس سال تک جس بے نظیر اولوالعزمی، جانفشانی، مسلسل جدوجہد اور صبرو استقلال سے فرضِ رسالت وتبلیغ کو ادا کیا، وہ اس کی واضح دلیل تھی کہ آپؐ کو دنیا میں ہر چیز سے بڑھ کر اپنے فرضِ منصبی (رسالت وبلاغ) کی اہمیت کا احساس تھا۔‘‘
 اس مقام پر پہنچ کر اپنے آپ سے سوال کر یں کہ کیا خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کے ناطے ہمارا جو فرض منصبی دعوت و تبلیغ ہے، اس کی اہمیت کا ہمیں احساس ہے یا نہیں ؟ تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہم اس باب میں بہت ہی کمزور ہیں ۔ ہم میں سے اکثر کے پاس نہ ہی مسلمانوں کے اصلاح کی فکر کرنے کے لئے وقت ہے اور نہ ہی لائحہ عمل؛ چہ جائے کہ ہم غیر مسلم بھائیوں کے بارے میں سوچیں ۔ حالانکہ جس نبی کے امتی ہونے کا ہمیں شرف حاصل ہے وہؐ تو دن بھر دعوت و تبلیغ میں مصروف رہا کرتے تھے اور رات میں اللہ رب العزت سے انسانیت کے لئے توفیق عمل کی دعاء مانگتے تھے اور اس کی حد یہ تھی کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’شاید آپ (اس غم میں ) اپنی جانِ (عزیز) ہی دے بیٹھیں گے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔‘‘(الشعراء :۳) اس آیت کے ضمن میں صاحب آسان تفسیر نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ انسانیت پر بے حد شفقت و مہربانی کی وجہ سے اس بات کے لئے بے قرار رہتے تھے کہ لوگ ایمان لے آئیں اور دوزخ کے عذاب سے بچ جائیں ؛ اس لئے جب لوگ ایمان نہیں لاتے ، تو آپ ﷺ کو ایسا رنج و افسوس ہوتا کہ گویا جان ہی دے دیں گے ، اسی سلسلہ میں آپ ﷺ کو تسلی دی جارہی ہے۔
  افسوس کی بات ہے کہ اصلاح اور دعوت و تبلیغ کے حوالے سے ہم میں سے کچھ لوگ پست ذہنی کے اس قدر شکار ہوگئے ہیں کہ اگر بزعم خود وہ دین دار ہیں تو ایسے لوگوں کے بارے میں جو دین دار نہیں ذلت آمیز نظریہ قائم کر لیتے ہیں ؛ اسی طرح جو دامن اسلام میں نہیں ہیں ، ان کے بارے میں محض یہ سوچتے ہیں کہ وہ ناپاک اور جہنمی ہیں ۔ اس طرح ہم اس ذمہ داری سے دامن جھاڑ لیتے ہیں جو نبیٔ رحمتؐ کا امتی ہونے کے ناطے ہمارا فرض منصبی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کا امتی ہونے کا حق ادا کریں اور خیرخواہی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے لوگوں حکمت کے ساتھ دائمی کامیابی کی طرف بلائیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK