عام طور پر لوگ عہد کے معنٰی صرف قول و قرا ر کے سمجھتے ہیں۔ اسلام میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ یہ حقوق اللہ، حقوق العباد، معاشرت، سیاست، تجارت، اخلاق اور معاملات کی ان تمام صورتوں کو محیط ہے۔
EPAPER
Updated: September 09, 2022, 1:38 PM IST | Shaukat Abdul Qadir | Mumbai
عام طور پر لوگ عہد کے معنٰی صرف قول و قرا ر کے سمجھتے ہیں۔ اسلام میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ یہ حقوق اللہ، حقوق العباد، معاشرت، سیاست، تجارت، اخلاق اور معاملات کی ان تمام صورتوں کو محیط ہے۔
معاشرے کی تعمیروتشکیل میں جہاں اور بہت سی چیزیں اہمیت رکھتی ہیں، ان میں ایک اہم چیز ایفائے عہد بھی ہے۔ اس کے ذریعے معاشرے میں ایک ایسا توازن پیدا ہوتا ہے، جس سے ماحول خوش گوار بن جاتا ہے اور وقتی رنجش ہو یا دائمی، سب کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی کسی بات پر کوئی معاملہ کرے یا کسی سے کوئی وعدہ کرے، لیکن بروقت اس کی تعمیل نہ کرسکے تو ایسی صورت میں ایک قسم کی بدمزگی پیداہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ایفائے عہد کو غیرمعمولی اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن و حدیث میں بہ کثرت یہ حکم ملتا ہے کہ جو معاملہ کرو یا کسی سے وعدہ کرو اس کو بروقت پورا کرو۔
وعدہ پورا کرنـے کی فضیلت اور تاکید
اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات بابرکات کے حوالے سے متعدد مقامات پر فرمایا ہے:
’’ یقینا اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔‘‘ (الرعد :۳۱)
’’ اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کا پورا کرنے والا کون ہے؟‘‘ (التوبہ :۱۱۱)
وعدے کا پورا کرنا اللہ کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں بھی اس صفت کو جلوہ گر دیکھنا چاہتا ہے، اس لئے اس نے عہد کی پابندی کی بار بار تاکید کی ہے:
’’ اور عہد کو پورا کرو، عہد کے بارے میں (اللہ کے یہاں) ضرور بازپُرس ہوگی۔‘‘ (بنی اسرائیل : ۳۶)
اور ایک جگہ ہے:
’’اللہ کے عہد کو پورا کرو، جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد کیا ہو اور قسموں کو توڑا نہ کرو۔‘‘ ;(النحل :۹۱)
ایک اور جگہ عہد ِالٰہی کے ایفا کی نصیحت کی گئی ہے، فرمایا:
’’ اور اللہ کا قرار پورا کرو۔ یہ اسی نے تم کو نصیحت کردی ہے تاکہ تم دھیان رکھو۔‘‘(انعام:۱۵۲)
مومنین کا ایک وصف یہ بھی قرار دیا گیا کہ وہ نہایت درجہ امانت دار اور پابند ِ عہد ہوتے ہیں:
’’اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں۔‘‘ (المومنون:۸)
دوسری آیت میں ہے:
’’اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے پورا کریں۔‘‘(البقرہ:۱۷۷)
وعدے کا مفہوم اور وسعت
عہد، ایک تو وہ معاہدہ (Agreement) ہے، جو طرفین کے درمیان کسی معاملے میں انجام پاتا ہے۔ اس کا پورا کرنا فرض ہے اور اس کے خلاف کرنا غدر اور دھوکا ہے، جو کہ حرام ہے۔ دوسرا وہ جس کو وعدہ کہتےہیں کہ کوئی شخص کسی سے یک طرفہ وعدہ کرلیتا ہے، اس کا پورا کرنا بھی شرعاً لازم و واجب ہے۔ حدیث میں آیا ہے: الْعِدَّۃُ دِین (وعدہ ایک قسم کا قرض ہے)۔ جس طرح قرض کا ادا کرنا واجب ہے، اسی طرح وعدہ کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔ عام طور پر لوگ عہد کے معنٰی صرف قول و قرا ر کے سمجھتے ہیں۔ اسلام میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ یہ حقوق اللہ، حقوق العباد، معاشرت، سیاست، تجارت، اخلاق اور معاملات کی ان تمام صورتوں کو محیط ہے، جن کی پابندی انسان پر عقلاً، شرعاً، قانوناً اور اخلاقاً فرض ہے۔ امام قرطبیؒ نے لکھا ہے:
’’ امانت اور عہد دینی و دُنیوی معاملے پر حاوی ہے، چاہے وہ قولی ہو یا فعلی اور جس کا انسان پابند اور متحمل ہو۔‘‘ (قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، جز۱۲، ص ۱۰۷)
علامہ آلوسی فرماتے ہیں:
’’یہ آیت اکثر مفسرین کے نزدیک ہر قول و قرار کے لیے عام ہے ، چاہے وہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے مابین ہو یا دو انسانوں کے درمیان۔‘‘(روح المعانی ، جز۹، ص ۲۱۴) عہد اگر خلافِ شرع نہ ہو تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے اور عہد شکنی حرام ہے:’’اور تم پورا کرو میرا قرار تو میں پورا کروں تمہارا قرار اور مجھ ہی سے ڈرو۔‘‘(البقرہ :۴۰)
عہد کا ہم معنی لفظ ’عقد‘
قرآن کریم میں عہد کے قریبی معنٰی میں ایک اور لفظ ’عقد‘ استعمال کیا گیا ہے:
’’اے ایمان والو، اپنے وعدوں کو پورا کرو۔‘‘ (المائدہ :۱)
’’مگر جو قسمیں تم کھاتے ہو ان پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔‘‘ (المائدہ :۸۹)
’عقد‘ کےلفظی معنی گرہ کے ہیں۔ اس سے مراد معاملات کی باہمی پابندیوں کی گرہ ہے۔ امام رازیؒ لکھتے ہیں:
’’ اَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اللہ تعالیٰ کے قول: يٰٓاَ يُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ کے ہم معنٰی ہے۔ اس قول میں تمام عقد و معاملات مثلاً بیع، شرکت، یمین، نذر، صلح اور نکاح وغیرہ داخل ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دو انسانوں کے درمیان جو عقد اور جو عہد طے پائے دونوں پر اس کا پورا کرنا واجب ہے۔‘‘
(التفسیر الکبیر، ج۱۰، ج۲۰، ص ۱۶۸)
حضرت حسن بصریؒ نے اس کو زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’اس سے مراد دینی معاملات ہیں جن کو انسان اپنے اُوپر لازم کر دیتا ہے، مثلاً خریدوفروخت،اجارہ، نکاح، طلاق، زراعت، صلح ، تملیک، خیار، آزادی، سیاست و انتظام وغیرہ۔ یہ تمام اُمور شریعت سے خارج نہیں ہیں۔ اسی طرح جو اُمور اطاعت و بندگی سے متعلق ہیں، مثلاً حج، روزہ، اعتکاف، قیامِ لیل، نذر وغیرہ یہ سب اسلامی احکام ہیں۔‘‘(قرطبی، الجامع الاحکام القرآن ، ج۵، جز۶، ص ۳۲)
وعدہ شکنی نفاق کی علامت
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد شکنی کو نفاق کی خصلتوں میں شمار کیا ہے اور وعدہ خلاف شخص کو منافق قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’منافق تین باتوں سے پہچانا جاتا ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔‘‘ (بخاری، ۳۳)
اسی مضمون کی ایک حدیث کچھ مختلف الفاظ میں عبداللہ بن عمروؓ سے بھی مروی ہے: ’’چار خصلتیں ہیں کہ جس کے اندر پائی جائیں گی، وہ خالص منافق ہوگا اور جس کے اندر اِن میں سے ایک خصلت پائی گئی اس میں منافقت کی ایک خصلت موجود ہوگی یہاں تک کہ وہ اسے ترک نہ کردے: (۱)جب بولے تو جھوٹ بولے(۲)جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے (۳)جب معاہدہ کرے تو توڑ دے ، اور (۴) جب جھگڑے تو گالیاں دے۔‘‘
وعدے کی پابندی نہ کرنے والے پر وعید
اسلام نے محض ایفائے عہد کی تعلیم و تلقین ہی پر اکتفا نہیں کیا ہے۔ اس کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں اللہ کے عذاب کی وعیدیں بھی آئی ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے:
’’ وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کیلئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کر ے گا، بلکہ ان کےلئے تو سخت دردناک سزا ہے۔‘‘ (آل عمران :۷۷)
مذکورہ بالا آیت میں عہد کی خلاف ورزی کرنے والے پر پانچ وعیدیں مذکور ہیں:
(۱) ان کو جنت کی نعمتوں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ ایک حدیث میں رسولِ کریمؐ نے فرمایا:’’ جس آدمی نے جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا حق دبا دیا تو اس نے اپنے لیے آگ کو واجب کرلیا۔ راوی نے عرض کیا کہ خواہ وہ چیز معمولی ہو تب بھی اس کے لئے آگ واجب ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں خواہ وہ درخت کی سبز ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘(مسلم، کتاب الایمان، باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرۃ بالنار، ۲۲۱)(۲) اللہ تعالیٰ ان سے بات نہیں کرے گا۔(۳) اللہ تعالیٰ ان کی طرف قیامت کے دن رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔ (۴) اللہ تعالیٰ ان کے گناہ کو معاف نہیں کرے گا۔ کیوں کہ عہد کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے بندے کا حق تلف ہوا ہے، جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔اور(۵) ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ حشر کے میدان میں جہاں تمام اوّلین و آخرین جمع ہوں گے، عہدشکنی کرنے والے کے پاس ایک جھنڈا بطورِ علامت لگا دے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں ابن فلاں کی غداری کا نشان ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان، باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرۃ بالنار، ۲۲۱)
’’ہر غدار و عہد شکن کی بے ایمانی کا اعلان کرنے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جو اس کے غدرکے مطابق ہوگا اور یاد رکھو کہ جو سردارِ قوم غدر کرے اس سے بڑا کوئی غدار نہیں ہے۔‘‘ (مسلم ، باب تحریم العذر، ۴۵۳۸) اس سے یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے آگئی کہ قیامت کے روز وعدہ ایفا نہ کرنے والے شخص کی ذلت و رُسوائی میں کوئی کسر باقی نہ رہے گی۔ ناکامی، ذلت اور نکبت کا ساراسامان بہم ہوگا۔