بی جے پی کے سابق صدر اور مشہور لیڈر ایل کے اڈوانی کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا مگر جب انہیں رام مندر کے موضوع کو بھنانے میں ’’کامیابی‘‘ ملنے لگی تو حالات تیزی سے بدلے۔
EPAPER
Updated: December 07, 2025, 8:26 AM IST | Mumbai
بی جے پی کے سابق صدر اور مشہور لیڈر ایل کے اڈوانی کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا مگر جب انہیں رام مندر کے موضوع کو بھنانے میں ’’کامیابی‘‘ ملنے لگی تو حالات تیزی سے بدلے۔
ایک بار پھر ۶؍ دسمبر آیا اور چلا گیا مگر لازمی ہے کہ ہم جدید ہندوستان کے اُس عظیم سانحے کو یاد کریں جس نے قومی سیاست کو یکسر بدل دیا۔
چالیس سال قبل۱۹۸۴ء میں بی جے پی کو صرف ۷؍ فیصد ووٹ اور لوک سبھا کی صرف ۲؍ نشستیں ملی تھیں۔ ۱۹۸۶ء میں پارٹی کی کمان ایل کے اڈوانی نے سنبھالی تب تک وہ انتخابی سیاست سے کافی دور تھے۔ سیاست میں آنے سے قبل وہ صحافی کی حیثیت سے آر ایس ایس کے میگزین میں برسرکار تھے اور فلموں پر تبصرہ کرتے تھے۔ بحیثیت سیاستداں، وہ دہلی کونسل یا راجیہ سبھا کے رکن بنے مگر ان مناصب کیلئے نامزد کئے گئے۔ تب تک انہوں نے کوئی الیکشن لڑا تھا نہ جیتا تھا۔ سیاسی مقاصد کے تحت عوام کو جوڑنے اور جلسے جلوس منعقد کرنے کا بھی انہیں کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ان کی سوانح (مائی کنٹری، مائی پیوپل، مطبوعہ ۲۰۰۸ء) سے پتہ چلتا ہے کہ اُنہیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ عوام کو ساتھ لینے کیلئے کون سی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ ایودھیا تحریک آر ایس ایس کے ’’غیر سیاسی‘‘ اندرونی حلقوں نے چھیڑی تھی جس کی قیادت وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کررہی تھی۔
فروری ۱۹۸۹ء میں الہ آباد کے کمبھ میلے میں وی ایچ پی نے اعلان کیا تھا کہ رام مندر کا سنگ بنیاد نومبر میں رکھا جائے گا جس کیلئے ملک بھر سے اینٹیں لائی جائینگی۔ ہر اینٹ پر رام کا نام کندہ ہوگا۔ رضاکار ملک بھر کے شہروں اور قصبوں سے جلوس کی شکل میںاینٹ لائینگے۔ تب تک، یہ موضوع سیاست کے مرکزی دھارے کا حصہ نہیں تھا۔ یہ بات اڈوانی نے اپنی کتاب میں لکھی ہے۔ بی جے پی کی قومی عاملہ کی میٹنگ (جون ۱۹۸۹ء) ہماچل پردیش میں منعقد کی گئی تھی جس میں اڈوانی نے پارٹی کو براہ راست رام مندر کے موضوع سے جوڑا۔منظور کی گئی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ’’زمین ہندوؤں کے سپرد کی جائے‘‘ اور ’’مسجد کسی اور جگہ پر تعمیر کی جائے‘‘۔
نومبر ۱۹۸۹ء میں انتخابات ہوئے اور یہ پہلا موقع تھا جب بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں ایودھیا کا حوالہ دیا: ’’ایودھیا میں رام جنم مندر کی از سر نو تعمیر کی اجازت نہ دے کر حکومت نے سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا ہے۔‘‘ دیکھا جائے تو یہ بی جے پی کے اپنے دستور کی خلاف ورزی تھی کیونکہ اس کے صفحہ اول پر یہ عہد درج ہے کہ ’’پارٹی سیکولرازم کے اُصول پر یقین رکھے گی اور اس سے وفاداری نبھائے گی‘‘۔ بہرکیف، پولنگ سے چند روز پہلے وی ایچ پی نے اپنے تمام جلوسوں کے ایودھیا پہنچنے کے بعد بابری مسجد کے قریب ہی رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا۔ اپنے تفرقہ پسند اور مسلم مخالف موقف کے زیر سایہ اڈوانی کی پارٹی بی جے پی نے ۸۵؍ سیٹیں جیت لیںجو کہ ماضی میں جیتی ہوئی سیٹوں سے کئی گنا زیادہ تھیں۔ اب آر ایس ایس کی صفوں سے اڈوانی نہایت کامیاب لیڈر بن چکے تھے، ایسا لیڈر جس کے ہاتھ انتخابی کامیابی کا نسخہ لگ چکا تھا۔
اس کا میابی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اڈوانی نے رام مندر کے موضوع پر زیادہ وقت اور توانائی صرف کرنا شروع کیا جس سے اُنہیں ناقابل یقین کامیابی مل چکی تھی۔ کانگریس کی اکثریت ختم ہوچکی تھی جس کے سبب وی پی سنگھ کی قیادت میں ایک اتحاد قائم ہوا جسے اڈوانی کی حمایت حاصل رہی جو زیادہ وقت تک جاری نہیں رہی۔ الیکشن کے تین ماہ بعد، فروری ۱۹۹۰ء میں، وی ایچ پی نے بابری مسجد کے خلاف ازسرنو محاذ آرا ہوتے ہوئے عوام کو جوڑنے کے مقصد سے، ماہِ اکتوبر سے کار سیوا شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اپنی کتاب میں اڈوانی نے لکھا ہے کہ اس کی وجہ سے جو سیاسی بھونچال آیا وہ اتفاقی تھا۔ وہ جون میں لندن کا سفر کرنے والے تھے۔ اس سے قبل کہ سفر کا آغاز ہوتا، آر ایس ایس کے جریدہ ’’پنچ جنیہ‘‘ نے اُن کا انٹرویو کیا جس میں سوال کیا گیا کہ اگر حکومت ایودھیا کا تنازع حل کرنے میں ناکام رہی تو کیا ہوگا؟ اس کے جواب میں اڈوانی نے کہا کہ اُن کی پارٹی ۳۰؍ اکتوبر سے شروع ہونے والی کارسیوا کی حمایت کرے گی، اگر اسے روکنے کی کوشش کی گئی تو بی جے پی عوامی تحریک چلائے گی۔
اپنی کتاب میں اڈوانی نے لکھا ہے کہ ’’مَیں اس انٹرویو کو بھول چکا تھا مگر میری اہلیہ نے فون کیا اور پوچھا کہ مَیں نے کیا کہہ دیا ہے؟ اُنہوں نے بتایا کہ اخبارات نے بڑی بڑی سرخیوں میں میرا بیان شائع کیا ہے کہ اڈوانی نے آزاد ہندوستان کی نادر المثال عوامی تحریک کی دھمکی دی۔ بہرکیف اس طرح ماحول بن چکا تھا، موضوع رفتار پکڑ چکا تھا اور اس معاملے میں قدم پیچھے لینے کا سوال ہی نہیں تھا۔ کتاب میںاڈوانی کے بقول ان حالات میں اُنہوں نے مسلمانوں کو پیشکش کی کہ اگر وہ بابری مسجد کی زمین دے دیں تو وہ خود وی ایچ پی سے کہیں گے کہ متھرا اور وارانسی کی مساجد کے خلاف کوئی مہم نہ چلائی جائے۔ اڈوانی نے لکھا کہ مسلمانوں کی جانب سے اطمینان بخش جواب نہ ملنے سے بڑی مایوسی ہوئی جس کے پیش نظر انہوں نے دین دیال اُپادھیائے کے یوم ولادت (۲۵؍ ستمبر) سے بابری مسجد کے خلاف باقاعدہ تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ یہی نہیں، ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۹۰ء سے ایودھیا کیلئے رتھ یاترا نکالنے کا بھی اعلان کیا۔
اڈوانی نے کتاب میں لکھا کہ رام مندر تحریک کے اعلان کو جو حمایت ملی وہ توقع سے کہیں زیادہ تھی، پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ ملک کے عوام میں مذہب کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔ بقول اڈوانی اسی وقت اُنہیں سوامی وویکانند کا یہ جملہ عملاً سمجھ میں آیا کہ ’’مذہب ہندوستان کی روح ہے، اگر آپ یہاں کے عوام کو کچھ سکھانا چاہیں تو مذہب کی زبان میں سکھانا زیادہ کارگر ہوگا۔‘‘ یہ بات سمجھ میں آجانے کے بعد انہوں نے اپنی تقریروں میں مذہبی استعاروں اور حوالوں کو جگہ دی ، ان کی کوئی بھی تقریر پانچ منٹ سے زیادہ کی نہ ہوتی مگر اس کا اثر، بقول اُن کے، کافی زیادہ ہوتا تھا۔ اس سیاسی موضوع کو جب فرقہ وارانہ رنگ دینا شروع ہوا تو فرقہ وارانہ ہم آہنگی مجروح ہوئی اور جگہ جگہ سے فسادات کی خبریں آنے لگیں۔ اس کے بعد ۱۹۹۱ء کے وسط میں جو الیکشن ہوا اس میں بی جے پی کا فیصد ۲۰؍ ہوگیا اور جیتی ہوئی سیٹیں ۱۲۰؍ ہو گئیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہوئے پہلے لوک سبھاالیکشن میں اس کی سیٹیں ۱۶۱؍ تک پہنچ گئیں۔ ۲۰۰۲ء کے بعد سے اس نے تفرقہ پروری کی سیاست کومستحکم کیا اور شاید خود بھی حیران ہوتی ہو کہ اس قسم کی سیاست تو بہت ’’کامیاب‘‘ ہے۔n