Inquilab Logo

لاک ڈاؤن کے بعد کا سیاسی،سماجی،معاشی و تعلیمی منظر نامہ

Updated: May 17, 2020, 4:15 AM IST | Mubarak Kapdi

نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں۔استحصال ،ظلم اور ناانصافی کے خلاف جب نوجوان طبقہ بیدار ہوتا ہے تبھی وہاں انقلاب آتا ہے۔سیاستدانوں کی بے حسی کی بنا پر آج ان نوجوانوں کا مستقبل ہی نہیں بلکہ حال بھی داؤ پر لگ گیا ہے، اسلئے موجودہ حالات سے اُن کا آگاہ رہنا ضروری ہے

Lockdown Lucknow - Pic : PTI
لکھنؤ لاک ڈاؤن ۔ تصویر : پی ٹی آئی

کورونا وائرس کی وبا نے گلوبل ولیج کی اصطلاح کو نئے معنی دئیے ہیںاور عالمی گاؤں ایک بے یقینی کا شکار ہو گیا ہے۔آج ایسا کچھ ہورہاہے جو پہلے کبھی نہیں ہُوا تھا۔ہم نے پہلے کسی فیکٹری،کمپنی کا کارپوریشن کو لاک ڈاؤن ہوتے دیکھا تھا مگر دُنیا کے سارے ۷؍ بر اعظموں کو ایک ساتھ لا ک ڈاؤن ہوتے دیکھا،سُنا اور نہ پڑھا۔ ابن صفی کے ناولوں میں بھی نہیں۔ہاں دُنیا بھر میں صرف ایک فائل مل رہی ہے جو ۲۰۱۵ء کی ہے اور اس میں مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے ایک ٹیڈ ٹاکس میں حیرت انگیز طور پر کہاتھا کہ ’’عنقریب لوگ جنگوں سے نہیں مریں گے بلکہ وبائی امراض سے مریں گے۔لوگوں کا خاتمہ میزائل سے نہیں بلکہ مائیکروب(آنکھوں سے دکھائی نہ دینے والے جرثومے) سے ہوگا۔‘‘یہ سارے ریکارڈ اب ذہن میں کنفیوژن پیدا کر رہے ہیںکہ یہ وائرس ہے یا حیاتیاتی دہشت گردی؟اب یہ جو بھی ہے اس ضمن میں ایک بات تو بالکل طے ہے کہ اس عالمی لاک ڈاؤن کے بعد زندگی پہلے جیسی نہیں ہوگی۔اب یہاں تو کچھ پست ہمّت یہ بھی سوچنے لگے ہیں کہ اس عالمی لاک ڈاؤن کے آگے زندگی  ہی نہیں ہے۔ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک جھٹکا،ایک وقفہ، ایک بڑاسا انٹرول وغیرہ ہے، البتہ اس کے بعد بھی زندگی برقرار ہے۔تھوڑا رنگ روپ مختلف ہوگانفسا نفسی اپنی انتہا پر ہوگی لیکن زندگی باقی ہے،جینا ہے اور اس لئے جینے کی راہیں ڈھونڈنے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا، چاہے نئے سرے سے،نئی ترتیب و ترکیب کے ساتھ!
 ہمارے بچے ،نوجوان اور سماج سے وابستہ ہر فرد کو اس لاک ڈاؤن کے بعد کے سیاسی،سماجی،معاشی اور تعلیمی منظر نامے کو سب سے پہلے بخوبی سمجھنا ہے اور صبر و حکمت کے ساتھ طویل مدتی سہی مگر منصوبہ تیار کرنا  ہے۔اس کیلئے ہمارے نوجوانوں کو سیاسی منظر نامہ سب سے پہلے سمجھنا ہے کیونکہ ہم ہمیشہ ہی سے کہتے آئے ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے پر بد بختی سے سیاست اثر انداز ہو تی ہی ہے مثلاًملک کی تعلیمی پالیسی طے کرنی ہوتو یہی سیاست داں کسی بارہویں پاس کو سارے آئی آئی ٹی اور آئی ایم ایم پروفیسروں کا ہیڈ بنادیتے ہیں۔اس ملک کے معیشت داں اس درجہ قابل ہیں کہ نوبل انعامات سے نوازے جاتے ہیں مگر اُن کی آرا کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سیاست داں کسی ’پکوڑے داں‘ سے معاشیات پر لیکچر دلواتے ہیں۔اس صورتِ حال میں ہمیں حافظ شیرازی کا شعر بار بار یاد آتا ہے
اسپ تازی مجروح شدہ است  بزیرپالاں
طوق ِذریں ہمہ در گردن خرمی بینم
(بہترین عربی گھوڑا تو پالان کے نیچے زخمی حالت میں کراہ رہا ہے جبکہ مجھے گدھوں کی گردنوں میں سونے کے ہار نظر آ رہے ہیں)
 آج یونیورسٹی نہیں بلکہ اسکول کے طلبہ بھی بے چین و مضطرب ہیں۔یہ وبا یا بلا ہے یہ تو اُن کی سمجھ میں آرہا ہے البتہ ملک کے سیاست داں حالات کو کس موڑ پر لے جا رہے ہیں،یہ بات وہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔پالیٹکل سائنس کے پوسٹ گریجویشن کے طلبہ بھی نہ ملکی سیاست کو سمجھ پا رہے ہیں اور نہ ہی عالمگیر سیاسی منظر نامے کو:
 وہ یہ تو سمجھ رہے ہیں کہ واحد سُپر پاور ہونے کا جس کا دعویٰ تھا کہ وہ کبھی کسی سے نہیں ہارا اور ایک نادیدہ وائرس سے ہار گیا ۔اب اس شکست کی بنا پر وہ پوری طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکا ہے حالاں کہ اُس کو یاد صرف یہ رکھنا چاہئے تھا کہ اس کائنات میں سُپریم پاور بھی ہے جسے قدرت کہتے ہیں۔
  ہماری یونیورسٹی کے طلبہ ان واقعات کو سمجھیں کہ در حقیقت امریکہ اور اس کے یورپی حاشیہ بردار ممالک  چاہ رہے تھے کہ اس کورونا وائرس پر کسی طرح سے تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے اور کسی طرح سے چین بھی اُس میں شامل ہو جائے جی ہاں ! ان ممالک کیلئے اس قدر ہولناک عالمی جنگیں بھی صرف ہالی ووڈ کی فلموں کی حیثیت رکھتی ہیں۔امریکہ پیچھے اُس وقت ہٹا، جب اُسے یاد آیا کہ دوسروں کیلئے جو کنواں کھودا، اُس میں وہ خود گڑگیا ہے اور اس کی معیشت کا ایسا چکّہ جام ہوچکا ہے کہ اب وہ کوئی جنگ لڑنے کے لائق نہیں رہا۔
  ہمارے طلبہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ دُنیا کے جس بھی حصّے میں جب جمہوریت ختم ہو جاتی ہے تو وہاں صرف دہشت کا راج ہوتا ہے۔انسانیت کی بقاء کیلئے جمہوریت کا اس دھرتی پر باقی رہنا ضروری ہے تبھی انصاف مل سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی جمہوریت کی بقاء انتہائی ضروری ہے۔ہمیں آج رہ رہ کر جے پرکاش نارائن یاد آرہے ہیں جنہوں نےجمہوریت کی نیّا کو ڈوبتے دیکھ کرمیدان میں اُتر گئے تھے۔بہار میں جمہوریت کی بقاء کی تحریک چھیڑ ی۔سڑکوں پر اور ریلوے کی پٹری پر لاکھوں مزدوروں کی یہ انسانیت سوز تصاویر پر بھی ہمارے طلبہ،ہمارے نوجوان تڑپ نہیں جاتے؟ اور و ہ اس لئے خاموش رہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پھر اُن کو یونیورسٹیوں سے ڈگریوں کے کاغذ کے ٹکڑے نہیں ملیں گے؟
 اب ہمارے نوجوانوں کو سوچنا ہے اور صرف سوچنا ہی نہیں سوال پوچھنا شروع کرنا ہے کہ کیا دُنیا کے کسی ملک کے وزیر اعظم کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اُس کے ملک میں کل مزدور اور روزینہ محنت کشوں کی تعداد کتنی ہے؟ جس ملک میں ۴۰؍ کروڑ سے زیادہ آبادی ان مزدوروں پر مشتمل ہو،وہ بھوک اور چھت کیلئے جب سڑکوں پر اُتریں گے تب کیا تباہی مچے گی؟ اس کا کسی کو اندازہ نہیں؟ ملک سے سارے ڈیٹا غائب ہیں،کیا ملک سے مزدوروں کی تعداد کا رجسٹر بھی گُم ہوچُکا ہے اور اس لائق بھی نہیں کہ اُن کا ڈیٹا  محفوظ رکھا جاسکے؟
 نوجوانو! آپ کے ڈگری کورس کے پہلے سال کے نصاب ہی میں یہ لکھا ہے کہ کوئی دوا سب سے پہلے آر اینڈ ڈی ڈپارٹمنٹ میں کئی سارے جانچ سے گزرتی ہے۔پھر وہ فارما کمپنی میں مینو فیکچر ہوتی ہے۔مشینوں سے پیک تو ہوتی ہے البتہ اس کے بڑے بڑے بکس یہ مزدور ہی ڈھوتے ہیں۔اپنے سروں پر اُٹھا کر دوا کی دُکانوں میں پہنچاتے ہیں۔اب سب سے ضروری چیز یعنی دوا کے بکس پہنچانے کا انحصار مزدوروں پر ہے اور اُنہیں مزدوروں کو بھوکے پیاسے سیکڑوں میل چل کر اُن کے گاؤں میں اگر بھیجا جا رہا ہے تو عوا م تک دوا کیسے پہنچے گی؟ضرورتِ زندگی کی ہر شئے کی سپلائی کا یہی طریقہ ہے، یہ صرف طلبہ نہیں بلکہ عام آدمی کو بھی پتہ ہے۔پھر اُن لاکھوں مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیوں؟ یہ مزدور ہماری زندگی کا اٹوٹ حصّہ ہیں۔ یہ جو حکمراں نہیں سمجھتے اُنہیں ایک منٹ بھی  بر سرِ اقتدار رہنے کا حق حاصل ہے؟ مہاتما گاندھی کا چشمہ اور اُن کی لاٹھی کو بطور اشتہاری آئٹم استعمال کر نے والے ہمارے سیاست دانوں نے راشٹر پتا کا مضمون’بھنگی‘ پڑھا تھا جس میں اُنہوں نے لکھا تھا کہا کہ اُس کے بغیر سماج اور ملک ادھورا ہے۔
  نوجوانو! اب آپ کو اس کیلئے بھی بحث و مباحثے اور نکڑ ناٹک شروع کر نے ہیں جس میں یہ بتانا ہے کہ یہ ملک بیوروکریٹ چلاتے ہیں، وہ فیصلے کرتے ہیں اور فیصلے کیسے کرتے ہیں اُ س کے لئے مثال موجود ہے کیرالا کے آئی اے ایس افسر نوح باوا کی جن کے تیزی کے ساتھ اور مناسب فیصلوں کی وجہ سے کورونا کی جنگ سب سے پہلے کیرالا نے جیت لی۔البتہ نوجوانو! آپ کو ہزار ہا بیورو کریٹ سے سوال کرنا ہے کہ وہ کہاں دُبکے بیٹھے ہیں اور اُنہوں نے سیاست دانوں کی غلامی کیوں منظور کرلی؟ وہ سیاست داں زیادہ سے زیادہ آپ کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔اس کیلئے ان سول سروسیز افسران کی بیگ تیار کیوں نہیں کی کہ چاہے جہاں تبادلہ ہوجائے وہ اپنی ضمیر کی آواز ہی سنیں گے اور کم ازکم لاکھوں  مزدوروں کو بھوکے پیاسے بے سہارا نہیں چھوڑیں  گے۔
 نوجوانو! گزشتہ دہائی میں الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے ایک بڑے میڈیا نے جنم لیا جس کا نام ہے: سوشل میڈیا۔سبھی لوگ اس آسان و تیز رفتار میڈیا سے بے حد متاثر ہوئے اور کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ میڈیا اسکول و کالج سے ترقی کرتے یونیورسٹی کب بن گیا۔سیاست دانوں نے اس یونیورسٹی کو ہائی جیک کر لیا اور اپنی جھوٹی سیاست اور مخالفین پر رکیک حملے کیلئےاسے استعمال کرنے لگے۔اُنہیں معلوم تھا کہ آج کروڑوں نوجوان بے روزگار ہیں۔اُنہیں روزگار مہیا کرانے کا ہُنر تو وہ نہیں جانتے  البتہ اُن کے استحصال کا فن وہ جانتے ہیں لہٰذا اُن میں سے لاکھوں نوجوانوں کو اِن سیاستدانوں نے کرائے پر لینا شروع کیا اور اُنہیں مخالفین،جمہوریت پسندوں، انصاف پسندوں اور دانشوروں کو نشانہ بنانے کی تربیت دی جانے لگی اور آج یہ ایک یونیورسٹی بن گئی جس میں صرف گالیاں دینا اور کردار کشی کرنا سکھایا جاتا ہے بلکہ ان گالیوں کیلئے اُنہیں ایک سو سے پانچ سو  روپے فی دشنام طرازی پر مامور کیا جاتا ہے تاکہ حق پسندوں کی کردار کشی اور ٹرولنگ ہو۔نوجوانو! کرونا وائرس کے رابطے کی کڑی کی طرح اس وہاٹس ایپ یونی ورسٹی کی کڑی کو بھی آپ ہی کو توڑنا ہے۔(باقی آئندہ ہفتے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK