Inquilab Logo

بہار میں نئی سیاسی صف بندی کا امکان

Updated: February 23, 2020, 2:36 PM IST | Dr Mushtaque Ahmed

آئندہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر جہاں بی جے پی نے نتیش کمار کی قیادت قبول کرلی ہے، وہیں یوپی اے کے خدوخال ابھی واضح نہیں ہیں۔ دریں اثنا پرشانت کشور اور کنہیا کمار بھی عوام کو متاثر کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اب دیکھئے کیسی سیاسی صف بندی ہوتی ہے؟

تیجسوی یادو اور نتیش کمار ۔ تصویر : آئی این این
تیجسوی یادو اور نتیش کمار ۔ تصویر : آئی این این

دہلی کے اسمبلی انتخاب کے بعد اب ملک کی نگاہیں بہار پر لگی ہوئی ہیں کہ سالِ رواں کے نومبر سے پہلے انتخابی عمل کو پورا ہونا ہے۔ چوں کہ اس وقت ریاست میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی قیادت والی جنتا دل متحدہ اور  بی جے پی کی مشترکہ حکومت ہے، اس لئے یہ طے مانا جا رہاہے کہ بہار میں ایک طرف این ڈی اے ہوگی تو دوسری طرف حزبِ اختلاف کی پارٹیاں ہوں گی۔ گرچہ بہار میں سب سے بڑی سیاسی جماعت راشٹریہ جنتا دل ہے لیکن تنظیمی سطح پر اس کی حالت قدرے مستحکم نہیں ہے کہ اس میں قیادت کا بحران ہے ۔ظاہر ہے کہ راشٹریہ جنتا دل لالو پرساد یادو کے دم خم سے چلتی ہے اور وہ ان دنوں رانچی کی جیل میں قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پٹنہ میں ان کے خاندان کے اندر ہی رسّہ کشی کا ماحول ہے کہ ایک طرف ان کا بیٹا تیج پرتاپ کس وقت کون سا رخ اختیار کرے گا؟ یہ کہنا مشکل ہے اور تیجسوی یادو جو اس وقت بہار اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے لیڈر ہیں انہیں پارٹی کے اندر مکمل طورپر قبولیت نہیں ملی ہے کہ اکثر وبیشتر کئی بزرگ پارٹی لیڈران ان کے رویے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔ بالخصوص رگھوونش پرساد سنگھ جیسے قد آور لیڈر جو اپنی بیباکی کیلئے مشہور ہیں، ان کا تبصرہ بھی ہوتا رہاہے۔
 بہر کیف!ایک طرف این ڈی اے نے آئندہ اسمبلی انتخاب کیلئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی قیادت ہی برقرار رکھی ہے کہ بی جے پی  کی قیادت نے وزیر اعلیٰ کیلئے نتیش کمار کے نام  ہی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہےلیکن دوسری طرف راشٹریہ جنتا دل تیجسوی یادو کے نام پر آئندہ اسمبلی انتخاب میں جانے کی بات تو کرتی ہے مگران کے اتحادیوں نے اس پر اب تک کوئی حتمی فیصلہ ظاہر نہیں کیا ہے۔ بالخصوص عظیم اتحاد میں شامل کانگریس اور ہندوستانی عوامی مورچہ جس کے لیڈر سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی ہیں، نے صاف طورپر کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے نام کا فیصلہ عین وقت پر لیا جائے گا۔ اس سے یہ اشارہ تو مل ہی گیا ہے کہ عظیم اتحاد کے اندر قیادت کو لے کر اتفاق نہیں ہے۔
  جہاں تک بہار میں تیسرے مورچے کا سوال ہے تو اب تک تو ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ بہار میں این ڈی اے اور عظیم اتحاد کے درمیان ہی مقابلہ ہوگا مگر حال ہی میں جنتا دل متحدہ کے سیاسی مشیر کار اور پارٹی کے نائب صدر پرشانت کشور جنہیں کچھ دنوں قبل نتیش کمار نے پارٹی سے باہر کردیا ہے، انہوں نے اعلانیہ طورپر نتیش کمار کی قیادت کو چیلنج کیا ہے اور ان کی ۱۵؍ سالہ حکومت کی کارکردگی پر بھی کئی طرح کے سوالات اٹھائے ہیں اور الزامات عائد کئے ہیں۔ پرشانت کشور کے متعلق ہر شخص جانتا ہے کہ وہ بنیادی طورپر  بی جے پی کیلئے کام کرتے رہے ہیں۔ گجرات میں جب نریندر مودی وزیر اعلیٰ تھے تو ان کے انتخابی عمل میں شامل تھے۔۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں بھی وہ انہی کیلئے  کام کر رہے تھے۔بہار میں پہلی بار وہ اس وقت نمودار ہوئے جب نتیش کمار نے  بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ ۲۰۱۵ء کے اسمبلی انتخاب میں شامل ہوئے تھے اور اس وقت پرشانت کشور کو کافی شہرت بھی ملی تھی کہ وہ نتیش کمار کی رہائش گاہ پر رہ کر ہی انتخابی عمل کو با اثر بنانے کی حکمت عملی طے کر رہے تھے۔ ۲۰۱۵ء کے اسمبلی انتخاب میں راشٹریہ جنتا دل اور جنتا دل متحدہ اتحاد کو ایک تاریخی فتح حاصل ہوئی اور  بی جے پی کو بہار کے عوام الناس نے حکومت سے بے دخل کردیا لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد نتیش کمار پھر بی جے پی کے ساتھ چلے گئے اور اب تک بی جے پی اتحاد کے ساتھ ہی حکومت چل رہی ہے ۔حالیہ دنوں میں پرشانت کشور نے نتیش کمار کی دُہری پالیسی پر اپنی ناراضگی ظاہر کی اور پریس بیان کے ذریعہ اپنا موقف ظاہر کیا کہ نتیش کمار ایک طرف گاندھی کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف گوڈسے نظریہ کے علمبرداروں کے ساتھ حکومت چلا رہے ہیں۔ بالخصوص شہریت ترمیمی قانون اور این پی آر، این آر سی کے مسئلے پر نتیش کمار کا کوئی واضح نظریہ سامنے نہیں آیا ہے کیوں کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں سی اے اے کی حمایت کی اور بعد میں این پی آر کے تعلق سے بھی کو ئی واضح نظریہ ظاہر نہیں کیا بلکہ این پی آر کے خاکوں میں تبدیلی کی بات کہی جبکہ پرشانت کشور کا موقف ہے کہ مرکزی حکومت کا یہ سیاہ قانون نہ صرف اقلیت طبقے کیلئے مضر ہے بلکہ آئین کے خلاف ہے اور اس سے دلت اور پسماندہ طبقے کے غریبوں کو بھی پریشانی ہوگی۔
  پرشانت کشور کے ساتھ جنتا دل متحدہ کے راجیہ سبھا رکن پون ورما کا بھی یہی موقف رہا ہے لیکن نتیش کمار نے ان دونوں کو پارٹی سے نکال دیا ہے ۔ اب پرشانت کشور نے اعلانیہ طورپر بہار میں ایک نئی سیاسی صف بندی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے پٹنہ میں ایک پریس کانفرنس کرکے یہ اعلان کیا کہ آئندہ تین ماہ کے اندر وہ ریاست کے ایک کروڑ نوجوانوں کو اپنے ساتھ جوڑیں گے اور اس کیلئے انہوں نے جدید تکنیک پر مبنی سوشل میڈیا ایپ کا سہارا لیا ہے اور اس پر ’یوتھ اِن بہار‘ سائٹ پر ۱۸؍ سال سے۳۵؍سال تک کے نوجوانوں کو ایک نئے پلیٹ فارم ’بات بہار کی ‘کے ساتھ جڑنے کی اپیل کی ہے ۔ اب تک تین لاکھ سے زیادہ نوجوان محض دو دنوں کے اندر اُن کے ساتھ جڑ چکے ہیں ۔ اگر چہ پرشانت کشور نے نتیش کمار پر شخصی حملہ سے پرہیز کیا ہے اور یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ وہ ماضی میں  بی جے پی کیلئے کام کرتے رہے ہیں لیکن اب وہ بہار کیلئے کام کریں گے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں بہار کے مزدوروں کی ہجرت سب سے زیادہ ہے ۔ تعلیمی نظام درہم برہم ہونے کی وجہ سے یہاں کے طلبہ دیگر ریاستوں کے تعلیمی اداروں میں بھرے پڑے ہوئے ہیں۔ آخر بہار کب بدلے گا اور یہاں سے مزدوروں کی ہجرت کب کم ہوگی اور بہار کے لوگوں کو بنیادی حقوق کب حاصل ہو سکیں گے؟
 انہو ں نے نتیش کمار کی پندرہ سالہ قیادت پر بھی اس لئے سوال اٹھایا ہے کہ ان کے عہد میں بھی بہار میں کوئی بڑی صنعت اور کل کارخانے قائم نہیں ہو سکے۔ نتیجہ ہے کہ یہاں سے بیروزگار وں کی ہجرت دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔دریں اثنا کانگریس کے ایک با اثر ممبر اسمبلی ڈاکٹر شکیل احمد خان اور سی پی آئی کے کنہیا کمار مشترکہ طورپر گزشتہ ایک ماہ سے بہار کا طوفانی دورہ کر رہے ہیں ۔بالخصوص سی اے اے ، این پی آر او راین آر سی کے خلاف جہاں کہیں بھی غیر معینہ مظاہرے اور دھرنے ہو رہے ہیں وہاں ان دونوں کی تقریریں ہو رہی ہیں اور تقریباً ہر ضلع میں عوامی جلسے بھی ہو رہے ہیں۔ ان کے جلسوں میں ایک جمِ غفیر دیکھا جا رہاہے۔
  باوثوق ذرائع سے یہ خبر بھی آر ہی ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں ڈاکٹر شکیل احمد، کنہیا کمار اور پرشانت کشور کے ساتھ ساتھ راجیو رنجن عرف پپو یادو وغیرہ بہار میں سیاسی تبدیلی کیلئے صف بند ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ پرشانت کشور نے انتخابی سیاست سے دور رہنے کی بات کہی ہے لیکن ایک کروڑ نوجوانوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کی وکالت یہ اشارہ ضرور دے رہاہے کہ وہ بہار کی سیاست کو نیا رخ دینے کی فکر میں ضرور ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا این ڈی اے اور عظیم اتحاد سے الگ کوئی نئی سیاسی جماعت ابھرتی ہے کہ اس وقت بہار کے عوام الناس ایک نئے چہرے کی تلاش میں ضرور ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ نتیش کمار کی طرح ’صاف وشفاف‘ سیاسی کردار کا ضرور ہو

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK