Inquilab Logo

پراچی نگم بمقابلہ ٹرول آرمی

Updated: May 02, 2024, 1:15 PM IST | Mumbai

ہوا یہ کہ یوپی بورڈ کے نتائج ظاہر ہوئے، پراچی نگم نے اول مقام پایا اور اس کی تصویر منظر عام پر آئی تو ٹرولروں نے اس کی چہرے پر اُگے ہوئے بالوں کو دیکھ کر اُلٹی سیدھی کہنا شروع کردیا۔ حالانکہ سوشل میڈیا کے بہت سے صارفین نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور اُسے دعائیہ کلمات سے نوازا۔

Prachi Nigarm. Photo: INN
پراچی نگم۔ تصویر: آئی این این۔

یوپی بورڈ نے ہفتہ عشرہ قبل دسویں اور بارہویں کے نتائج ظاہر کئے ہیں۔ ایس ایس سی میں جس طالبہ نے پوری ریاست میں اول مقام حاصل کیا وہ ہیں پراچی نگم جنہوں نے ۶۰۰؍ میں سے ۵۹۱؍ نشانات حاصل کرکے ملک بالخصوص ریاست بھر میں اپنا، اپنے والدین اور اساتذہ کا نام روشن کیا ہے۔ یہ طالب علم قابل فخر ہے۔ آج اگر اس نے یوپی بورڈ میں اول مقام حاصل کیا ہے تو کل یونیورسٹی ٹاپ کرسکتی ہے اور پرسوں سول سروسیز میں سرفہرست آسکتی ہے لہٰذا ضرورت تھی کہ اس کی کامیابی پر فخر و انبساط کا اظہار کیا جاتا اور اسے دُعاؤں اور شبھ کامناؤں سے نوازا جاتا مگر ہمارے سماج کی بدقسمتی یہ ہے کہ بات بات پر کمنٹ کرنے اور خود کو حاضر دماغ اور حاضر جواب باور کرانے والوں کی ایسی جماعت پیدا ہوگئی ہے جو لوگوں کا اچھا نہیں دیکھ سکتی اور اُن کی خوشی میں شریک نہیں ہوسکتی۔ تمسخر اُڑانا، بے تکی باتیں اور جلے بھنے تبصرے کرنا اس جماعت کی عادت ہے۔ 
اگر اب بھی آپ نے اسے نہ پہچانا ہو تو عرض ہے کہ اسے ’’ٹرول آرمی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہوا یہ کہ یوپی بورڈ کے نتائج ظاہر ہوئے، پراچی نگم نے اول مقام پایا اور اس کی تصویر منظر عام پر آئی تو ٹرولروں نے اس کی چہرے پر اُگے ہوئے بالوں کو دیکھ کر اُلٹی سیدھی کہنا شروع کردیا۔ حالانکہ سوشل میڈیا کے بہت سے صارفین نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور اُسے دعائیہ کلمات سے نوازا مگر وہ جو ٹرول کرنے والے ہیں اُنہیں اِس ہونہار طالبہ کے مارکس، اُس کا اول آنا اور پوری ریاست کے طلبہ کیلئے قابل رشک بننا دِکھائی نہیں دیا، اُنہیں اُس کے چہرے پر اُگے ہوئے بال ہی دکھائی دیئے اور اُنہوں نے چند بُرے تبصرے کئے جو پراچی نگم کی حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہرچند کہ اُس نے ہمت سے کام لیا اور جو اکا دکا انٹرویو دیئے اُن میں وہ بڑی پُرعزم محسوس ہوئی مگر ایک جملے میں اُس کا کرب چھلک ہی گیا جب اُس نے کہا کہ کاش مَیں اول نہ آتی۔ یہ جملہ اُس نے اس پس منظر میں کہا کہ اگر وہ اول نہ آتی تو اُس کی تصویرنہ چھپتی اور لوگوں کو اُس کے چہرے پر اُگے ہوئے بال دکھائی نہ دیتے۔ غور فرمائیے ہمارا سماج اخلاقیات کی کتنی پستی میں چلا گیا ہے کہ ہم ایک محنتی طالبہ کی کارکردگی نہیں دیکھتے، چہرا دیکھتے ہیں۔ یقیناً اِن بدمذاق اور بے حیا لوگوں میں اکثریت اُن کی ہوگی جو پراچی نگم جیسی طالبات کے ساتھ کسی امتحان میں بیٹھیں تو پاسنگ مارکس بھی حاصل نہ کریں۔ 
یہ نہایت افسوسناک طرز عمل ہے جس کی مذمت سماج کے تمام صحیح الذہن لوگوں کو کرنی چاہئے۔ اُنہیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کہیں اُن کے گھر میں، اُن کے خاندان میں، متعلقین میں اور آس پاس کی دُنیا میں ایسے افراد تو نہیں جو حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں اور لوگوں کی زندگی میں زہر گھولنے کا کام کرتے ہیں ؟ اگر اُن کی رسائی ایسے لوگوں تک ہوجائے تو لازم ہے کہ وہ اُنہیں سمجھائیں کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں کتنا نقصان دہ ہے۔ 
اصل میں، جب سوشل میڈیا نہیں تھا، تب کچھ کہنے سے پہلے آدمی سوچتا تھا کہ کہے یا نہیں کہے۔ اب چونکہ مخاطب سامنے نہیں ہوتا اسلئے جو منہ میں آیا بک دیاکا رجحان عام ہوگیا ہے۔ بے سر پیر کے تبصروں پر غور کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ ان میں ذہانت ہے مگر خدا کی عطا کردہ اس ذہانت کا کتنا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ ٹرولر چاہے جو کریں، انہیں ذلیل ہونا ہے۔ سرخرو تو پراچی جیسے طلبہ ہی ہونگے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK