Inquilab Logo

پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی تیاری

Updated: September 22, 2021, 3:53 PM IST | Pravez Hafeez

پچھلے چند ہفتوں میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی اور امریکی انخلا میں افراتفری کی وجہ سے ہوئی رسوائی نے امریکی حکومت کوبرہم کردیا ہے اور جو بائیڈن انتظامیہ اپنی خفت مٹانے کے لئے قربانی کے ایک بکرے کی شدت سے تلاش کررہا ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

امریکہ کی سر زمین پر تاریخ کے سب سے خوفناک دہشت گردانہ حملوں کے بعد جب جارج ڈبلیو بش نے القاعدہ کا قلع قمع کرنے اور طالبان کو سبق سکھانے کیلئے افغانستان پر چڑھائی کی تو اس وقت انہیں اس اہم آپریشن کی کامیابی کیلئے پاکستان کے سہارے کی ضرورت پڑی۔ افغانستان کی دلدل سے نکلنے کیلئے تین سال قبل طالبان کو مذاکرات پرآمادہ کرنے کیلئے بھی واشنگٹن نے اسلام آباد کا ہی دامن تھاما تھا۔لیکن بیس سال بعد ناکام و نامراد ہوکر جنگ زدہ ملک سے راہ فرار اختیار کرنے کے بعد واشنگٹن کاپیغام یہ ہے کہ اسے پاکستان کی ضرورت نہیں ہے۔  پچھلے چند ہفتوں میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی اور امریکی انخلا میں افراتفری کی وجہ سے ہوئی رسوائی نے امریکی حکومت کوبرہم کردیا ہے اور جو بائیڈن انتظامیہ اپنی خفت مٹانے کے لئے قربانی کے ایک بکرے کی شدت سے تلاش کررہا ہے۔ امریکہ نے اپنی پیشانی پر لگے داغ دھونے کے لئے پہلے تو اشرف غنی حکومت اور افغان آرمی کی نااہلی کو طالبان کی فتح اور انخلا کی بدنظمی کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی لیکن جب مشیروں نے عالم پناہ کو بتایا کہ غنی حکومت تو امریکہ کی کٹھ پتلی تھی اور افغان فوج تو امریکی فوجی ماہرین کے ذریعہ تربیت یافتہ تھی اس لئے ان کی ناکامی بھی امریکہ کی ہی ناکامی کہلائے گی،تو واشنگٹن کی نظر انتخاب دیرینہ دوست پاکستان پر پڑی۔ پچھلے ہفتے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے امریکی کانگریس میں افغانستان میں امریکی کی ناکامیوں کا ٹھیکرہ پاکستان کے سر پھوڑ دیا۔ انہوں نے پاکستان پر امریکی اور نیٹو افواج کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ طالبان جنگجوؤں خصوصاً حقانی نیٹ ورک کو پناہ فراہم کرنے اور افغانستان کے مستقبل پر بار بار اپنا موقف تبدیل کرنے کا الزام لگا دیا۔ بلنکن نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ امریکہ پاکستان سے اپنے رشتوں پر از سر نو غور کرے گا۔بلنکن کی باتوں پر عمران خان نے چراغ پا ہو کر فرمایا کہ انہوں نے’’ایسی جاہلانہ باتیں  ‘‘پہلے کبھی نہیں سنی تھیں۔ بش نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں جس پاکستان کو فرنٹ لائن حلیف کا رتبہ عطا کیا تھا وہ آج بائیڈن حکومت کی نگاہوں میں عسکریت پسندوں کا سرپرست بن چکا ہے۔ عمران خان کی خارجہ پالیسی ان کی دیگر پالیسیوں کی مانند ہی ناکام ہے اور خود کپتان سفارتی آداب سے ناآشناہیں۔سقوط کابل کے بعد جوش میں آکر انہوں نے یہ بیان دے ڈالا کہ طالبان نے’’غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی ہیں۔‘‘ بائیڈن پہلے ہی چاروں جانب ہورہی تنقیدوں سے بھرے بیٹھے تھے۔ عمران کے اس بیان نے ان کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا۔ افغانستان میں امریکہ کی پسپائی اور شرمناک انخلا پر چین اور روس جیسے حریف بغلیں بجارہے ہیں تو دوسری جانب برطانیہ اور فرانس جیسے نیٹو اتحادی بھی بے حد ناخوش ہیں۔ حریف اور حلیف دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں ناکامی نے اقوام عالم میں امریکہ کی ساکھ کو بٹہ لگایا ہے اور اس کی عالمی بالا دستی پر سوالیہ نشان کھڑے کردیئے ہیں۔ برطانیہ کے وزیر دفاع بین والیس نے کہ دیا کہ امریکہ سپر پاور یاعالمی طاقت نہیں رہا۔اس صورتحال سے بچنے کی خاطر ہی بائیڈن حکومت پاکستان کے سر پر افغانستان کی ناکامی کا ملبہ ڈالنے پرآمادہ ہے۔  پاکستان پر افغانستان میں دوہرا کردار نبھانے کا امریکہ کا الزام کوئی نیا نہیں ہے۔ ۲۰۱۹ء  میں واشنگٹن پوسٹ نے ’’ دی افغانستان پیپرز‘‘ کے عنوان سے خفیہ سرکاری دستاویزات پر مبنی ایک طویل رپورٹ شائع کی تھی جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان افغانستان میں شروع سے ہی ’’ڈبل گیم ‘‘کھیلتا رہا ہے۔ پاکستان وار آن ٹیرر میں اتنا اہم پارٹنر تھا کہ اسے امریکہ نے major non-Nato ally  کا درجہ دے رکھا تھا اور اس کی خدمات کے عوض  میں ۳۳؍ اربوں ڈالرکی فوجی امداد سے نوازا تھا۔ لیکن اسی پاکستان پر یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ وہ درپردہ طالبان اور القاعدہ کے لیڈروں کی مدد بھی کرتا ہے۔ القاعدہ کے سربراہ اوسامہ بن لادن کو امریکی فوج دس برسوں تک افغانستان کے پہاڑوں میں ڈھونڈتی رہی جبکہ وہ اسلام آباد سے محض پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایبٹ آباد میں ایک حویلی نما گھر میں رہائش پذیر تھے جہاں ۲۰۱۱ء  میں امریکی بحریہ کے خصوصی دستے نے انہیں مار ڈالا۔  یہ قیاس آرائی ہو نے لگی کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے ہی یہاں القاعدہ لیڈر کی خفیہ رہائش کا بندوبست کیا ہوگا۔حالانکہ پاکستانی حکمرانوں نے طالبان یا کسی اور عسکریت پسند تنظیم کی سرپرستی، حمایت یا اس کے ساتھ خفیہ سانٹھ گانٹھ سے ہمیشہ انکار کیا ہے لیکن پاکستان کی مشکل یہ ہے کہ اس کے چند سیاسی اور عسکری قائدین پر بلند بانگ دعوے کرنے کا خبط سوار ہے۔ چند سال قبل آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل حمید گل نے دعویٰ کیا تھا کہ تاریخ میں لکھا جائے گا کہ آئی ایس آئی نے پہلے امریکہ کی مدد سے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دی اور اس کے بعد آئی ایس آئی نے(افغانستان میں) امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست دی۔ یہ دعویٰ انہوں نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران کیا تھا۔ اب اس طرح کے واشگاف دعووں کے بعد اگر امریکہ پاکستان پر ڈبل گیم کھیلنے کا الزام لگاتا ہے یا اس کی وفاداریوں پر شک کا اظہار کرتا ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے!طالبان پر دباؤ ڈالنےکیلئے بین الاقوامی برادری نے افغانستان کو اس وقت تک مالی امداد دینے سے انکار کردیا ہے جب تک کہ اس کے مطالبات پورے نہیں ہوتے ہیں۔ ان میں خاص مطالبات یہ ہیں: وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل جس میں تمام نسلی اور طبقاتی گروہوں کی نمائندگی ہو، انسانی حقوق بشمول عورتوں کے حقوق کے مکمل تحفظ کی یقین دہانی اور افغانستان کی سرزمین کو ہر طرح کی دہشت گردی سے پاک رکھنے کی ضمانت۔ اسوقت افغانستان بھاری اقتصادی بحران سے دوچار ہے اور اقوام متحدہ نے ملک میں غذائی قلت کے خطرے کی وارننگ دی ہے۔  عمران خان نے تاجکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی کانفرنس میں ایک بار پھر عالمی برادری سے اس مشکل گھڑی میں افغانستان کے عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کی اپیل کی ہے۔ ’’ہمیں یاد رکھناچاہئے کہ افغان حکومت کا انحصار غیر ملکی ایڈ پر ہے اور اس وقت ضروری ہے کہ بلاتاخیر افغانستان کو امداد فراہم کی جائے۔‘‘ لیکن ان کی اپیل کا ابھی تک اثر نہیں ہوا ہے۔ افغانستان میں جو انسانی بحران پیدا ہو رہا ہے اس کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑے گا۔ اندیشہ یہ بھی ہے کہ بدگمان بائیڈن حکومتFATF کی گرے  لسٹ سے پاکستان کو نکلنے نہ دیں اور IMF سے اسے متوقع بیل آؤٹ پیکیج  بھی رکوادیں تاکہ اسلام آباد کے مالی مصائب میں اضافہ ہوجائے۔ در اصل سپر پاور کی نہ دوستی اچھی ہے اور نہ ہی ناراضگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK