مودی کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ایک دلکش نعرے کی ناکامی کے بعد، دوسرا دلکش نعرہ دیتے ہیں اور پہلا نعرہ بھول جاتے ہیں۔ اس کا خمیازہ ملک گزشتہ دس سال سے بھگت رہا ہے۔
EPAPER
Updated: July 15, 2024, 5:15 PM IST | NK Singh | Mumbai
مودی کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ایک دلکش نعرے کی ناکامی کے بعد، دوسرا دلکش نعرہ دیتے ہیں اور پہلا نعرہ بھول جاتے ہیں۔ اس کا خمیازہ ملک گزشتہ دس سال سے بھگت رہا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ایک دلکش نعرے کی ناکامی کے بعد، دوسرا دلکش نعرہ دیتے ہیں اور پہلا نعرہ بھول جاتے ہیں۔ اس کا خمیازہ ملک گزشتہ دس سال سے بھگت رہا ہے۔ اب جبکہ مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے، تو عوام نے مودی کی ناکامیوں پر باتیں کرنی شروع کردی ہیں اوراسی حوالے سے ان کی لیڈرشپ کو بھی مسترد کرنا شروع کر دیا ہے۔ سی آئی آئی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق کسانوں کی انتھک محنت اور اخراجات سے ملک میں پیدا ہونے والے۳۵؍ کروڑ ٹن پھلوں اور سبزیوں میں سے۳۵؍ فیصد ضائع ہو جاتا ہے۔ کیا کوئی کسان معاشرہ ایسی بے کار حکومت کو معاف کر سکتا ہے؟
یوپی کے اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل۲۰۱۶ء میں بریلی میں پی ایم مودی کی اُس عوامی میٹنگ کو یاد رکھیں، جس میں انہوں نے کسانوں کی آمدنی دُگنی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کسانوں کی حقیقی آمدنی (افراطِ مہنگائی کے بعد) میں کمی آئی ہے۔ پھر۲۰۱۹ء کے عام انتخابات ہوئے۔ اس سے چند ماہ قبل مودی جی نے ایک بار پھر ایک اور دلکش نعرہ ’ٹاپ‘ اسکیم شروع کی۔ روزمرہ کی زندگی میں تین سب سے ضروری سبزیاں ہیں ، آلو، پیاز اور ٹماٹر۔ آج ملک ان کی مہنگائی سے کراہ رہا ہے۔ اس اسکیم کا نام ان کے انگریزی ناموں کے پہلے حروف کو ملا کر ’ٹاپ‘ رکھا گیا تھا۔ اس کا مقصد ان کی دیکھ بھال اور مارکیٹنگ کیلئے منڈیوں کے انضمام کی خاطر ملک گیر کولڈ چین بنانا تھا تاکہ کسان مجبوری میں فروخت نہ کریں۔ بعد میں اس اسکیم کو بڑھا کر اسے’ٹوٹل‘ کا نام دیا گیا اور اس میں ۲۲؍ مزید اشیاء شامل کی گئیں۔ نئی سکیم پرانی سکیم سے بھی زیادہ پرکشش تھی لیکن آج دس سال میں بھی کولڈ اسٹوریج کی گنجائش ۳۵۰؍ لاکھ ٹن سے صرف۱۱؍ فیصد بڑھ کر۳۹۴؍ لاکھ ٹن تک ہی پہنچ پائی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اب کوئی راہل کو مذاق میں نہیں لیتا، جب وہ بولتے ہیں تو بی جے پی ہنستی نہیں، گھبراتی ہے
سی آئی آئی کی رپورٹ کے مطابق کسانوں کی انتھک محنت سے پیدا ہونے والے۳۵؍ فیصد پھل اور سبزیاں کولڈ چین جیسی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہیں۔ اس وقت آلو، پیاز اور ٹماٹر کی قیمتوں میں بالترتیبي.... ۳۵؍ اور۷۰؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس مہنگائی نے گزشتہ انتخابات میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال ان دنوں ٹماٹر۲۵۰؍ سے۳۰۰؍ روپے فی کلو فروخت ہوئے تھے۔ آگرہ فرخ آباد کے ایک کسان نے دو سال پہلے آلو بیچ کر بازار میں لے جانے کا کرایہ نہ ملنے کی وجہ سے آلو کو سڑکوں پر پھینک دیا تو بے بس کسانوں نے مہاراشٹر کے لاسلگاؤں علاقے میں پیاز اور کرناٹک میں ٹماٹر دفن کر دیا۔ کھیتوں، پھر یہ مسئلہ فوڈ پروسیسنگ پلان کی ناکامی کے ساتھ ساتھ دیکھ بھال کا ہے۔ کیا آج تک ان اسکیموں کے تحت منڈیوں کو مربوط کیا گیا ہے؟ فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری ان تین فصلوں میں سے۱۰؍ فیصد بھی پیدا نہیں کر پاتی۔ اگر آپ غور سے سوچیں تو کیا کولڈ چین کی تعمیر اتنی مشکل اور سرمایہ کاری کی کوشش ہے؟ یہی وجہ ہے کہ کرناٹک کے کسان نے جو ٹماٹر۱۰؍ روپے فی کلو میں بیچا ہے وہ دہلی میں ۱۵۰؍ روپے کا ہو جاتا ہے؟ اس کی وجہ حکومت کی مارکیٹ میں مداخلت ہے یعنی مصنوعات کی قیمت خرید کو یقینی نہ بنانا۔ مہنگائی میں کمی کا انحصار حکومت کی بامعنی کوششوں پر ہے۔ آلو غریب اور متوسط طبقے کی اہم غذائی شے ہے۔ یہ بے شمار طریقوں سے استعمال ہوتا ہے۔ یہ بازاری قوتوں کا کمال ہے کہ کسانوں سے اسے۵؍سے۱۰؍ روپے فی کلو کے حساب سے خریدنے کے بعد بڑی کمپنیاں اس کی چپس بنا کر۴۰۰؍ سے ۵۰۰؍روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کر رہی ہیں۔ چپس کی صنعت کوئی راکٹ سائنس استعمال نہیں کرتی اور نہ ہی اس پر اربوں کی لاگت آتی ہے۔ (ایک طویل مضمون سے اقتباس)