Inquilab Logo

پرینکاگاندھی اور خواتین، اُترپردیش کے سیاسی ماحول میں سماجی تبدیلی کی کوشش

Updated: December 19, 2021, 3:09 PM IST

’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ صرف ایک نعرہ نہیں، خواتین میں بیداری کا ایک منتر ثابت ہورہا ہے، زیر نظر کالم میں انقلاب نے اسی حوالے سے یوپی کا سیاسی درجہ حرارت دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ الیکشن میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

Priyanka Gandhi.Picture:INN
پرینکاگاندھی ۔ تصویر: آئی این این

 پانچویں چھٹی میں زیر تعلیم  سات آٹھ بچیوں پر مشتمل ایک گروپ ، اسکول جانے سے قبل ایک دکان  سے ’چیز‘  خریدنے کیلئے باہر کھڑا تھا۔ بچوں کی طرف سے انکل انکل کی آوازیں آنے کے باوجود دکاندار اس جانب متوجہ نہیں تھا۔ وہ ’بڑے گاہکوں‘ کو نمٹانے میں مصروف تھا۔ اسے پتہ تھا کہ یہ بچے ہیں، کہاں جائیں گے؟ اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ان کی خریداری دو چار پانچ روپوں سے زیادہ کی نہیں ہوگی۔ بچوں نے بھی شاید دکاندار کا منشا بھانپ لیا تھا۔ ان میں سے  ایک لڑکی  جو تھوڑی تیز تھی،قدرے بلند آواز میں بولی’’انکل ! پہلے آپ ہم لوگوں کوسامان دے دیں،یہ لوگ تویہیں رہیں گے، ہمیں اسکول جانا ہے۔‘‘ پھر وہ ’بڑے گاہکوں‘ کی جانب دیکھ کر بولی ’’ہے نا انکل؟‘‘۔ اس کی اس بات پر سب لوگ ہنس پڑے۔ وہاں پر کھڑے انہی ’بڑے گاہکوں‘ میں ہم بھی شامل تھے۔ ہم سب نے اثبات میں سر ہلایااور پھر دکاندار نے ان بچوں کو تھوڑی دیر میں  نمٹا دیا۔ بچیاں بہت خوش تھیں۔ وہاں سے سامان لے کرنکلیں تووہی بچی جو تھوڑی تیز تھی، اپنی ساتھیوں کے دیکھ کر معنی خیز انداز میں بولی ’’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘‘... اس پرتمام لڑکیاں کھلکھلا کرہنس پڑیں اور پھر  وہاں سے آگے بڑھ گئیں۔
 ہمیں نہیں پتہ کہ وہ لڑکیاں  اس جملے کے معنی اور مفہوم سے آشنا تھیں بھی یا نہیں؟وہ شاید یہ بھی نہیں جانتی رہی ہوں گی کہ یہ ایک سیاسی نعرہ ہے۔  انہیں اس بات کااندازہ نہیں ہوگا کہ اسے کس نے وضع کیا ہے؟ اور اس کا مقصد کیا ہے؟ ممکن ہے کہ وہ پرینکا گاندھی کے نام سے واقف ہوں لیکن یہ تو قطعی نہیں جانتی ہوں گی کہ ان کا سیاسی ویژن کیا ہے؟ یہ دو ماہ قبل اکتوبر کا واقعہ ہے جب انتخابی ہما ہمی اتنی تیز نہیں ہوئی تھی۔
 یہی وہ سوالات  ہیں جن کے جواب سے پتہ چلتا ہے کہ پرینکا گاندھی اپنے مقصد میں کامیاب ہیں۔ ممکن ہے کہ انہیں ۲۰۲۲ء کے اسمبلی انتخابات میں اس کا خاطرخواہ سیاسی فائدہ نہ ملےلیکن جس سماجی تبدیلی کیلئے  انہوں نے یہ نعرہ وضع کیا ہے،  آئندہ پانچ برسوں میں اس کے ثمرات یقینی طورپر نظر آنے لگیں گے۔
 اُس ملک میں جس میں خواتین کی اکثریت کھانا بھی مردوں کی پسند کا کھاتی ہو اور کپڑابھی اُن سے پوچھ کر استعمال کرتی ہو، وہاں پر انہیں حق رائے دہی کے تعلق سے بیدار کرنا، کتنا مشکل کام ہے، صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی جانب سے جب یہ اعلان ہوا کہ اترپردیش کے اسمبلی  الیکشن میں ۴۰؍ فیصد ٹکٹ خاتون امیدواروں کو دیا جائے گا تو ایک طبقے نے ان کا مذاق اُڑایا کہ وہ اتنی ساری امیدوار کہاں سے لائیںگی؟ لیکن ایک رپورٹ کے مطابق امیدواروں کو اپنا نام دینے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے تک  بڑی تعداد میں خاتون امیدواروں نے فارم بھرا ہے۔  ان خاتون امیدواروں کا جوش ہی بتاتا ہے کہ پرینکا نے ’لڑکیوں میں لڑنے‘ کا جذبہ پیدا کردیا ہے۔
  رپورٹ  میںصرف لکھنؤ کے مختلف اسمبلی حلقوں کا جائزہ لیاگیا ہے۔اس کے مطابق لکھنؤسیٹ پر امیدواری کیلئے ۱۱۰؍ افراد نے فارم بھرا ہے جن میں سے  ۱۸؍ خواتین ہیں۔ اسی طرح لکھنؤ سینٹرل کیلئے  ۱۵؍ دعویداروں میں سے ۷؍ خواتین ہیں۔ موہن لال گنج کی سیٹ کے ۷؍ دعویدار سامنے آئے ہیں، جن میں سے تین خواتین ہیں۔اسی طرح مشرقی سیٹ  کیلئے ۱۱؍ میں سے ۳؍، کینٹ میں ۹؍ میں سے ۲؍ اور شمالی سیٹ کیلئے بھی ۹؍ میں سے۲؍ خاتون دعویدار ہیں۔  یہ صرف یوں ہی فارم نہیں بھرے گئے ہیں بلکہ ان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فارم بھرنے والے ان تمام دعویداروں  نے فارم کے ساتھ ۱۵؍ ہزار روپوں کا ڈیمانڈ ڈرافٹ بھی جمع کیا ہے۔
     سیاسی سطح پر خواتین کو بیدار کرنے اورانہیں اپنے حق میں کرنے کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں ہے۔اس سے قبل اندراگاندھی نے بھی خواتین کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی تھی اور بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل کی تھی۔انہوں نے صرف خود ایک خاتون لیڈر کے طورپر پروجیکٹ نہیں کیا تھا بلکہ ملک کی تمام خواتین میں یہ احساس پیدا کیا تھا کہ ان میں ایک اندرا ہے۔اس کے بعد نریندر مودی نے ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ کا نعرہ دے کر انہیں بااختیار بنانے کی کوشش کی تھی۔ اسی طرح ممتا بنرجی نے بنگال کی بیٹی کا نعرہ بلند کیاتھا تو نتیش کمار نے بھی خواتین کو اپنی پارٹی کا ہمنوا بنانے کی کوشش کی تھی اور جے للتا نے خود کو ’اماں‘ قرار دے کر خواتین  کے دلوں میں جگہ بنائی تھی اور اس کا سیاسی فائدہ بھی اٹھایا تھا۔
 خاتون رائےدہندگان پر سیاسی جماعتوںکی نظریں  کافی عرصے سے ہیں اوراس کیلئے کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن ان میں اور پرینکا کے نعرے میں ایک واضح فرق ہے۔ اس سے قبل کے تمام نعرے خواتین سےمتعلق ضرور تھے لیکن وہ براہ راست خواتین  کیلئے نہیں تھے  ، اس کے برعکس ’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ براہ راست خواتین کو  اپیل کرتا ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK