Inquilab Logo

انسانی اقدار کی ترویج اور تحفظ تعلیم کا بنیادی مقصد ہے

Updated: March 08, 2020, 4:38 PM IST | Jamal Rizvi

افسوس کی بات ہے کہ آج تعلیم کا بنیادی مقصد پیسے کمانا سمجھ لیا گیا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں آج معاشرتی سطح پر جو عدم اطمینان اور انتشار کی کیفیت نظر آتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ ایسے افراد کی اکثریت ہی ہے جن کے نزدیک مادی ترقی ہی زندگی کی واحد حقیقت ہے

Eduction - Pic : PTI
تعلیم ۔ تصویر : پی ٹی آئی

گزشتہ دنوں اس اخبار کے اداریہ میں امریکہ کے ایک طالب علم کی جو متاثر کن اور چشم کشا روداد بیان کی گئی تھی، وہ کئی لحاظ سے اہمیت کی حامل اور تعلیم کے بنیادی مقاصدپر غور و فکر کا تفاضا کرتی ہے۔اس دور میں جہاں ایک طرف ابتدائی درجات سے لے کر اعلیٰ تعلیمی سطح تک زیادہ سے زیادہ مارکس حاصل کرنے کی ہوڑ لگی ہے ،کسی طالب علم کے ذریعہ اپنے بونس مارکس کسی دوسرے مستحق طالب علم کو دینے کی درخواست نہ صرف اپنی صلاحیت کے تئیں اس کے اعتماد کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اس سے یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ کم یا زیادہ نمبرات تعلیمی لیاقت کو جانچنے کا صحیح پیمانہ نہیں ہیں۔ امریکہ کے اس طالب علم کی درخواست تعلیم کے عمومی رجحان کے اس نقص کی بھی نشاندہی کرتی ہے جو طالب علم کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے بجائے اس کی نشو ونما میں مختلف قسم کی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ ان رکاوٹوں کو عبور کرنے کی خاطر طالب علم بعض اوقات ایسے اقدام بھی کرتا ہے جو اخلاقی سطح پر اس کی شخصیت کو متاثر تو کرتے ہیں لیکن زیادہ نمبرات حاصل کرنے کے عمومی تعلیمی رجحان میں وہ خود کو نمایاں رکھنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرلیتا ہے۔ اس طرح نمایاں رہتے ہوئے تعلیمی مراحل کو بتدریج طے کرتے ہوئے طالب علم حصول روزگارکے اہم مقصد میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے لیکن زندگی کی ان قدروں کی پیروی میں اکثر ثابت قدم نہیں رہ پاتا جن پر انسانیت کے فروغ اور بقا کا دار و مدار ہوتا ہے۔
 جس طرح زندگی کے دیگر شعبوںمیں اصول اور عمل کے مابین افسوس ناک حد تک تضاد نظر آتا ہے، ویسا ہی کچھ معاملہ شعبۂ تعلیم کا بھی ہے۔ اگر چہ آج بھی اصولی سطح پر یہ مانا جاتا ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد انسانی اقدار کی ترویج اور تحفظ ہے لیکن اگر اس اصول کا جائزہ انسانی اعمال کے حوالے سے لیا جائے تو صورتحال بہت حد تک برعکس نظر آتی ہے۔یہی سبب ہے کہ اس وقت عالمی انسانی برادری میں مختلف شعبوں اور پیشوں میں مہارت رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں ملیں گے لیکن ان میں چند ہی ایسے ہوں گے جو انسانیت کے تقاضوں کو معیاری انداز میں پورا کرتے ہوں۔دنیا کے بیشتر ملکوں میں آج معاشرتی سطح پر جو عدم اطمینان اور انتشار کی کیفیت نظر آتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ ایسے افراد کی اکثریت ہے جن کے نزدیک مادی ترقی ہی زندگی کی واحد حقیقت ہے ۔اس سے انکار نہیں کہ مادی ترقی انسان کیلئے آرام و آسائش کے اسباب مہیا کرتی ہے اور معاشی اعتبار سے اسے متمول بناتی ہے لیکن محض اسی ہدف کیلئے ہی ساری توانائی اور لیاقت صرف کردینا مناسب نہیں ہے۔ دولت اور آرام و آسائش کے ساتھ ساتھ زندگی کے ان تقاضوں کو بھی یکسر نظر اندازنہیں کیا جا سکتا جو صالح اقدار حیات کے پروان چڑھنےمیں معاون ہوتے ہیں۔تعلیم کا ایک اہم مقصد انسان کی فکر میں وہ توازن پیدا کرنا ہے جو اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ہی اسے سماجی فلاح و بہبود کیلئے مسلسل کوشش کرتے رہنے کی تحریک عطا کرے۔ اگر اس زاویہ سے معاصرتعلیمی نظام کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال بہت اطمینا ن بخش نہیں نظر آتی۔
 جس امریکی طالب علم کا ذکر سطور بالا میں کیا گیا اگر اس کے لائق ستائش جذبۂ ایثار کے تناظر میں ملک کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیا جائے تو یہاں صورتحال بالکل برعکس نظر آتی ہے۔اول تو یہاں کسی طالب علم کے اندر اس طرح کا جذبہ پیدا ہونا ہی مشکل ہے کہ وہ لاکھ با صلاحیت سہی اپنے نمبرات کسی دوسرے کو ہدیہ کرنے کا خیال اس کے ذہن میں نہیں آسکتا۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں کے طلبہ میں جذبہ ٔایثار بالکل مفقود ہے لیکن وہ تعلیمی مراحل کو طے کرتے وقت جس طرح کے چوطرفہ دباؤ میں ہوتے ہیں، اس کے سبب ان کا یہ جذبہ اگر سرد پڑ جائے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر کوئی طالب علم اس طرح کی درخواست کرے بھی تو ٹیچر اسے اس طالب علم کا ذہنی فتور ہی سمجھے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خود وہ ٹیچر بھی جس طرح کے تعلیمی ماحول سے گزر کر اس درجہ پر پہنچتا ہے، اس میں اس طرح کی کسی درخواست کی امید نہیں کی جا سکتی۔ امریکی طالب علم کی درخواست پر اس کے ٹیچر کا رد عمل بھی لائق ستائش ہے ۔اس ٹیچر نے طالب علم کی خواہش پوری کرنے کے ساتھ ہی اس کی درخواست کی تشہیر کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش بھی کی ہے کہ انسانی اقدار کی ترقی اور ترویج کیلئے سازگار ماحول کی تشکیل کے بنیاد ی مقصد کو نظر انداز کرنے کا رجحان شعبۂ تعلیم کو متاثر کر رہا ہے۔اگر خصوصی طور سے وطن عزیز کے تعلیمی نظام کے سیاق میں بات کریں تو یہ رجحان یہاں اپنی انتہا پر نظر آتا ہے۔
 جس طرح زندگی کے بیشتر شعبوں میںبدعنوانی اور بے ایمانی کو ایک عام رجحان کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے ویسا ہی کچھ معاملہ یہاں کے تعلیمی نظام کا بھی ہے۔ان دنوں مختلف ریاستوں میں بورڈ کے امتحانات ہو رہے ہیں اور بعض ریاستوں میں طلبہ و اساتذہ کے ذریعہ ان امتحانات میں بدعنوانی کے معاملات بھی جیسے معمول کی بات بن گئے ہیں۔تعلیمی نظام کا یہ پراگندہ ماحول اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ طلبہ و اساتذہ کے نزدیک امتحان کا مقصد صرف زیادہ سے زیادہ مارکس حاصل کرنا ہے ۔ اس مقصد کی تکمیل کیلئے ہر وہ حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا جو زیادہ مارکس کے حصول کو یقینی بناتا ہے ۔اس طریقے سے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کا رجحان جائز و ناجائز اور صحیح و غلط کے مابین فرق کو بھی ختم کر دیتا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف تعلیمی نظام کی شفافیت کو متاثر کرتا ہے بلکہ طالب علم کی آئندہ زندگی میں بھی مثبت اقدار کے تئیں اس کے اعتماد کو کمزور بناتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جب نظر صرف زیادہ نمبرات کے حصول پر ہوتی ہے تو صلاحیت کی نشو و نما کا مقصد ثانوی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ ایسی صورت میں طلبہ کی قابلیت بیشتر صرف مارکس شیٹ اور اسناد ہی پر نظر آتی ہے اور عملی زندگی میں اس کی کارکردگی اوسط سے بھی کم درجے کی حامل ہوتی ہے۔  
 اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان اور معاشرے کی ترقی اور خوشحالی میں تعلیم فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے لیکن تعلیم کے اس کردار سے فیض حاصل کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ایک ایسا صاف و شفاف ماحول تشکیل دیا جائے جو طلبہ و اساتذہ دونوں کو اپنے فرائض پوری ایمان داری اور اخلاص کے ساتھ ادا کرنے میں معاون ثابت ہو۔ ایسے ماحول کی تشکیل اسی وقت ممکن ہے جب تعلیم کے ذریعہ حصول روزگار کے ساتھ ساتھ صالح اقدار حیات کی ترویج اور تحفظ کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت تعلیم سے وابستہ اس اہم مقصد کو بیشتر فراموش کردیا گیا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ شعبہ تعلیم میں اب ایسے افراد بھی بہ آسانی مل جاتے ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر انسانی اقدار کا پاس و لحاظ رکھنے میں یقین نہیں رکھتے۔ ایسے افراد نہ صرف تعلیم کے تقدس کو پامال کرتے ہیں بلکہ ان کی تربیت میں پروان چڑھنے والی نسل بھی سماج کیلئے مختلف قسم کے مسائل کا سبب بنتی ہے۔ کسی بھی ملک کی معاشرتی و معاشی ترقی کا انحصار بڑی حد تک اس کے تعلیمی نظام پر ہوتا ہے اور اس نظام کو بہتر اور کارآمد بنانے میں طلبہ اور اساتذہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ان کے اندر صالح اقدار حیات کی پیروی کا جذبہ کمزور پڑ جائے تو یہ بہرحال تعلیم سے وابستہ اس بنیادی مقصد کو متاثر کرے گا جس پر انسانیت کی بقا کا دارو مدار ہے۔تعلیم کے توسط سے مختلف پیشوں میں کامیابی حاصل کر لینا ہی کافی نہیں ہے ۔ اگر تعلیم کسی انسان کیلئے صرف اس کی معاشی ضروریات کی تکمیل کا وسیلہ ہی بنتی ہے تو ایسی تعلیم ایک پرامن اور خوشحال معاشرہ کی تشکیل و تعمیر میں کوئی نمایاں کردار نہیں ادا کر سکتی ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ معاصرتعلیمی نظام میں اس اہم مقصد کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
 تعلیم ایک فرد کو انسان بننے کا سلیقہ عطا کرتی ہے اور اسے اپنے معاشرہ اور ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئےکوشش کرنے پر آمادہ کرتی ہے ۔ کوئی انسان ایک اچھا شہری اسی وقت بن سکتا ہے جبکہ تعلیم اسے انسانی اقدار کی اہمیت سے واقف کرائے ۔تعلیم انسان کو مختلف شعبہ ہائے حیات میں نمایاں کارکردگی کی اہلیت عطا کرتی ہے اور اس کی شخصیت کی ہمہ گیرترقی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ شخصیت کی ہمہ گیر ترقی کا یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک کہ انسانی اقدار کی پیروی کا جذبہ مستحکم نہ ہو اور اس جذبہ کے استحکام کیلئے ایسا تعلیمی ماحول درکار ہے جو مثبت قدروں کے تئیں اعتماد و احترام کو یقینی بنائے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK