Inquilab Logo Happiest Places to Work

حج اور قربانی کے اہتمام کے ساتھ عشرۂ ذی الحجہ کی عبادات کی بھی فکر کیجئے!

Updated: May 30, 2025, 4:28 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

قرآن پاک کی سورہ الفجر میں جن دس راتوں کی قسم کھائی گئی ہے، مفسرین کے مطابق وہ ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی ہیں۔ اس سے ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

An important practice during these ten days is the remembrance of Allah Almighty as much as possible, and remembrance also includes the recitation of the Holy Quran. Photo: INN
ان دس ایام کا ایک اہم عمل زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور ذکر میں قرآن مجید کی تلاوت بھی شامل ہے۔ تصویر: آئی این این

یہ دور تجارتی اور صنعتی ترقی کا ہے، بڑی بڑی کمپنیاں مارکیٹ میں اپنا مال پیش کرتی ہیں، لوگ اس کی خصوصیات کو دیکھ کر خریداری کا فیصلہ کرتے ہیں، سامان کی قیمت متعین ہوتی ہے اور آج کل تو ہر سامان پر اس کی قیمت بھی طبع کر دی جاتی ہے؛ لیکن اس مطبوعہ قیمت میں بھی ڈسکاؤنٹ کی سہولت رکھی جاتی ہے، جو تاجر اپنے گاہکوں کو دیتے ہیں۔ کبھی کبھی کم وقت میں زیادہ مال کی فروختگی پر اور ایک بڑی تعداد استفادہ کرے، اس کے لئے آفر رکھے جاتے ہیں، جیسے قومی دنوں یا مختلف قوموں کے تہواروں دیوالی، کرسمس، رمضان المبارک اور عید کے موقع سے بھی ایسی رعایت کا رواج چلا آرہا ہے۔ 
 یہ تو مادی تجارت ہے؛ لیکن دین اور شریعت جو روحانی تجارت کی رہنمائی کرتا ہے، اس میں بھی آفر کا ایک نظام ہے، اس آفر کا حاصل یہ ہے کہ کم سے کم وقت میں اہل ایمان زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب حاصل کریں، اس کیلئے اللہ تعالیٰ نے بعض مہینوں، دنوں اور راتوں کو خصوصی فضیلت عطا فرمائی ہے اور بہ نسبت دوسرے اوقات کی نیکیوں سے کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ ایسی ہی قبولیت کے شب وروز میں ایک رمضان المبارک ہے جس کا بحمدللہ مسلم معاشرہ میں بڑے پیمانے پر استقبال ہوتا ہے، مسجد تنگ پڑ جاتی ہے، جگہ جگہ تلاوت قرآن کی گونج سنی جاتی ہے، غریبوں اور ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام کیا جاتا ہے، اور مسلمان آبادیوں میں ایک خاص کیفیت محسوس کی جاتی ہے۔ اسی طرح بعض اور ایام ہیں، جن کی خصوصی فضیلت کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات میں آیا ہے، ایسے ہی مبارک ایام واوقات میں ایک ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے، جس کا ذکر خود قرآن مجید میں آیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔ (الفجر) حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ ان دس راتوں سے ذی الحجہ کا عشرہ اول مراد ہے۔ (الجامع الاحکام تفسیر قرطبی: ۲۰؍۳۹)۔ ذی الحجہ کا مہینہ اُن حرام مہینوں میں شامل ہے، جو بہت حرمت والے ہیں، خود قرآن مجید میں اس کا ذکر آیا ہے، (توبہ:۳۶)، حدیث میں بھی اس کا ذکر ہے (بخاری، عن ابی بکرہؓ، حدیث نمبر: ۴۶۶۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان ایام سے بڑھ کر عمل کے اعتبار سے کوئی افضل دن نہیں ہے۔ (بخاری، عن ابن عباسؓ، حدیث نمبر: ۹۶۹)؛ اس لئے اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ عشرۂ ذی الحجہ افضل ہے یا عشرۂ رمضان المبارک؟ علامہ ابن تیمییہؒ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن رمضان المبارک کے آخری دس دنوں سے افضل ہے، اور رمضان المبارک کی آخری دس راتیں ذی الحجہ کی دس راتوں سے افضل ہیں۔ (مجموعۃ الفتاویٰ: ۲۵؍۲۸۷)

یہ بھی پڑھئے:نماز اور قربانی میں وہی مناسبت ہے جو ایمان اور اسلام میں ہے

ان ہی دس دنوں میں یوم عرفہ یعنی ۹؍ ذی الحجہ ہے، جو حج کا اصل دن ہے اور دس ذی الحجہ یعنی عید قرباں کا دن بھی شامل ہے، جس کی خصوصی فضیلت ظاہر ہے۔ عشرہ ذی الحجہ کے اعمال میں ایک روزہ ہے۔ رسولؐ اللہ کی بعض ازواج مطہرات سے مروی ہے کہ آپ ﷺ ذی الحجہ کے نو دنوں کے روزے رکھا کرتے تھے، یعنی پہلی ذی الحجہ سے نویں ذی الحجہ تک۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۲۴۳۷) اسی عشرہ میں ۹؍ ذی الحجہ کی تاریخ یعنی یوم عرفہ آتا ہے، جس کے بارے میں ابو قتادہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ میرا خیال ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ گزشتہ ایک سال اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کے لئے کفارہ ہو جائے گا۔ (عن ابن ابی قتادۃ، حدیث نمبر: ۴۷۹)
 البتہ اس سے صغیرہ گناہ مراد ہیں۔ جو کبیرہ گناہ ہیں، وہ اس سے معاف نہیں ہوتے، ان کے لئے شریعت کے مقرر کئے گئے اصول کے مطابق مقررہ افعال کو انجام دینا، لوگوں کے حقوق سے متعلق گناہ ہو تو ان حقوق کو ادا کرنا یا معاف کرانا اور توبہ کرنا ضروری ہے (مرقاۃ المفاتیح: ۴؍۱۴۱) البتہ حجاج کو میدان عرفات میں روزہ نہیں رکھنا چاہئے تاکہ وہ اس دن اچھی طرح یوم عرفہ کی دعاؤں کا اہتمام کریں۔ 
  حضرت ام فضل بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتی ہیں کہ عرفہ کے دن لوگوں کو شک تھا کہ آج آپؐ روزہ سے ہیں یا آپؐ نے روزہ نہیں رکھا ہے؟ میں نے اس کو جاننے کے لئے آپؐ کے پاس پانی کا ایک پیالہ بھیجا، آپؐ نے اسے نوش فرما لیا۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۱۶۵۸) گویا آپؐ نے عملی طور پر واضح فرما دیا کہ آپؐ آج روزہ سے نہیں ہیں ؛ لہٰذا یوم عرفہ کو حجاج کیلئے روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔ 
 روزہ کے علاوہ اس عشرہ میں بعض دیگر اعمال بھی مستحب ہیں، اور آپؐ نے اس کی تلقین فرمائی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپؐ کا ارشاد نقل کرتے ہیں : ’’ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے نزدیک عظیم دن نہیں ہے اور ان دنوں کے اعمال سے بڑھ کر کسی دن کے اعمال اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب نہیں ہیں ؛ اس لئے تم ان دنوں میں لا الٰہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمدللہ کا کثرت سے اہتمام کرو۔ ‘‘ (مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۳۱)
 تکبیر کی ہی ایک صورت تکبیر ِتشریق ہے، یوں تو ۹؍ ذی الحجہ کی فجر سے ۱۳؍ ذی الحجہ کی مغرب تک ہر باجماعت نماز کے بعد تکبیر تشریق پڑھنا واجب ہے؛ لیکن اس کے علاوہ بھی زیادہ سے زیادہ تکبیر پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ وہ اس عشرہ میں بازار میں نکلتے، زور سے تکبیر تشریق پڑھتے اور ان کے ساتھ ساتھ دیگر حضرات بھی پڑھتے۔ (صحیح بخاری، کتاب العیدین باب فضل العمل فی ایام العشر)
 اسی طرح تیسرا کلمہ (سبحان اللہ، والحمد للہ سے وللّہ الحمد تک) ایک ایسا جامع کلمہ ہے، جو اللہ تعالیٰ کی ’’تسبیح، تہلیل ‘‘ یعنی لا الٰہ الا اللہ، اور تکبیر اور تحمید چاروں کو شامل ہے؛ اس لئے اگر ان ایام میں اس کلمہ کو زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی اوپر جو روایت گزری ہے، اس پر ان شاء اللہ مکمل عمل ہو جائے گا۔ 
 غرض ان دس ایام کا ایک اہم عمل زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور ذکر میں قرآن مجید کی تلاوت اور درود شریف کا پڑھنا بھی شامل ہے، نیز ذکر نہایت آسان عبادت ہے، جس کے لئے نہ باوضو ہونے کی شرط ہے، نہ کسی خاص ہیئت میں بیٹھنے کی، نہ یہ کہ ذکر کرتے ہوئے بندہ کوئی اور کام نہیں کر سکتا، اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی کیفیت نقل فرمائی ہے کہ وہ کھڑے کھڑے، بیٹھے بیٹھے اور لیٹے ہوئے بھی اللہ کا ذکر کیا کرتے ہیں : ویذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم (آل عمران:۱۹۱) 
 یہ سب عشرۂ ذی الحجہ کے افعال ہیں، افسوس کہ حج کرنے والے حج کا اہتمام کرتے ہیں، قربانی کرنے والے قربانی کا اہتمام کرتے ہیں؛ لیکن عشرہ ذی الحجہ کی یہ عبادتیں جو تمام مسلمانوں کے لئے ہیں، امیر کے لئے بھی غریب کے لئے بھی، مسافر کے لئے بھی مقیم کے لئے بھی، مردوں کے لئے بھی اور عورتوں کے لئے بھی، اس کی طرف سے عمومی بے احتیاطی برتی جاتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK