Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ قادر خان نے کہا کہ سلیمان! تمہیں کوئی بھی ضرورت ہوتو بلا جھجھک کہنا‘‘

Updated: June 01, 2025, 1:11 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

فارس روڈ کے ۸۰؍سالہ محمد سلیما ن انصاری نے تعلیم ترک کرنے کے بعد کپڑے کی دکان پر کام کیا، میکانک بنے اور پھر لوہے پترے کے کاروبار سے جڑے۔ پیرانہ سالی میں بچوں، پوتے پوتیوں اورنواسے، نواسیوں کےدرمیان ہنسی خوشی زندگی گزار رہےہیں۔

Muhammad Salmanuddin Muhammad Ansari Photo: INN.
محمد سلیما ن دین محمدانصاری۔ تصویر: آئی این این۔

جنوبی ممبئی کے فارس روڈ پر مقیم محمد سلیما ن دین محمد انصاری کی پیدائش ۱۹۴۵ءمیں ننہال میں حاجی علی کےقریب واقع چھاتاواڑی، دھوبی چال میں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم وتربیت والد کے گھر کماٹی پورہ کے بائولا بلڈنگ سے حاصل کی۔ کماٹی پورہ کے اصطبل اسٹریٹ میونسپل اُردو اسکول سے چوتھی جماعت تک پڑھائی کی۔ پڑھائی میں دل نہ لگنےکی بناپر والد نے پہلے ایک ریڈی میڈ کپڑے کی دکان پر کام سیکھنے کی غرض سے لگایا جہاں روزانہ بطورِ اُجرت ۲؍آنا اور دوپہر کا کھانا ملتاتھا۔ کچھ دنوں بعد والد اور دیگر متعلقین کی صلاح پر میکانک کا کام بھی سیکھا ، لیکن اس میں بھی کامیابی نہ ملنے کے صورت میں گھروالوں کے مشترکہ فیصلہ سے والد کے نقش قدم پر آگری پاڑہ پولیس اسٹیشن کے قریب واقع ململ مل میں ملازمت اختیار کرلی۔ یہاں ۲۵؍سال تک ملازمت کی۔ ۱۹۸۱ء میں مل والوں کی ہڑتال کےسبب پیداہونےوالی بحرانی کیفیت سے یہ ملازمت بھی چلی گئی۔ بعدازیں لوہے کے پترے وغیرہ کی خریدو فروخت کا کاروبار شروع کیا جو ۱۹۹۲ء تک کامیابی سے جاری رہالیکن بابری مسجد کی شہادت کےبعد پھوٹ پڑنےوالے فرقہ وارانہ فسادات سے، یہ کاروبار بھی بری طرح متاثرہوگیا۔ ان کے ۱۱؍ بچےہیں، جن میں ۵؍ بیٹے اور ۶؍بیٹیاں ہیں۔ بچوں کی درخواست پر کام کاج سے دوری اختیار کرلی۔ فی الحال زیادہ سے زیادہ عبادت میں وقت گزارتے ہیں اور اس کے بعد جو وقت بچتا ہے، وہ اپنے ۲۵؍ پوتے پوتیاں ، نواسے اور نواسیاں کےدرمیان ہنسی خوشی گزارتےہیں۔ 
سلیمان انصاری کا بچپن بائولا بلڈنگ میں گزرا، ان دنوں ان کی بلڈنگ کے قریب جادووالی چال میں معروف فلم اداکار قادرخان بھی رہا کرتےتھے جس کی وجہ سے سلیما ن انصاری اور قادرخان کی گہری دوستی تھی۔ ان کےگروپ میں مجید، اقبال اور سلیم وغیرہ بھی شامل تھے۔ قادر خان ایک دلچسپ شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے دوستوں کےساتھ کماٹی پورہ کی گلیوں میں ہی ڈراما کرنے لگتے تھے۔ قادر خان کے دلکش انداز اور آواز میں عالم پنا ہ اور جہاں پناہ کے ڈائیلاگ سن کران کے ڈراموں کو دیکھنے کیلئے راہگیر بھی رک جاتے تھے۔ سلیمان انصاری، مجید، اقبال اور سلیم وغیرہ کا قادر خان سے برسوں یارانہ رہا۔ کامیابی کے بعد قادر خان کماٹی پورہ کی تنگ اور تاریک گلیوں سے سانتاکروز کی ایک عالیشان عمارت میں منتقل ہوگئے۔ ان کی منتقلی کے کچھ دنوں بعد سلیمان کے ایک شناسا نے، ان سے کہا کہ چلو میں تمہیں فلم اداکار قادر خان سے ملوا دوں۔ سلیمان انصاری نے انہیں نہیں بتایاکہ قادرخان ان کے قریبی دوست ہیں۔ ان کے اصرار پر اُن کے ساتھ سلیمان انصاری، قادر خان کی رہائش گاہ گئے۔ اس وقت قادر خان فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹروں سے بات چیت کرنےمیں مصروف تھے۔ اس کےباوجود وقت نکال کر انہوں نے سلیمان انصاری سے ملاقات کی اور ان کے شناسا کوبتایاکہ سلیمان میرا پرانا ساتھی ہے۔ یہ سن کرسلیمان انصاری کے شناسا کو بڑی حیرت ہوئی۔ اس موقع پر قادر خان نے سلیمان انصاری سے خیر خیریت دریافت کرنےکےعلاوہ کہاتھا کہ اگر کسی طرح کی کوئی ضرورت ہوتو بلاجھجھک بتانا۔ قادرخان کے اس دوستانہ سلوک سے سلیمان انصاری بے حد متاثرہوئے تھے۔ 
۱۹۶۲ءمیں ہندوستان اورچین کے درمیان ہونےوالی جنگ کے دوران عوام میں جوش وولولہ پیدا کرنےکیلئے جگہ جگہ حب الوطنی سے متعلق پروگراموں کا انعقاد کیاجاتاتھا۔ فارس روڈ کے سینئر کانگریسی لیڈر روسی مہتہ نے مقامی نوجوانوں کی ایک میٹنگ طلب کرکے انہیں ممبئی سینٹرل اسٹیشن کے قریب جمع ہونے اور دیش بھگتی گیتوں کی ریکارڈ بجانےکیلئے ایک ٹیم ترتیب دی تھی جس میں سلیمان انصاری بھی شامل تھے۔ ان کی ٹیم صبح سے شام تک ممبئی سینٹرل اسٹیشن قریب ایک موٹرگاڑی میں مذکورہ گیتوں کے ریکارڈ بجاتی، جن میں خاص طورپر ’’ اپنی آزادی کو ہم ہرگز بھلا سکتے نہیں، سرکٹا سکتےہیں لیکن سرجھکا سکتے نہیں ‘ ‘ بجایاجاتا تھا جسے سننے کیلئے سیکڑوں راہگیر جمع ہوجاتے۔ یہ منظر بڑا جذباتی اور حب الوطنی پر مر مٹنے والا ہوتا تھا۔ 
سلیما ن انصاری کو فلمیں دیکھنے کا کافی شوق تھا۔ کوشش ہوتی تھی کہ ہر نئی فلم کو پہلے دن اورپہلا ہی شو دیکھیں لیکن ٹکٹوں کی مارا ماری سے ان کی یہ خواہش ہر مرتبہ پوری نہیں ہوپاتی تھی۔ انہیں دنوں فلم ’بیجو باورا‘کے علاوہ ایک اور فلم ریلیز ہوئی تھی، دونوں فلمیں کامیابی سے جاری تھیں، ایسے میں دلیپ کمار کی فلم ’آن‘ بھی ریلیز کردی گئی، آن کے ریلیز ہوتے ہی ان دونوں فلموں کی مقبولیت کم اور آن کی شہرت بڑھتی گئی۔ مرین لائن پر واقع لبرٹی تھیٹر میں فلم آن کا ٹکٹ حاصل کرنےوالوں کی زبردست بھیڑ ہوتی تھی۔ ٹکٹ نہ ملنے پر لڑائی جھگڑے کی نوبت آجاتی۔ ایک دن ایسی ہی ایک لڑائی شروع ہوئی جو رُکنے کےبجائے بڑھتی ہی گئی اور اس قدر بڑھی کہ ٹکٹ کیلئےایک قتل بھی ہوگیا۔ کئی دنوں تک ٹکٹوں کیلئےجدوجہد کرنےوالے سلیمان انصاری نے قتل کی خبر سنی تو ’جلد از جلد‘ فلم آن دیکھنے کی خواہش ترک کردی۔ 
 سلیمان انصاری کی شادی ۲۵؍اپریل ۱۹۶۵ءکوہوئی تھی۔ اس کےبعد ان کے ایک قریبی دوست مجید بھائی نے ایک دن ان سے کہاکہ چلوکسی دن تاج محل ہوٹل میں چائے پی کرآتےہیں جس پر سلیمان انصاری نے کہاکہ ہم لوگ تاج محل ہوٹل کیسے جاسکتےہیں۔ وہاں تو بڑے اور امیر گھروں کے لوگ جاتےہیں ۔ اس کےجواب میں مجید بھائی نے کہاکہ چائے کاپیسہ کتنا ہوگا، گھبرامت چل کر دیکھتےہیں۔ پروگرام بنا، ایک روز دونوں ساتھی جیب میں تقریباً ۳۰۰؍روپے رکھ کر تاج محل ہوٹل پہنچ گئے۔ دونوں نے طے کررکھا تھا کہ ہمیں گھبرانا نہیں ہے، اسی منصوبے پر عمل کرتےہوئے خوداعتمادی سے ہوٹل کے صدر دروازہ پر پہنچے، پٹھان دربان نے دروازہ کھولا، دونوں اندر داخل ہوئے تو وہاں کی دنیا ہی الگ دکھائی دی، وہاں کی چکاچوندھ سےمحظوظ ہوتے ہوئے، انہوں نے ایک ویٹر سے اشارہ میں کھانے پینےکی جگہ دریافت کی۔ ان کے باڈی لینگویج کو سمجھتے ہوئے ویٹر نے کہا کہ جی یہاں پر ایک ناگپاڑہ شعبہ بھی ہے جہاں آپ کی پسند کے مطابق لذت کام ودہن کا انتظام ہے۔ ناگپاڑہ شعبے میں پہنچنے پر سیخ کباب، سیخ پراٹھا اور اس طرح کےدیگر پکوان دیکھ کر دونوں دوستوں کی بانچھیں کھل اٹھیں۔ سیخ پراٹھا کاآرڈ د دیا، بعدازیں چائے بھی پی۔ اُس دور میں ۲۲۰؍روپے کا بل ہواتھا جو ایک بڑی رقم تھی۔ بل کی ادائیگی کرکے بڑے فخر سے وہ دونوں تاج محل ہوٹل سے نکلے۔ اس طرح تاج محل ہوٹل جانے کا خواب پورا ہوا۔ 
سلیمان انصاری نے اپنی زندگی میں ایک مرتبہ موت کو انتہائی قریب سے دیکھاہے۔ ۱۳۔ ۱۴؍سال کی عمر رہی ہوگی۔ ان کے خالہ زاد بھائی نے ان سے کہا کہ چلوایک روز چوپاٹی، نہاکرآتےہیں۔ بھائی کے بار بار کہنے پر سلیمان انصاری، اس کے ساتھ ایک روز نہانےکیلئے چوپاٹی چلے گئے۔ بھائی کو کچھ تیرنا آتاتھاجبکہ سلیمان انصاری کو تیرنا بالکل نہیں آتاتھا۔ چوپاٹی کے سمندر میں دونو ں بھائی نہانےکیلئے اُتر گئے، کچھ دیر بعد دونوں بھائی پانی میں الگ الگ ہوگئے۔ تھوڑا ہی وقت گزرا ہوگا کہ سمندر کی لہروں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا، ساحل سے ٹکرا کر لوٹنے والی لہروں نےسلیمان انصاری کو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔ اس کی وجہ سے ان کی حالت غیر ہوتی گئی، ہاتھ پیر پھولنے لگے۔ ہوش حواس قابو میں نہیں رہا لیکن حلق سے ایک چیخ ابھرنے میں ضرور کامیاب رہی۔ کچھ فاصلے پر ایک تیراک، مشق کررہاتھا، وہ فوراً ان کی طرف آیا، سلیمان انصاری کو بال سے پکڑکر ساحل پر لا یا اور یہاں خوب ڈانٹ ڈپٹ کی۔ اس نے ڈانٹتے ہوئےکہاکہ جب تیرتا نہیں آتاتو پھر سمندر میں اترنےکی کیاضرورت تھی۔ سلیمان انصاری کو وہ دن بار بار یاد آتا ہے کہ اگراس روز تیراک نہ ہوتاتو ان کا زندہ بچنا مشکل تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK