Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشیانہ: بڑھتی مہنگائی میں ’’سیشے اکنامی‘‘ کا کردار

Updated: June 01, 2025, 1:13 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

گزشتہ ۴۰؍ سال میں ملک کے ایف ایم سی جی سیکٹر (وہ شعبہ جس میں مصنوعات تیزی سے فروخت ہوتی ہیں ) کو مستحکم کرنے میں ’سیشے‘ نے کلیدی کردار نبھایا ہے۔

Sashe has played an important role in influencing consumers` spending habits or making them spend more. Photo: INN.
صارفین کی خرچ کرنے کی عادت یا ان سے زیادہ خرچ کروانے میں سیشے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

ہندوستان کے تقریباً ہر کرانہ یا جنرل اسٹور پر ایک بات مشترک نظر آتی ہے، اور وہ ہے پتلی رسیوں یا کلپس میں لٹکے اور ہوا میں جھولتے رنگ برنگے’’سیشے‘‘ (Sachet) یا ’’پاؤچ۔ ‘‘ یہ عام طور پر ایک یا دو روپے کا سامان ہوتا ہے جس میں شیمپو، کنڈیشنر، سوس، کیچپ، چائے پتی، میونیز، کافی، ملک پاؤڈر، بون ویٹا، مسالے، باڈی واش، تیل، کریم، بسکٹ، ڈٹرجنٹ یا ڈرنک مکس وغیرہ ہوتے ہیں۔ رنگ برنگے سیشے دکان کو مزید رنگین بناتے ہیں اور گاہکوں کی توجہ بھی حاصل کرتے ہیں۔ گزشتہ ۴۰؍ سال میں ملک کے ایف ایم سی جی سیکٹر (وہ شعبہ جس میں روزمرہ کی مصنوعات تیزی سے فروخت ہوتی ہیں ) کو مستحکم کرنے میں ’’سیشے‘‘ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ 
جب ہندوستانیوں کی قوت خرید کم تھی، وہ سیشے والی مصنوعات استعمال کرنے کو ترجیح دیتے تھے کہ ایک سے ۲؍ روپے میں سامان خریدنا آسان تھا۔ یہ ایک طرح سے سیمپل (نمونہ) کا کام بھی کرتے تھے۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کو کلینک پلس شیمپو کی بوتل خریدنا ہے اور وہ جاننا چاہتا ہے کہ یہ شیمپو کیسا ہے تو وہ ایک روپے میں ’سیشے‘ خرید کر استعمال کرتا اور پھر فیصلہ کرتا کہ اسے بوتل خریدنی چاہئے یا نہیں۔ آج سے ۴۰؍ سال قبل ’’سیشے‘‘ کی بدولت ہی بیشتر ہندوستانی فیصلہ کرتے تھے کہ انہیں سامان زیادہ مقدار یا تعداد میں خریدنا ہے یا نہیں۔ صارفین کی خرچ کرنے کی عادت یا ان سے زیادہ خرچ کروانے میں سیشے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ فی الوقت بازار میں ایک روپے، ۲؍ روپے، ۵؍روپے اور ۱۰؍ روپے کے سیشے اور پیکٹ میں اشیاء دستیاب ہیں۔ 
فنانشیل ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۱ء میں ہندوستانیوں نے ۴۱؍ بلین شیمپو کے پیکٹ خریدے تھے جن میں سے ۹۹؍ فیصد ایک یا دو روپے کے سیشے تھے۔ لیکن جیسے جیسے خام مال اور پیکیجنگ کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں ’’سیشے‘‘ پر بھی مہنگائی کی مار پڑ رہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پام آئل کی قیمت میں ۳۰؍ فیصد، اور دودھ اور گندم کی قیمتوں میں ۲۰؍ فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ ملٹی لیئر پلاسٹک پیکیجنگ پہلے سے کہیں زیادہ مہنگی ہوگئی ہے۔ اس کے باوجود سیشے میں فروخت ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں تبدیلی نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کمپنیاں اپنے صارفین کھونے سے ڈرتی ہیں۔ 
کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے مطابق ہندوستان کی افراط زر کی شرح آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں کمپنیاں اپنے منافع کو جوں کا توں رکھنے کیلئے حکمت عملی تبدیل کررہی ہیں۔ چونکہ کمپنیاں صارفین نہیں کھونا چاہتیں اس لئے وہ اشیاء کی قیمتوں میں تبدیلی نہیں کرتیں لیکن سیشے یا پیکٹ میں ملنے والی چیز کی مقدار کم کردیتی ہیں، مثلاً اگر ۵؍ روپے میں ۱۰۰؍ گرام بسکٹ ہوتے تھے تو اب اس میں صرف ۵۵؍ گرام ہی بسکٹ ہیں۔ ایک روپے کا شیمپو جس سے کبھی خواتین اپنے لمبے بال بآسانی دھو لیتی تھیں، اب مرد بمشکل ہی اپنے بال دھو پاتے ہیں۔ ’’سیشے‘‘ اکنامی (یا، سیشے والی معیشت) کمپنیوں کیلئے اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے صارفین کو برانڈ بدلتے دیر نہیں لگتی اس لئے کمپنیاں صارفین کے ساتھ تعلق مضبوط رکھنے کیلئے سیشے کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرتیں۔ 
واضح رہے کہ اب بھی ایف ایم سی جی سیکٹر میں ۲۵؍ سے ۳۵؍ فیصد آمدنی سیشے کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ متعدد کمپنیاں سیشے کو ’’مقدس‘‘ قرار دیتی ہیں کیونکہ ان کی بدولت ہی یہ شعبہ تیزی سے وسیع ہورہا ہے۔ سیشے ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے کوئی کمپنی بازار میں داخل ہوتی ہے اور صارفین کے درمیان جگہ بناتی ہے۔ اگر سیمپل نہ ہو تو کوئی بھی شخص زیادہ قیمتیں ادا کرکے زیادہ مقدار میں کوئی چیز نہیں خریدے گا۔ سیشے کے ذریعے عادت بنائی جاتی ہے اور پھر صارف کو بڑا پیکٹ خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ صارفین کو مہنگائی سے بے خبر رکھنے کیلئے ہی سیشے اور پیکٹس متعارف کروائے جاتے ہیں ۔ ہندوستان میں موجود ۱۲؍ ملین کرانہ اسٹور سیشے کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ 
برانڈ پلس کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ اب صارفین کوئی بھی نئی چیز خریدنے سے پہلے اس کا سیمپل استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے انہیں ملاوٹی اور جعلی اشیاء سے باخبر کردیا ہے اس لئے کسی بھی چیز کیلئے زیادہ قیمتیں ادا کرنے کے بجائے وہ سیمپل استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ سیشے اکنامی کی خوبصورتی اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے کسی پروگرام کے تحت نہیں بنایا گیا ہے بلکہ یہ صرف ’’ایک استعمال‘‘ کی بنیاد پر تعمیر کی گئی ہے۔ ایف ایم سی جی کمپنیاں اگر اپنا ایک روپے کا گاہک کھو دیں گی تو کیا ہوگا؟ کمپنیاں اس بنیاد کو ہلانے کی کوشش کریں گی جس پر سیشے اکنامی تعمیر کی گئی ہے۔ اس لئے کوئی بھی کمپنی ایک روپے کے سیشے کی قیمت بڑھانے سے خوفزدہ ہے اور یہ شعبہ مہنگائی کی مار جھیلتا ہوا گاہکوں کے درمیان مضبوطی سے کھڑا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK