سیرت النبیؐ کی اِس خصوصی سیریز میں آج ملاحظہ کیجئے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے نے آپؐ سے دو درخواستیں کیں جنہیں آپؐ نے قبول فرمالیا لیکن اس کے بعد ہی سورہ توبہ کی دو آیات بھی نازل ہوئیں۔
EPAPER
Updated: January 05, 2024, 2:33 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
سیرت النبیؐ کی اِس خصوصی سیریز میں آج ملاحظہ کیجئے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے نے آپؐ سے دو درخواستیں کیں جنہیں آپؐ نے قبول فرمالیا لیکن اس کے بعد ہی سورہ توبہ کی دو آیات بھی نازل ہوئیں۔
عبد اللہ ابن اُبی کی موت
سن نو ہجری ہی میں رئیس المنافقین عبد اللہ ابن اُبی ابن سلول دنیا سے رخصت ہوا، حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کی روایت ہے کہ جب عبد اللہ ابن اُبی مر گیا تو اس کے بیٹے جو انتہائی مخلص مسلمان تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا :یارسولؐ اللہ! میرا باپ مر گیا ہے، آپؐ اپنی قمیص عنایت فرمائیں تاکہ میں اپنے باپ کو اس کا کفن پنہاؤں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست قبول فرمائی اور اپنی قمیص عطا فرمادی، اس کے بعد انہوں نے یہ درخواست بھی کی کہ آپؐ اس کی نماز جنازہ بھی پڑھادیں ، آپؐ نے یہ درخواست بھی قبول فرمالی، چنانچہ آپؐ تشریف لے گئے، اور نماز جنازہ پڑھانے کے لئے کھڑے ہوگئے، حضرت عمرؓ نے آپ کا کپڑا پکڑ کر عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپ اس منافق کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں ، حالاں کہ اللہ تعالیٰ اس سے منع فرمایا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ میں ان (منافقین) کے لئے دعائے مغفرت کروں یا نہ کروں ۔ آیت میں ستر مرتبہ استغفار کا ذکر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ستر مرتبہ استغفار کرسکتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ سورۂ توبہ کی اس آیت کی طرف تھا: ’’(اے نبی) آپ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں اگر آپ ان کے لئے ستر مرتبہ استغفار کروگے تب بھی اللہ انہیں معاف نہیں کریں گے، یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ کفر کا رویّہ اپنایا ہے، اور اللہ نافرمانوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا ہے۔‘‘ (التوبہ:۸۰)
بہر حال آپ نے نماز پڑھائی، اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی:
’’اور (اے پیغمبر) ان (منافقین) میں سے جو کوئی مرجائے تو تم اس پر نماز (جنازہ) مت پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، یقین جانو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کا رویّہ اختیار کیا اور اس حالت میں مرے کہ وہ نافرمان تھے۔‘‘(التوبہ:۸۴)
اس آیت میں منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے قطعی طور پر منع کردیا گیا، اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپؐ نے کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ (صحیح مسلم:۴/۲۱۴۱، رقم الحدیث: ۲۷۷۴)
حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ تفسیر قرطبی کے حوالے سے لکھتے ہیں : یہاں ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبد اللہ بن اُبَیّ ایک ایسا منافق تھا جس کا نفاق مختلف اوقات میں ظاہر بھی ہوچکا تھا، وہ سب منافقوں کا سردار مانا جاتا تھا، اس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا یہ امتیازی سلوک کیسے ہوا کہ اس کے کفن کے لئے اپنی قمیص مبارک عطا فرمادی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے دو سبب ہوسکتے ہیں : اول اس کے صاحبزادے جو مخلص صحابیؓ تھے، ان کی درخواست پر محض ان کی دل جوئی کے لئے ایسا کیا گیا، دوسرا سبب ایک اور بھی ہوسکتا ہے جو بخاری کی حدیث میں بہ روایت حضرت جابرؓ منقول ہے کہ غزوۂ بدر کے موقع پر جب کچھ قریشی سردار گرفتار کئے گئے، تو ان میں آنحضرتﷺ کے چچا عباسؓ بھی تھے، آپ نے دیکھا کہ ان کے بدن پر کرتہ نہیں ، تو صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ ان کو قمیص پہنا دی جائے، حضرت عباسؓ دراز قد تھے، عبد اللہ بن اُبَیّ کے سوا کسی کی قمیص ان کے بدن پر درست نہ آئی، تو عبد اللہ بن اُبی کی قمیص لے کر رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا عباس کو پہنا دی تھی، اس کے اسی احسان کا بدلہ ادا کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے اپنی قمیص اُن کو عطا فرمائی۔ (معارف القرآن: ۴/۴۳۵)
ثقیف کے وفد کی آمد
رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوا، تبوک سے واپسی کے بعد آپ مدینہ منورہ میں ہی تشریف فرماتھے، اطلاع ملی کہ قبیلۂ بنو ثقیف کا وفد اذنِ باریابی کا منتظر ہے، یہ وہ قبیلہ ہے جو طائف کے محاصرے کے دوران قلعہ بند ہوکر بیٹھ گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ ختم کرانے کے لئے کافی جدو جہد کی، بڑی تکلیف بھی اٹھائی، کئی صحابہ شہید اور زخمی ہوئے، بالآخر آپؐ بنوثقیف کو ان کے حال پر چھوڑ کر واپس تشریف لے آئے۔ آپؐ بھی شکستہ دل تھے اور صحابۂ کرامؓ بھی مایوس اور دل گرفتہ۔ کسی نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ان لوگوں کے لئے بد دعا فرمادیں ، ان کے تیروں نے ہمارے جسم چھلنی کردیئے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللّٰہُمَّ اہد ثقیفاً (سنن الترمذی: ۵/۷۲۹، رقم الحدیث: ۳۹۴۲) ’’اے اللہ! ثقیف کو ہدایت عطا کر اور ان کو مسلمان کرکے بھیج دے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا قبول ہوئی اور یہ لوگ اسلام لانے کی غرض سے مدینے حاضر ہوگئے۔
جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپس تشریف لے جارہے تھے، قبیلۂ بنوثقیف کے سربرآوردہ شخص عروہ بن مسعود ثقفی پیچھے پیچھے چلے، آپؐ کے مدینے پہنچنے سے پہلے ہی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور دولت اسلام سے مشرف ہوگئے، اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عروہ بن مسعود الثقفیؓ اپنی قوم میں واپس تشریف لے گئے، انہیں اسلام کی دعوت دی، مگر قوم کے لوگوں نے ان کا استقبال تیروں سے کیا، ان کے جسم پر اتنے تیر لگے کہ شہید ہوگئے، ان کی خواہش تھی کہ ان کو طائف کے شہیدوں کے ساتھ دفن کیا جائے، قوم نے ان کی خواہش کے مطابق انہیں طائف کے شہیدوں کے ساتھ دفن کردیا۔ (المستدرک للحاکم: ۳/۶۱۵، تاریخ الطبری: ۲/۱۷۹)
حضرت عروہؓ کی شہادت پر چند ماہ گزر گئے، اس دوران بنوثقیف کو یہ خدشہ ستاتا رہا کہ مسلمان واپس ضرور آئیں گے، وہ ہمیں چھوڑنے والے نہیں ہیں ، خاص طور پر عروہؓ کو قتل کرنے کے بعد تو یہ خیال اور پختہ ہوگیا کہ مسلمان اس قتل کا بدلہ ضرور لیں گے، اس سے گھبراکر مشورے شروع ہوئے اور یہ طے ہوا کہ قبیلے کا ایک وفد مدینے جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرے، اس سلسلے میں عمرو بن امیہ نے پہل کی، اور ارادہ کیا کہ وہ عبد یالیل بن عمرو بن عمیر سے جاکر ملے، حالاں کہ دونوں کے درمیان کسی معاملے میں رنجش تھی، مگر چوں کہ معاملہ نازک تھا اور صورت حال کا تقاضا یہ تھا کہ پرانی رنجشوں اور عداوتوں کو بھلا کر قوم کے حق میں صحیح فیصلہ کیا جائے، چنانچہ عمرو بن امیہ خود چل کر عبد یا لیل کے گھر گیا، اور اس کو یہ پیغام بھجوایا کہ میں اس سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں ۔ عبد یا لیل اپنے پرانے دشمن کو اپنے گھر کی دہلیز پر دیکھ کر ریشہ خطمی ہوگیا، اس نے پرانی دشمنی بھلاکر مہمان کو خوش آمدید کہا اور اس کا اعزاز واکرام کیا۔ عمرو بن امیہ نے کہا کہ اب ہمیں اپنی عداوتیں ختم کردینی چاہئیں ، حالات ہی کچھ ایسے ہیں ، عروہ کے قتل کے بعد تو حالات اور زیادہ خطرناک ہوگئے ہیں ، پورا عرب اسلام لاچکا ہے، ہمارے اندر اتنی طاقت نہیں ہے کہ ہم ان کا مقابلہ کرسکیں ، ان کے معاملے میں غور وفکر کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔
بہ ہر حال ان دونوں میں مشورہ ہوا اور یہ طے ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی ایک شخص کو بھیجا جائے، وہ جاکر آپؐ سے ملاقات کرے اور بات چیت کے ذریعے موجودہ مسائل کا کوئی اطمینان بخش حل تلاش کرے۔ عمرو بن امیہ نے اور ثقیف کے متعدد سربرآوردہ لوگوں نے یہ تجویز پیش کی کہ عبد یالیل مدینہ جائے؛ کیوں کہ وہاں جانے کے لئے سب سے زیادہ موزوں شخصیت اسی کی ہے۔ عبد یا لیل نے کہا کہ میں تنہا نہیں جاؤں گا، مجھے ڈر ہے کہ کہیں مجھے بھی واپسی کے بعد اسی طرح قتل نہ کردیا جائے جس طرح عروہ بن مسعود کو قتل کیا گیا ہے، ہاں اگر کچھ لوگ میرے ساتھ چلیں تو میں اس خدمت کے لئے تیار ہوں ۔ اس کے بعد چھ افراد کا ایک وفد تشکیل دیا گیا، جس میں تین افراد ثقیف کے تھے اور تین احلاف کے، اس وفد کا سربراہ عبد یا لیل کو بنایا گیا۔ صحابۂ کرامؓ یہ بات جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اکثر وبیشتر ثقیف کا ذکر رہتا ہے، آپؐ چاہتے ہیں کہ ثقیف بھی دائرۂ اسلام میں داخل ہوجائے، یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے ثقیف کے وفد کو آتا ہوا دیکھا تو وہ خوشی سے جھوم اٹھے۔ مغیرہؓ اس وقت مدینے سے باہر اپنے اونٹ چرا رہے تھے، وہ مسجد نبویؐ کی طرف دوڑے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاکر عرض کریں کہ یارسول اللہ! بنو ثقیف کا ایک وفد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونے والا ہے، یہ لوگ اسلام قبول کرنے اور بیعت کرنے کے ارادے سے آئے ہیں ۔ ابھی وہ راستے ہی میں تھے کہ حضرت ابوبکرؓ سے ملاقات ہوگئی، حضرت مغیرہ نے انہیں بتلایا کہ بنوثقیف کا ایک وفد مدینے تک پہنچ چکا ہے، اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دینے کے لئے جارہا ہوں ، حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ میں تمہیں خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم مجھ سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ پہنچو، بلکہ مجھے موقع دو کہ میں حاضر خدمت ہوکر وفد کی آمد سے آپؐ کو باخبر کروں ، مغیرہؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی یہ بات مان لی۔ (سیرت ابن ہشام: ۴/۴۱۵)