یہ نتائج یقینی طور پر حیران کن ہیں، اُن کیلئے بھی جو الیکشن ہارے ہیں اور ان کیلئے بھی جو جیت گئے ہیں۔ ایسی ’بڑی‘ جیت کی توقع بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو بھی نہیں تھی۔ عوام بھی اس نتیجے کو ہضم نہیں کرپارہے ہیں۔اسی کے ساتھ اپوزیشن کو لعن طعن کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ ’ووٹ چوری ‘ کیخلاف راہل گاندھی کی مہم کو کمزور کرنے کیلئے سبکدوش افسروں اور سابق ججوں کا ایک گروپ سرگرم ہوگیا ہے۔اسی پس منظر میں ’انقلاب‘ نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس نتیجے کوقارئین کس طرح سے دیکھ رہے ہیں؟
لمبی ہے غم کی شام ، مگر شام ہی تو ہے
بہار کے انتخابی نتائج واقعی حیرت انگیز ہیں جو وہاں کی ’گراؤنڈ رپورٹ‘ سے میل نہیں کھاتے۔ ان نتائج نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا ہمارے ملک میں،کھلم کھلا پیسوں اور طاقت کے زور پر ہی ووٹ خریدے جا ئیں گے؟ اور ہر جگہ جس کی لاٹھی، اس کی بھینس کا معاملہ رہے گا؟ ایسا لگتاہے کہ موجودہ حکومت نےہر الیکشن میں، نت نئے ہتھکنڈوں کو استعمال کرکے ، ہر حال میں الیکشن جیتنے کو اپنا مشن بنا لیا ہے۔
میرے خیال میں ،گزشتہ ۱۴؍ برسوں میں حکومت نے دستور ہند کو جس طرح طاق پر رکھنے کی کو شش کی ہے، وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ موجودہ سربراہ ، ملک کو انانیت کی طرف لے جانا چاہتا ہے جہاں حزب مخالف کا وجود ہی نہ رہے۔ غرض یہ کہ ہندوستان سے جمہوریت کا جنازہ اٹھوانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
الیکشن کے اس کھیل میں ، نوٹوں کے ذریعہ بکنے والے کم پڑھے لکھے عوام کے ساتھ ہی وہ پڑھے لکھے اندھ بھکت بھی شامل ہیں جو وطن عزیز میں گودی میڈیا کے ذریعے پھیلائی جارہی ، نفرت کی سیاست کی بھٹی سے تپ کر نکلتے ہیں اور نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔
ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی حزب مخالف، خصوصاً کانگریس کو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ اس وقت ، حزب مخالف کا غیر معمولی اتحاد، ملک کی سالمیت اور جمہوریت کی بقا کیلئے نہایت ضروری ہے۔ انہیں اپنی کمزوریوں کو تلاش کرنے اور ان کمزوریوں پر قابو پانے کی حکمت عملی بنانے کو ترجیح دینی ہوگی۔
ہندوستان کے نوجوانوں کو یہ احساس اور یقین دلانا ضروری ہے کہ ہمارا ملک امن و آشتی کا علمبردار رہا ہےاور ہمیں پیغام محبت کے ذریعہ ہی ملک کے تمام شہریوں کو متحد رکھنا ہے اور نفرت کی سیاست کرکے اقتدار کے بھوکے سیاسی لیڈروں کو ، حکومت سے بے دخل کرنا ہے۔ اس ضمن میں، سیاسی جماعتوں کو اپنے درمیان کالی بھیڑوں سے بھی محتاط رہنا ہوگا۔
جب ہمارے نوجوان، ملک کے مستقبل کو گہن لگتا محسوس کریں گے ، تب انھیں اپنا مستقبل تاریک ہوتا نظر آئے گا۔ انھیں یہ یقین دلانا ہوگا کہ ملک کی بقا صرف اور صرف محبت اور بھائی چارگی میں ہے، نفرت میں ہر گز نہیں۔ایسے میں ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ .... لمبی ہے غم کیشام، مگر شام ہی تو ہے۔
م۔اسماعیل نیریکر، رابوڑی تھانے
(سینئر ٹرسٹی اور مشیر،آئیڈیل ایجوکیشن سوسائٹی، تھانے)
اپوزیشن کو حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے،اعتماد بحال رکھنا چاہئے

بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ملک کے سیکولر عوام کو شدید پریشان کردیا ہے۔ملک اور ریاست کے جمہوری ڈھانچے اور انتخابی شفافیت کے بارے میں شدید خدشات پیدا کر دیئے ہیں۔ الیکشن سے عین قبل۶۵؍ لاکھ ووٹرز کے ناموں کا ایس آئی آر کے نام پر اچانک فہرست سے کٹ جانا، اور پھر انتخابی عمل کے آخری مرحلے میں تقریباً۲۰؍ لاکھ نئے ناموں کا غیر معمولی اندراج، ایک ایسا معاملہ ہے جسے بالکل نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دونوں عمل انتخابی فہرستوں کی ساکھ اور درستگی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں اور اس تاثر کو مضبوط کرتے ہیں کہ انتخابی عمل مکمل طور پر غیر جانبدار نہیں رہا۔مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ متعدد حلقوں سے ای وی ایم کے بے جا استعمال، گنتی کے دوران مشکوک وقفے، فارم۱۷؍ سی اور فارم۲۰؍ میں تضادات اور اتنی بڑی تعداد میں اعتراضات کے باوجود ’ری کاؤنٹنگ‘ کی درخواستوں کو مسترد کئے جانے کی باتیں سامنے آئی ہیں۔ یہ تمام باتیں اس خدشے کو گہرا کرتےہیں کہ انتخابات کے نتائج پر مصنوعی اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی اور انتظامی مشینری نے اپنی ذمہ داری غیر جانبداری سے پوری نہیں کی۔
سیکولر قوتوں کی غیر متوقع شکست، مضبوط ووٹ بینک والے علاقوں میں پولنگ کی غیر فطری کمی اور مخصوص حلقوں میں غیر معمولی زیادہ پولنگ یہ سب عناصر انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ جمہوریت کا بنیادی ستون عوام کا اعتماد ہے، اور جب کسی ریاست میں لاکھوں ووٹروں کے حقوق متاثر ہوں، انتخابی فہرستوں میں چھیڑ چھاڑ ہو اور الیکٹرانک ووٹنگ کے عمل پر شبہات بڑھ جائیں، تو یہ پورے انتخابی نظام کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایسے میںسماجوادی پارٹی مطالبہ کرتی ہے کہ الیکشن کمیشن ان بے ضابطگیوں کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ جانچ کرائے تاکہ ملک اور بہار کے عوام کا اعتماد بحال ہو اور مستقبل میں انتخابی عمل کسی بھی طرح کی جانبداری یا مداخلت سے محفوظ رکھا جا سکے۔ یہ جنگ لمبی ہوسکتی ہے،اسلئےاپوزیشن کو بھی حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے اور اپنا اعتماد بحال رکھنا چاہئے۔
ریاض مقیم الدین اعظمی(ریاستی سکریٹری مہاراشٹر،سماج وادی پارٹی)
مضبوط اکثریت کی نہیں، مضبوط جمہوریت کی ضرورت ہے
بہار کے انتخابی نتائج صرف ایک سیاسی جیت نہیں بلکہ پورے ملک کیلئے ایک سنجیدہ پیغام ہیں۔ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں جس حجم کی کامیابی لے کر اُبھری ہیں، وہ یقیناً حیران کن ہے— نہ صرف مخالفین کیلئے بلکہ خود اکثریتی اتحاد کیلئے بھی۔ یہ جیت ایک سیاسی حقیقت ضرور ہے مگر عوامی اطمینان ابھی اس کے ہمراہ نہیں ہے ۔ ریاست کی فضا میں بے چینی اور بے یقینی کا احساس صاف محسوس ہوتا ہے، جو صرف نتائج کے نہیں، پورے انتخابی عمل کے بارے میں سوالات پیدا کرتا ہے۔
سیکولر محاذ کا اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے۔ اگر اس کی مکمل حکمتِ عملی صرف ووٹ چوری کے بیانیے تک محدود رہی تو فائدے سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ انتخابی عمل پر سوال اٹھانا کسی بھی جمہوریت کا حق ہے مگر اس کیلئے مضبوط دلائل، ٹھوس شواہد اور مسلسل تعمیری دباؤ ضروری ہوتا ہے نہ کہ محض احتجاجی نعرے۔
nمیرے نزدیک حزبِ اختلاف کو اس وقت تین بنیادی اقدام کی ضرورت ہے:
nمتبادل حکمرانی کا واضح ماڈل :کہ وہ کیا کر سکتی ہے جو حکومت نہیں کر رہی ہے۔
nعوامی مسائل پر براہِ راست مہم: جیسے روزگار، مہنگائی، سلامتی اور تعلیم۔
n جمہوری احتساب کیلئے متحدہ پلیٹ فارم: تاکہ انتخابی شفافیت محض نعرہ نہیں بلکہ منظم جدوجہد بنے۔
حکومت ایک مضبوط اکثریت کے ساتھ آئی ہے، مگر مضبوط اکثریت سے زیادہ مضبوط جمہوریت کی ضرورت ہے۔ حزب اختلاف کی ذمہ داری محض مخالفت کرنا نہیں، بلکہ ایک ایسا اخلاقی، فکری اور سیاسی راستہ دکھانا ہے جو عوام کے اعتماد کو جمہوریت پر پھر سے بحال کرے۔
بہار کا انتخاب ایک اختتام نہیں،ایک نئے سوال کی تشکیل ہے:
کیا ہندوستان میں سیاسی جیت اور عوامی اعتماد کبھی ایک ہی سمت میں چل پائیں گے؟
فوزیہ رباب( شاعرہ، تجزیاتی کالم نگار اور بانی صدر، رباب فاؤنڈیشن)
موجودہ حالات میں اپوزیشن جماعتوں کا مشن خود جیتنے سے زیادہ بی جے پی کو شکست دینا ہونا چاہئے
بلاشبہ بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج حیران کن اور چونکا دینے والے ہیںکیونکہ بہار الیکشن سے پہلے ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ کے دوران راہل گاندھی اور تیجسوی یادو کی قیادت میں دونوں اہم لیڈروں کا ایک اسٹیج پر آکر کی جانے والی ریلیوں میں جو ہجوم دکھائی دیتا ہے اور جس طرح سے انہیں عوامی حمایت ملتی ہوئی نظر آرہی تھی، وہ ووٹنگ کے دوران کہیں دکھائی نہیں دیا۔ ادھو ٹھاکرے نےبالکل بجا طنز کیا ہے کہ کیا بہار میں راہل گاندھی اور تیجسوی یادو کی ریلیوں میں نظر آنے والی بھیڑ ’اے آئی‘ کی وجہ سے تھی؟ یہ ثابت کرتا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ لیکن اب جبکہ انتخابی نتائج ظاہر ہوگئے ہیں، اپوزیشن جماعتوںکو آگے کا لائحہ عمل کرکے اس جانب پیش رفت کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔
بہار کے جو انتخابی نتائج آئے ہیں، اس میں دھاندلی کے ساتھ ہی کچھ اور بھی وجوہات ہیں۔ مثال کے طور پر سیٹوں کی تقسیم کے دوران سیکولر جماعتوں بالخصوص کانگریس اور آر جے ڈی میں تال میل کی کمی کی وجہ سے نامزدگی کے آخری دن تک جوتم پیزار کی نوبت رہی۔ دونوں بڑی جماعتوں میں پائی جانے والی اس کشمکش سے رائے دہندگان کے من میںیقینی طورپر شک و شبہات پیدا ہوئے ہوں گے۔ اب جبکہ انتخابات ہوگئے، نتائج آگئے، حکومت بن گئی تو اب پیچھے دیکھنے کے بجائے پیچھے کی باتو سے سبق لیتے ہوئے آگے کی بات کی جائے۔ ایسے میںضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیکولر جماعتیں اپنا اپنا احتساب کریں اور آگے کا لائحہ عمل مضبوطی کے ساتھ کچھ اس طرح تیارکریں کہ ان کا مشن خود جیتنے کے بجائے بی جے پی کو شکست دینا ہو۔ اس مقصد کے ساتھ آگے بڑھیں اور ریاست کی تمام ہم خیال چھوٹی بڑی پارٹیوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں۔
عبدالعزیز انصاری (سابق وائس پرنسپل رئیس جونیئر کالج،بھیونڈی)
سیکولر جماعتوں کو ہمت سے کام لینا ہوگا، یہ آخری الیکشن نہیں ہے

یہ نتائج نہ صرف عوام کیلئے غیر یقینی ہیں بلکہ مایوس کن بھی ہیں۔ اب تو انتخابات کے عمل پر یقین کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ بہار میں ایک طرف بی جے پی ، ایل جے پی اور جے ڈی یو وغیرہ تھیں تو مقابل میں کانگریس، آر جے ڈی اورپرشانت کشور کی نئی پارٹی جن سوراج تھی۔ راہل گاندھی ، تیجسوی یادو اورپرشانت کشور نے کافی محنت کی، نہ صرف اپنی بات رکھنے اور اپنا منشورترتیب دینے میں بلکہ نتیش کمار حکومت کی کوتاہیوں، خامیوں اور بدعنوانیوں کو اجاگر کرنے میں بھی،لیکن اپوزیشن کو کسی بھی بات کا فائدہ نہیں ملا۔ عوام میں اتنی آگہی تھی،اس کے باوجود اپوزیشن مہاراشٹرکی طرز پر ہار گیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو اب مزاقاً یہ کہتے ہوئے بھی سنا جارہا ہے کہ اگر ہمارے الیکشن کمشنر کو نیپال بھیج دیا جائے تو وہاں بھی بی جے پی حکومت بنالے گی۔ بہرحال ایسے میں’انڈیا‘ اتحاد میں شامل جماعتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے اورعوام کو اعتماد میں لے کر کوئی ٹھوس اور دور رس فیصلہ کرنا چاہئے۔ انتخابی دنوں میں کانگریس اور آر جے ڈی کے درمیان جو رسہ کشی تھی، اس پر دونوں ہی جماعتوںکو اپنا اپنااحتساب بھی کرنا چاہئے۔ ان کی رسہ کشی کا یقینی طور پر فائدہ این ڈی اےکو ملا ہے۔اس کے باوجود سیکولر جماعتوں کو ہمت و حوصلے سے کام لیتے ہوئے آگے کا لائحہ عمل طے کرنا چاہئے کہ یہ کوئی آخری الیکشن نہیں ہے۔
عادل آصف ( بزنس مین،کرلا، ممبئی)
بہار کے انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعدانتخابی نظام اور نتائج کے طریقۂ کار پر مزید بحث کی ضرورت ہے

بہارکے حالیہ نتائج نےانتخابی شفافیت اور رپورٹنگ کے معیار پر سوالات کو دوبارہ جنم دیا ہے۔ ماہرین اور اپوزیشن جماعتوں کے مطابق انتخابی عمل میں جانبداری، تکنیکی خامیوں اور شفافیت پر اٹھائے گئے اعتراضات کے باوجود الیکشن کمیشن کی کوئی تفصیلی وضاحت سامنے نہیں آئی، جس سے عوامی بے اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔انتخابات کے دوران حقیقی صحافت کے فقدان نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنایا ہے۔ مبصرین کے مطابق زمینی حقائق مؤثر انداز میں عوام تک نہیں پہنچ سکے، جس کے باعث مجموعی انتخابی تصویر غیر واضح رہی۔اعداد و شمار بھی توجہ کا مرکز ہیں:۴۶ء۵؍ فیصد ووٹ حاصل کرنے والے اتحاد کو۲۰۲؍ نشستیں ملیں جبکہ۳۷ء۶؍ فیصد ووٹ پانے والا گٹھ بندھن ۳۷؍ نشستوں پر سمٹ گیا۔ ووٹ شیئر اور سیٹ شیئر کے اس فرق نے انتخابی نظام اور نتائج کے طریقۂ کار پر مزید بحث کو جنم دیا ہے۔اس کے علاوہ ۲۳؍ فیصد ووٹ حاصل کرنے والی سب سے بڑی پارٹی جسے عوام نے حکومت سازی کیلئے ترجیح دی، وہ انتخابی نتائج کے بعد ریاستی سیاست کے حتمی نقشے میں نمایاں نظر نہیں آتی، جس سے عوامی ووٹ کی مؤثریت سے متعلق سوالات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
عرفان احمد انصاری (پرنسپل زیڈ بی زکریا انگلش ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج ، نالا سوپارہ)