گزشتہ دنوں نیویارک میں میئر کے عہدے کیلئے الیکشن ہوا۔ یہ ایک ایسا الیکشن تھا جس پر صرف نیویارک اور امریکہ ہی کی نہیں بلکہ پوری دنیاکی نظر تھی۔ وجہ یہ تھی کہ ایک ایسے شہر میں جہاں مسلمانوں کی آبادی بہت کم ہو، وہاں پر مسلم امیدوار تھا ،اس پر مستزاد یہ کہ امریکی صدر اس کا سخت مخالف تھا۔ مخالفت بھی کوئی نئی بات نہیں لیکن ٹرمپ نے اس کودل پر لے لیا تھا اور ممدانی کو ووٹ دینے کی صورت میں نیویارک کافنڈ روک دینے کا انتباہ بھی دیا تھا۔ ایسے میںہم نے اپنے قارئین سے یہی جاننے کی کوشش کی کہ اس نتیجے کی کیا اہمیت ہے؟
ظہران ممدانی نے میئر کاالیکشن جیت کر نہ صرف ایک تاریخ رقم کی ہے بلکہ دنیا بھر کے اقلیتوں کو حوصلہ بھی فراہم کیا ہے۔ تصویر:آئی این این
یہ جمہوری اقدار اور حق پسندی کی جیت ہے
ڈونالڈ ٹرمپ کی سخت مخالفت اور دباؤ کے باوجود امریکی شہر نیویارک میں ظہران ممدانی کا میئر کے عہدے پر کامیاب ہونا دراصل جمہوری اقدار، برداشت ، اورانسانی مساوات کی ایک روشن مثال ہے۔ یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ حق اور سچائی کے راستے پر ثابت قدم رہنے والا شخص آخر کارکامیاب ہوتا ہے خواہ حالات کتنے ہی ناسازگار کیوں نہ ہوں۔
نیویارک جیسے کثیرالثقافتی شہر میں ایک مسلم امیدوارکا کامیاب ہونا اس بات کی واضح علامت ہے کہ عوام اب مذہب یا نسل کے بجائے کردار ، قابلیت اور خدمت خلق کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ ظہران ممدانی نے اپنی اصول پسندی، سماجی خدمت اور مثبت طرز عمل کے ذریعے اور ایک نئے سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا۔ ٹرمپ کی صریح مخالفت کے باوجودظہران ممدانی کی جیت اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتی ہے کہ پڑھے لکھے رائے دہندگان اب شخصیت پرستی یا کسی دباؤ سے زیادہ امیدوار کی کارکردگی، اس کے ویژن اور مقامی مسائل کے حل کو ترجیح دیتے ہیں۔اسی طرح اس نتیجے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عوام کا فیصلہ اکثر طاقت ور سیاسی شخصیات کی مہمات سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔
یہ کامیابی دنیابھر کے انصاف پسند لوگوں کیلئے امید کا ایک پیغام ہے کہ اگر نیت صاف ہو ، مقصد اعلیٰ ہو اورجدوجہد خلوص کے ساتھ کی جائے تو تعصب ، نفرت اور مخالفت کے باوجود کامیابی ممکن ہے۔ ہمیں ظہران ممدانی کی جدوجہد سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایمانداری، اصول پسندی اور عوامی خدمت ہمیشہ دیرپا کامیابی کی بنیاد بنتی ہے۔
ڈاکٹرشیخ بوالبرکات ( ریجنل ڈائریکٹر، مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی، نوی ممبئی)
اس کامیابی کا ہمیں گہرائی سے تجزیہ کرنا ہوگا

اس پرہمیں بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ محض۳۴؍سال کے ممدانی کی کامیابی کو گہرائی سے سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ارے بھائی ممدانی تم نے کیا کردیا کہ دنیا بھر کے جمہوریت پسند عوام بشمول مسلمانوں کے تم راتوں رات ہیرو بن گئے۔شروع میں لوگوں نےانہیں سنجیدگی سے نہیں لیا،لیکن وہ اپنی جدوجہد میں لگا رہا اور لوگوں سے ملاقات کرتا رہا۔ جب اس نے نیو یارک کے حقیقی مسائل جس کا تعلق براہ راست عوام سے تھا، اٹھا نا شروع کیا تو اس شہر کے۹؍ فیصد مسلمانوں میں سے ایک کو، عوام کی اکثریت نے ساتھ دیا، باوجود اس کے کہ وہ اس کی مذہبی شناخت کے سخت مخالف تھے ۔ وجہ صاف تھی کہ ممدانی نےمذہب سے اوپراُٹھ کر ان کے روز مرہ کے مسائل کو حل کرنے کا وعدہ کیا اور صرف وعدہ نہیں کیا بلکہ اس کی پوری منصوبہ بندی ان کے گوش گزار کی۔ظہران ممدانی سے ہمارے لیڈروں بالخصوص مسلم لیڈروں کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ بھی ملک کے سامنے ایسا ہی کوئی پلان پیش کریں تو مذہب سے اوپر اُٹھ کر ان کی بھی حمایت میں لوگ سامنے آسکتے ہیں۔ ممدانی کا کوئی مذہبی یا سیاسی رہنما نہیں تھا، سوائے اس کے کہ تعلیمی سفر میں ان کے اساتذہ نے انہیں اس مقام پر پہنچایا۔اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہمیں بھی موقع پرست ’رہنماؤں‘ سے دوری بناتے ہوئے صرف تعلیمی رہنماؤں کو سنجیدگی سےلینا چاہئے۔میرے خیال میں ہمیں اسکول ، کالج اور مدرسوں کے اساتذہ کا سنجیدگی سے خیال رکھنا چاہئے تاکہ وہ قوم کے بچوں کے مستقبل کا خیال رکھ سکیں۔
انیس احمد صدیقی (سینئر صحافی،کرلا ، ممبئی)
یہ جیت دلچسپ، حیران کن اور ا مید افزا رہی

نیویارک کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ ظہران ممدانی کی جیت بڑی دلچسپ، حیران کن اور ا مید افزا رہی۔دلچسپ اسلئے کہ بہت زیادہ وسائل نہ ہونے کے باوجود انہوں نے یہ معرکہ سر کیا۔ حیران کن اسلئے کہ ان کی مخالفت میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ ہی دنیا کے سب سے بڑے سرمایہ دار ایلون مسک نے ان کی کھل کر مخالفت کی تھی اورنیو یارک کے بیشتر بڑے سرمایہ داروں نے انہیں ہرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا لیکن ظہران ممدانی کو ہرا نہیں سکے۔نیویارک میں صرف ۹؍ فیصد مسلم ہیں۔ عام طور پر مسلمانوں کو عیسائی اور یہودی اپنا دشمن سمجھتے ہیں، اس کے باوجود یہودی، عیسائی اور دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والے ووٹرس نے ظہران ممدانی کو ووٹ دے کر نہ صرف یکجہتی کا ثبوت دیا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ امیدوار اچھا ہو تو مذہب سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اس وقت ممدانی عالمی میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے زمین سے جڑے مسائل کو ہی اپنا محور بنایا تھا۔ ان کی باتوں میں شدت پسندی نہیں تھی، کسی کی مخالفت نہیں تھی بلکہ پر جوش اور پر عزم لہجہ ہی ان کی پہچان تھا۔ ظہران ممدانی کی جیت امید افزا اسلئے کہ ان کی کامیابی سے دنیا کے دیگر خطوں میں بھی عوام کی نمائندگی کرنےوالوں کو ایک اچھا پیغام گیا ہے کہ اگر وہ عوامی مسائل پر بات کریں گے اور اس کا لائحہ عمل بھی ان کے روبرو پیش کریں گے تو اس بات سے قطع نظر کہ ان کا مذہب اور مسلک کیا ہے، انہیں قبول کیا جائے گا۔ ان کی ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ انہوں نے کبھی اپنی شناخت چھپانے کی کوشش نہیں کی۔
حافظ ریحان محمد ایوب( مالیگاؤں)
ان کی صاف گوئی اور بے باکی کو مثال بنایا جاسکتا ہے

ظہران ممدانی کی نیویارک کے میئر کے عہدے پر کامیابی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جمہوری اقدار خوف، دباؤ اور دھمکیوں پر ہمیشہ برتری رکھتی ہیں۔ ٹرمپ کی سخت مخالفت، فنڈ روکنے کی تنبیہات اور ووٹرز کو خوف زدہ کرنے کی کوششوں کے باوجود نیویارک کے عوام نے اصولوں کی بنیاد پر اپنا فیصلہ سنایا۔ یہ انتخاب ہمیں بتاتا ہے کہ جب عوام شعور اور ہمت کے ساتھ ووٹ دیں تو بڑی سے بڑی سیاسی قوت بھی اُن کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔یہ کامیابی اسلئے بھی زیادہ اہم ہے کہ آج جب دنیا کے مختلف حصّوں میں مسلمانوں کو دہشت گردی کے طعنے دے کر ان کی شناخت مسخ کی جاتی ہے، ایسے ماحول میں عالمی سطح پر ایک مسلم نوجوان کا اس طرح نمایاں ہونا ایک مثبت پیغام دیتا ہے۔ ممدانی کی کامیابی ثابت کرتی ہے کہ سچی قیادت مذہب نہیں بلکہ کردار، خدمت اور ایمانداری سے پہچانی جاتی ہے۔ان کا بےباک اور اصولی رویہ بھی قابلِ تحسین ہے۔ انہوں نے میڈیا میں مودی کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی اور گجرات کے واقعات پر اپنا دوٹوک موقف رکھا۔یہ بات موجودہ سیاسی فضا میں بڑی اخلاقی جرأت چاہتی ہے۔ اسی صاف گوئی اور اصول پسندی نے انہیں عوام کے ایک بڑے طبقے میں مقبول بنایا۔ان تمام باتوں کی روشنی میں بجا طور پر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ممدانی مستقبل میں بھی حق پر قائم رہیں گے، انصاف اور برابری کی آواز بلند کرتے رہیں گے اور نہ صرف امریکہ میں بلکہ عالمی سطح پر بھی مسلمانوں کی مثبت، معتدل اور مہذب تصویر کو مضبوط کریں گے۔
فرح جبین ( صحافی اور اینکر، ممبرا)
ظہران کی اس جیت نے مسلم شناخت کی قبولیت کا اعلان کیا ہے

نیویارک میں ظہران ممدانی کی میئر کے عہدے کیلئے جیت، خاص طور پر ڈونالڈ ٹرمپ کی شدید مخالفت اور فنڈز روکنے کی دھمکیوں کے باوجود، ایک انتہائی اہم اور معنی خیز جیت ہے۔ یہ کامیابی کئی لحاظ سے قابلِ توجہ ہے اور موجودہ امریکی اور عالمی سیاست کے تناظر میں کئی اہم سبق دیتی ہے۔ کامیابی کا تجزیہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کی ممدانی کی جیت دراصل ٹرمپ کی تقسیم کی سیاست اور قوم پرستی والے سیاسی بیانیے کی ناکامی کا اشارہ ہے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ نیویارک جیسے کثیر الثقافتی اور ترقی پسند شہر میں، ووٹروں نے نفرت اور دھمکی کی سیاست کے بجائے شمولیت، ترقی پسندانہ ایجنڈے اور سماجی انصاف کے پیغام کو ترجیح دی۔ اس طریقے سے یہ متنوع اتحاد کی فتح بھی ہے جیسے ممدانی نے محنت کش طبقے، اقلیتی گروہوں اور ترقی پسند ووٹروں کا ایک مضبوط اتحاد بنایا۔ ان کی توجہ مہنگے مکانات، صحت عامہ، اور تعلیمی اصلاحات جیسے بنیادی شہری مسائل پر رکھی، جس سے عام ووٹر اس سے براہ راست جڑے۔ وہیں سیاسی دھمکیوں کا الٹا اثر بھی دکھا ،ٹرمپ کی فنڈز روکنے کی دھمکی دراصل ووٹر ٹرن آؤٹ کو بڑھانے اور ترقی پسند ووٹروں کو مزید متحرک کرنے کا سبب بنی، جنہوں نے اس دھمکی کو جمہوری عمل پر حملہ سمجھا۔
اس جیت نے مسلم شناخت کی قبولیت کا بھی اعلان کیا، وہ بھی ایک ایسے شہر میں جہاں مسلمانوں کی آبادی کم ہے وہاں ممدانی کا کامیاب ہونا اس بات کی علامت ہے کہ امریکی ووٹر اب نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر امیدوار کی اہلیت اور پالیسیوں پر توجہ دے رہے ہیں، اگرچہ اسلاموفوبیا کے چیلنجز اب بھی امریکہ میں موجود ہیں۔اس طرح ممدانی کی جیت دنیا بھر کی اقلیتی برادریوں اور ترقی پسند تحریکوں کیلئے ایک حوصلہ افزا پیغام بھی ہے۔
ڈاکٹر ابو سعد اعجاز ( گیسٹ لیکچرار، وائی سی ایم او یو،بھیونڈی)
امید، جدوجہد اور مثبت سوچ دیرپا اثر چھوڑتی ہے

ظہران ممدانی کی جیت نے امریکی سیاسی منظر نامے میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ کامیابی اسلئے بھی نمایاں ہے کہ انہیں نہ صرف سخت انتخابی مقابلے کا سامنا تھا بلکہ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی کھلی مخالفت بھی برداشت کرنا پڑی۔ اس کے باوجود ان کی فتح اس بات کا ثبوت ہے کہ شہری سیاست میں عوام کی بصیرت اور زمینی حقائق، بڑے سیاسی بیانیوں پر غالب آجاتے ہیں۔ظہران ممدانی نے اپنی انتخابی مہم میں امن، برابری، معاشی مواقع اور سماجی انصاف جیسے بنیادی مسائل کو مرکز میں رکھا۔ انہوں نے کمیونٹی سے مضبوط رابطہ قائم کیا، نوجوانوں کے درمیان مقبولیت حاصل کی اور اقلیتوں کی حقیقی نمائندگی کا جذبہ دکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کی مخالفت ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی کیونکہ ووٹرس نے شخصیت پرستی پر امیدوار کی پالیسی، اس کے ویژن اور کردار کو ترجیح دی۔اس کامیابی میں ہمارے لئے کئی اہم سبق پوشیدہ ہیں۔ سب سے بڑا درس یہ ہے کہ جمہوری نظام میں اصل طاقت عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اگر امیدوار عوام کے دلوں تک رسائی حاصل کرلے اور ان کی امیدوں کا ترجمان بن جائے، تو بڑے سے بڑا سیاسی دباؤ بھی اس کی کامیابی کو نہیں روک سکتا۔ دوسرا سبق یہ کہ نفرت، تقسیم اور تعصب پر مبنی سیاست بالآخر کمزور پڑ جاتی ہے، جبکہ امید، جدوجہد اور مثبت سوچ دیرپا اثر چھوڑتی ہے۔
ڈاکٹرطارق صدیقی (بھیونڈی)