Inquilab Logo

اڈانی پر سوالات اور وزیر اعظم کا خطاب

Updated: February 09, 2023, 10:48 AM IST | Mumbai

پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن میں صدر جمہوریہ کی تقریر پر رسم شکریہ کے دوران جو سوالات اُٹھائے گئے اور جن موضوعات کو بحث کا موضوع بنانے پر اصرار کیا گیا، اُن پر وزیر اعظم مودی کے جواب کا انتظار سب کو تھا مگر جواب ملا نہیں۔

Prime Minister   Narendra Modi
وزیر اعظم نریندر مودی

پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن میں صدر جمہوریہ کی تقریر پر رسم شکریہ کے دوران جو سوالات اُٹھائے گئے اور جن موضوعات کو بحث کا موضوع بنانے پر اصرار کیا گیا، اُن پر وزیر اعظم مودی کے جواب کا انتظار سب کو تھا مگر جواب ملا نہیں۔ اسلئے کہ وزیر اعظم نے جواب دینے کا تاثر تو ضرور دیا مگر جواب نہیں دیا۔ حزب اختلاف کی نشستوں سے برابر توجہ دلائی جارہی تھی اور بہت اچھا ہوتا اگر وزیر اعظم اسے یاد دہانی سمجھ کر دوٹوک جواب دیتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ شاید اس کی توقع بھی کسی کو نہیں تھی۔ وزیر اعظم نے وہی کیا جو اُن کی تقریر کا ٹریڈ مارک ہے کہ اپوزیشن بالخصوص کانگریس کو اُس کے دورِ حکومت کی خامیوں پر ہدف ملامت بنایا جائے۔ یہ عام تقریروں میں ہو، انتخابی ماحول میں ہو تو اس سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے، مگر، جو سوالات اُٹھائےگئے وہ ایوان پارلیمان میں اُٹھائے گئے تھے، بالخصوص وہ جو کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے اُٹھائے، ملک کے عوام کو اُن کے جوابات جاننے کا حق ہے۔ اس دوران ایک تکنیکی معاملہ یہ تھا کہ راہل کی تقریر کے بعض اقتباسات ایوان کے ریکارڈ سے حذف کردیئے گئے، چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم پر اُن کا جواب دینا لازم نہیں رہ گیا تھا اس کے باوجود ہمارے خیال میں راہل کی تقریر کے باقی ماندہ حصے میں بھی کئی جواب طلب باتیں تھیں۔
  راہل کا خطاب ختم ہونے کے بعد ہی سے سوشل میڈیا پر اُن کی مکمل تقریر اور اس کے اقتباسات گشت کرنے لگے تھے یعنی اُنہوں نے جو سوالات کئے وہ عوام میں آچکے تھے اس لئے اُن کا جواب تکنیکی اعتبار سے بھلے ہی ضروری نہیں رہ گیا تھا مگر اخلاقی طور پر اور عوامی نقطۂ نظر سے اس کی ضرورت تھی۔ امریکی مالیاتی فرم ہنڈن برگ کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد سے جو صورت حال پیدا ہوئی، شیئر بازار جس طرح ٹوٹا، اس سے پہلے اڈانی جس غیر معمولی رفتار سے دولتمند بنے، ایک کے بعد دوسرے سیکٹر پر اُن کا غلبہ ہوتا گیا، بیرونی ملکوں سے معاہدوں میں بھی اُنہی کو مواقع ملتے رہے، اور، جیسا کہ راہل نے کہا، امیر ترین شخصیات کی عالمی فہرست میں ۶۰۹؍ ویں مقام سے تیسرے مقام پر پہنچے یہ سب ایسے حیرت انگیز اور بڑی حد تک ناقابل یقین مگر سچے واقعات ہیں کہ ان کے تعلق سے ملک کے ہر شہری کے دل میں سوال ہے اور جواب کہیں نہیں مل رہا ہے۔
 اِس دوران اپوزیشن نے جس ’’موضوعاتی اتحاد‘‘ کا مظاہرہ کیا اس کی ستائش کی جانی چاہئے۔ اس سے ہماری مراد اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کا اڈانی گروپ پر لگنے والے الزامات کی جانچ کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کی تشکیل کےمطالبے پر متفق ہونا ہے۔ البتہ ان کے طریق کار میں معمولی اختلاف تھا۔ چند پارٹیوں نے ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا جبکہ دیگر نے ایوان میں حاضر رہ کر سوال اُٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس معمولی اختلاف سے قطع نظر اپوزیشن کی جماعتوں نے جس طرح ایک دوسرے کے سُر میں سُر ملایا وہ گزشتہ چند دنوں کا اہم واقعہ ہے۔ جے پی سی سے متعلق اُن کا مطالبہ مان لیا جائے یا نہیں، اپوزیشن کے درمیان وسیع تر اتفاق رائے متعلقہ پارٹیوں کو ۲۰۲۳ء کے اسمبلی انتخابات اور ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات کیلئے تال میل کو مضبوط کرنے کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔ ایسا ہوا تو یہ فال نیک ہوگا۔ رہا سوال اڈانی سے متعلق سوالات کا، تو ہمارے خیال میں ان کا جواب نہ تو کل ملا نہ ہی آئندہ کبھی مل سکے گا۔ بی جے پی ’’بیانیہ‘‘ بدل دینے میں مہارت رکھتی ہے، ممکن ہے بدل دے مگر جب عوام خود یہ سوالات پوچھیں گے تب کیا ہوگا؟ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK