رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور غزہ کے حالات میں بہتری تو کیا آتی، مزید ابتری آتی جارہی ہے۔ اب سے پہلے بھی دھواں دھار بمباری کے دوران اہل فلسطین نے ماہِ رمضان کا استقبال کیا اور پھر پورا رمضان اسرائیل کا ظلم سہا۔
EPAPER
Updated: March 08, 2024, 2:32 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور غزہ کے حالات میں بہتری تو کیا آتی، مزید ابتری آتی جارہی ہے۔ اب سے پہلے بھی دھواں دھار بمباری کے دوران اہل فلسطین نے ماہِ رمضان کا استقبال کیا اور پھر پورا رمضان اسرائیل کا ظلم سہا۔
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور غزہ کے حالات میں بہتری تو کیا آتی، مزید ابتری آتی جارہی ہے۔ اب سے پہلے بھی دھواں دھار بمباری کے دوران اہل فلسطین نے ماہِ رمضان کا استقبال کیا اور پھر پورا رمضان اسرائیل کا ظلم سہا۔ اب جو صورتحال ہے وہ سابقہ ریکارڈ بھی توڑ رہی ہے۔ اس ہفتے کے اوائل میں غزہ میں جاری نسل کشی کے ڈیڑھ سو دن مکمل ہوئے۔ اس عرصے میں خاندان کے خاندان مٹا دیئے گئے،عمارتیں منہدم کردی گئیں، اسپتال اور اسکولوں تک کو نہیں بخشا گیا اور لاشوں کے ڈھیر لگا دیئے گئے۔ اس اجمال کی تفصیل سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ ان ۱۵۰؍ دنوں میں ۳۰؍ ہزار سے زائد اہل غزہ شہید اور ۷۱؍ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ سب گزشتہ پانچ ماہ سے زائد عرصہ سے جاری ہے اور عالمی برادری اسرائیلی جارحیت کا تماشا دیکھ رہی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ بچوں کو دودھ میسر ہے نہ غذا۔ بہت سے بچے تغذیہ کی کمی کا شکار ہوئے اور جو باقی ہیں اُنہیں بھی ’’سخت ترین غذائی قلت‘‘ کا سامنا ہے۔ غذا ہی نہیں دوا بھی میسر نہیں ہے۔ چونکہ طبی نظام درہم برہم ہوچکا ہے اس لئے تغذیہ کی کمی کے سبب طبی مسائل کا شکار ہونے والے بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اُن کیلئے نہ تو دوائیں ہیں نہ ہی ڈاکٹر۔ اس مظلوم آبادی کی راحت کیلئے سرگرم عمل اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو بھی ہزار دقتوں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ ہر طرف تباہی کے مناظر ہیں اور اُمید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔
ایسے حالات میں غزہ کی بچی کھچی آبادی ماہ ِمبارک کا استقبال کرنے کو ہے۔ رمضان المبارک میں بقیہ دُنیا کے مسلمانوں کے پاس کھانے پینے کی اشیاء کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ پہننے اوڑھنے کی اشیاء کی قلت نہیں ہوگی۔ اُنہیں ایک سے بڑھ کر ایک طبی سہولت میسر ہوگی۔ سحر و افطار کیلئے انواع و اقسام کی نعمتیں اُن کی منتظر ہوں گی۔ اس کے باوجود یہ بے بسی کیا کم ہے کہ بقیہ دُنیا کے مسلمان چاہیں بھی تو سحر و افطار کے دستر خوان اہل غزہ تک نہیں پہنچا سکتے۔ بقیہ دُنیا کے عوام کی یہ بے بسی اُن کے حکمرانوں کی بے حسی کا نتیجہ ہے جو بہت کچھ کرسکنے کی اہلیت کے باوجود کوئی ٹھوس تدبیر اختیار کرنے کی ہمت اپنے اندر پیدا نہیں کرپاتے۔ دس مسلم ملکوں نے بھی اسرائیل کا بائیکاٹ کردیا اور امریکہ کو سمجھا دیا کہ جنگ فی الفور روکی جائے اور مسئلہ فوراً سے پیشتر حل کیا جائے تو نیتن یاہو ہوں یا بائیڈن، ان کی عقل ٹھکانے آجائیگی مگر مسلم حکمراں جو فلسطین کے حق میں آواز اُٹھانے میں بھی مصلحت سے کام لیتے ہیں، ان سے یہ اُمیدنہیں کہ وہ اُسے سبق سکھانے کا تہیہ کرینگے اور اب ایسا لگتا ہے کہ معاشی بائیکاٹ جیسی تدابیر کے ذریعہ سبق سکھانا ان کے بس کا نہیں۔
ان حالات میں ہم جنوبی افریقہ کی ستائش کئے بغیر نہیں رہ سکتے جس نے ایک بار پھر عالمی عدالت سے رجوع کیا اور درخواست کی ہے کہ غزہ میں مزید اقدامات ضروری ہیں کیونکہ اسرائیل غزہ میں جو کچھ کررہا ہے وہ ’’جینوسائڈ کنونشن‘‘ کی خلاف ورزی ہے۔ یاد رہے کہ جنوبی افریقہ ہی نے عالمی عدالت میں جینوسائڈ (نسلی تطہیر، نسلی صفایہ) کیس داخل کیا اور اب نئے سرے سے گزارش کی ہے کہ نئے واقعات کے پیش نظر نئی تدابیر اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دُنیا کے دیگر ملکوں کو جنوبی افریقہ جیسی ہمت دکھانے سے کون روک رہا ہے؟ کیا عالمی عدالت سے رجوع کرنا بھی ان کے اختیار میں نہیں؟