• Sun, 13 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پائپ روڈ اور قریش نگر کے ایک ہونے میں کوئی شبہ نہیں....

Updated: April 02, 2024, 12:46 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

رمضان المبارک کی ۲۰؍ ویں شب ہے، ۱۰؍ بجے کا عمل ہے اور مَیں کرلا میں ہوں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ یہاں کی پوری رونق پائپ روڈ پر ہی ہوتی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

رمضان المبارک کی ۲۰؍ ویں شب ہے، ۱۰؍ بجے کا عمل ہے اور مَیں کرلا میں ہوں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ یہاں کی پوری رونق پائپ روڈ پر ہی ہوتی ہے۔ مرکز مسجد کے قریب واقع کلیم ڈیری فارم پردودھ اور جلیبی خریدنے والوں کی بھیڑ ہے، ایسا ہی نظارہ گولڈن ڈیری فارم پر بھی دکھائی دے رہا ہے۔ واحد ریسٹورنٹ اور آزاد ریسٹورنٹ یہ دونوں ہوٹل اب پائپ روڈ کی آخری شناخت ہیں کیونکہ گزشتہ برسوں میں یہاں کا نقشہ کافی تبدیل ہوا ہے۔ جو ہوٹل شب بیداری کرنے والوں میں مشہور تھے وہ بند ہو گئےہیں جیسے میزبان ہوٹل۔ اب وہاں خواتین کے میک اپ کا سامان فروخت ہوتا ہے۔ زمانے کے تغیر اور سوشل میڈیا کے ظہور نے عوام کے کھانے پینے کی عادتوں کو بھی بدل دیا ہے۔ پہلے ان ہوٹلوں کا قیمہ یا بھونا مسالہ ’ ہاٹ کیک‘ ہوا کرتا تھا لیکن اب پیزا، شورمہ اور برگر کی چھوٹی چھوٹی دکانوں نے ان ہوٹلوں کی اور ان پکوانوں کی جگہ لے لی ہے لیکن جو کام یہ چھوٹی چھوٹی دکانیں نہیں کرسکی ہیں وہ ہے چائے کا متبادل پیش کرنا۔ ان کے پاس چائے کا کوئی متبادل نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب بھی پُرانے مراکز مثلاً واحد اور آزاد ریسٹورنٹ ہی ’چیّاشی ‘ کی تسکین کا سامان ہیں۔ یہاں حسب توقع رضوان بھائی سے ملاقات ہو گئی جو فی الحال ممبرا میں مقیم ہیں لیکن کرلا پائپ روڈ کی چائے کے رسیا ہیں۔ ان کا بچپن اسی علاقے میں گزرا ہے اس لئے یہاں کی چائے کے بغیر ان کا گزارہ نہیں ہوتا۔ رمضان ہو یا عام مہینہ، بارش ہو، گرمی ہو یا تیز دھوپ، ممبئی میں کہیں بھی کسی بھی کام سے جائینگے کرلا اتر کر واحد کی ایک چائے ضرور پی کر جائینگے۔ علیک سلیک کے بعد ان کا پہلا سوال یہی تھا: ’’ڈائری لکھنے نکلے ہو ؟‘‘ مَیں نے اثبات میں سر ہلایا، اب وہ مُصر کہ اُن کے ساتھ مَیں بھی چائے پیوں، انکار کے باوجود انہوں نے چائے کا آرڈر دے دیا اور گویا ہوئے کہ ہمارا دعویٰ ہے کہ یہاں کی چائے پئے بغیر آپ ایک لفظ بھی نہیں لکھ سکیں گے اس لئے چائے کا انکار نہیں کرتے۔ مَیں نے بحث مناسب نہ سمجھی کیونکہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا تھا۔ چائے ختم ہوتے ہی رضوان بھائی اسٹیشن کی طرف لپکے۔ مَیں بھی یہ سوچ کر اُن کے ساتھ ہولیا کہ آج قریش نگر کا چکر لگا لیا جائے۔ 
  قریش نگر جسے ’قصائی واڑہ‘ بھی کہا جاتا ہے، کرلا ایسٹ میں واقع مسلم اکثریتی بستی ہے۔ کسی زمانے میں کرلا کی شناخت پائپ روڈ کے ساتھ ساتھ قریش نگر سےبھی ہوتی تھی۔ یہاں معروف سماجی کارکن خالد انصاری سے ملاقات ہوئی جو اپنے دوستوں کے ساتھ شب بیداری میں مصروف تھے۔ خالد انصاری سماجی طور پرسرگرم رہنے کے ساتھ مذہبی طور پر بھی نہایت پابند انسان ہیں۔ ہر سال ۶؍ دسمبر کو بابری مسجد کی شہادت کے وقت اپنے علاقے میں بیٹے کے ساتھ اذان ضرور دیتے ہیں۔ پتہ نہیں اب اس روایت کو ممبئی میں رضا اکیڈمی اور چند مسلم تنظیموں کے علاوہ کس نےبرقرار رکھا ہے، انفرادی طور پر مَیں خالد بھائی کو جانتا ہوں جو یہ نظم کرتے ہیں۔ باتوں باتوں میں عمرمٹھائی والے کی دکان پر رمضان کے خصوصی پکوان ’کھجلہ ‘ کا ذکر نکل آیا جو کافی مشہور ہے۔ ہے تو یہ یوپی کی ڈش لیکن ممبئی میں غالباً صرف قریش نگر میں ملتی ہے۔ خالد بھائی نے بتایا کہ یہ قریش نگر میں کھجلہ سحری میں سب سے زیادہ فروخت ہوتا ہے۔ قریش نگر سے واپسی کے وقت ریلوے بریج سے گزرتے وقت یہ گمان ہواکہ پائپ روڈ اور قریش نگر ایک ہی بستیاں ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا رہن سہن، عادات و اطوار، دکانوں کی قطاریں اور سڑکیں، یہ سب مشترک ہے۔ ریلوے لائن قطع نہ کرے تو ان کے ایک ہونے میں کوئی شبہ نہ تھا۔ 
 واپسی اُس راستے سے ہوئی جہاں پہلے پٹریاں پار کی جاتی تھیں لیکن اب وہاں باقاعدہ چھوٹی سی راہداری بنادی گئی ہے جس سے کرلا اسٹیشن سے براہ راست ایل آئی جی کالونی میں داخل ہوسکتے ہیں۔ یہاں جاوید بھائی کا حلوہ پراٹھا بڑا مشہور ہے۔ مبارک کمپلیکس کے سامنے بڑے سے تھال میں بالکل لال اور نارنگی حلوہ اور گھی میں تیار کئے گئے پراٹھے کی مہک ایک نمبر بلڈنگ تک پہنچ جاتی ہے۔ ایل آئی جی کالونی اور اطراف کے علاقے میں رمضان کا چاند ہوتے ہی ’رمضانی کھیل ‘ بیڈمنٹن نکل آتا تھا اور کیا بچے، کیا بڑے سبھی تراویح بعد اس میں مصروف ہوجاتے تھے لیکن اب وہ کھیل لوگوں کو نہیں بھاتا، اب موبائل میں لوڈوکھیلنے کا رواج ہے۔ پہلے، لوگو ں کو بیڈ منٹن کھیلتا دیکھ کر کوفت ہوتی تھی، اب محسوس ہوتا ہے کہ یہ نوجوان کم از کم یہی کھیل کھیلیں، گھنٹہ دو گھنٹہ موبائل کو تو بالائے طاق رکھیں !
  یہاں سے واپس ہوا تو پائپ روڈ مسجد کی صدا گونج رہی تھی۔ تقریباً ایک بج رہا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ آج یہاں دوسری تراویح میں قرآن مکمل ہونے والا ہے اس لئے معمول سے زیادہ بھیڑ ہو گی اور رات کے ایک بجے بھی دن کا سماں ہوگا۔ میری اندازہ درست نکلا۔ مسجد کے قریب پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اندر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے۔ امام صاحب پوری دلجمعی اور رقت آمیز انداز میں دعاکررہے تھے، جس پر مجمع آمین آمین کہہ رہا ہے۔ مَیں نے بھی موقع کو غنیمت جانا اور دعا میں شامل ہوگیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK