Inquilab Logo

بھیونڈی: رمضان میں یہ شہر نہیں سوتا، اور بچے تو بالکل نہیں!

Updated: March 26, 2024, 1:40 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

جمعہ کادن تھا۔ ہماری چھٹی تھی۔ ایک دو دن میں ڈائری لکھنے کی باری بھی تھی اس لئے کچھ تلاش کرنے نکل پڑے۔ قریب ہی یہ تلاش پوری ہوگئی۔ عصر کا وقت تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

جمعہ کادن تھا۔ ہماری چھٹی تھی۔ ایک دو دن میں ڈائری لکھنے کی باری بھی تھی اس لئے کچھ تلاش کرنے نکل پڑے۔ قریب ہی یہ تلاش پوری ہوگئی۔ عصر کا وقت تھا۔ حسین حافظ جی سے ملاقات ہوگئی۔ وہ گھر کے باہرواجہ محلہ قبرستان کے قریب کچرا پھینکنے آئے تھے۔ قدرے کمزورنظر آئے، پہلے چاق چوبند ہوا کرتے تھے اورچال میں تیزی بھی نمایاں تھی۔ مذکورہ مقام پر ٹرانسفارمر کے نیچے کچرے کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ کبھی میونسپلٹی کی گاڑی کو کچرا اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ایک تو تنگ روڈ دوسرے، روڈ کے بڑے حصےپر کچرا ہی کچرا۔ رمضان میں بھی یہ ڈھیر، ڈھیر ہی ہےاس میں کچھ کمی نہیں آئی۔ حافظ جی کچرا پھینک کرمڑے اورمیں نے سلام کر کے روک لیا۔ دریافت کیا ’’ وہ وڑے پاؤکی گاڑی آپ کب سے لگا رہے ہیں۔ ‘‘کہا ’’۳۰؍ سال سے زائد ہوگئے، اب تو وہ گاڑی بچے لوگ سنبھالتے ہیں۔ وہی سب دیکھتے ہیں۔ ‘‘رمضان میں تراویح بعد وڑا پاؤ کی گاڑی لگانے کا حافظ جی کا معمول ہے۔ وڑا پاؤ کے ساتھ چائے اورکچھ مقامی میٹھے آئٹم بھی ہوتے ہیں جنہیں کافی پسند کیا جاتا ہے۔ یہاں تراویح بعد سے ہی محلے کے لڑکوں کی بیٹھک بھی شروع ہوتی ہے۔ حافظ جی نے بتایا کہ ’’۳۰؍ سال سے اس معمول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ بچوں کی شادی ہوچکی ہے، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں آچکی ہیں لیکن معمول ویسا ہی ہے۔ ‘‘کچرے کے ڈھیر کے سبب گاڑیوں کی آمدورفت اور ہماری گفتگو میں خلل پڑ رہا تھا اس لئے اتنی بات کہہ کر اُنہوں نے گھر کی راہ لی اور مَیں بھی دوسری جانب نکل پڑا۔ 
 اس سے قبل اسی جگہ پر ہماری صمدیہ ہائی اسکول کے پرانے ٹیچر بلال ناصر سر سے ملاقات ہوئی تھی۔ چہرے پر حیا اور متانت کے آثار نظر آتے ہیں۔ جب بھی ملتے ہیں، سلام اور کلام کرنے میں خود ہی پہل کرتے ہیں۔ اس بار بھی پیچھے سے آواز دےکرخود ہی روکا۔ عصر کا ہی وقت تھا۔ رمضان میں دفتر کے شیڈول کے بارے پوچھا۔ میں نے بتایا’’ ہاں سر، جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے، رمضان میں ٹائمنگ وہی ہے، افطار کا نظم دفتر میں ہی ہوتا ہے، واپسی ہوتے ہوتے بارہ ساڑھے بارہ بج جاتے ہیں۔ ‘‘ بلال ناصر سر ہر بات مسکراہٹ کے ساتھ اس طرح پوچھتے ہیں کہ گماں ہوتا ہے کہ ٹیچر ہونے کی حیثیت سے آج بھی انہیں مجھ جیسےطالبعلم کے مستقبل کی فکر ہو۔ سب گھروالوں کو سلام کہنے کی گزارش کرکےرخصت ہوئے۔ 
 چھٹی کے دن تراویح سونا پور مسجد میں پڑھنے کا معمول ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رمضان میں معمولات منظم ہوجاتے ہیں اور سچ کہئے تو اس کا قریبی مشاہدہ تراویح کے دوران ہی ہوتا ہے۔ مجھے بھی ہوا اور دل میں خیال آیا کہ محلے کے بعض نوجوانوں کو اس کیلئے ماننا پڑے گا کہ وہ جو روٹین طے کرلیں، اس پرآخر تک قائم رہتے ہیں۔ مثلا ً اگر تراویح پڑھنے کا معمول ہے تو دنیا ادھر کی ادھر ہوجائےوہ کسی قیمت پر تراویح نہیں چھوڑتے۔ بلکہ بعض تو اس حد تک کاربند ہوتے ہیں کہ اگر پہلی تراویح انہوں نے پہلی صف میں پڑھی ہے تو گیارنٹی ہےکہ ہر تراویح میں وہ پہلی صف میں ہی نظر آئیں گے، لیکن ان میں صرف نوجوان ہی نہیں ہوتے، بعض معمر افراد بھی اس معمول کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ سونا پور مسجدکی پہلی صف میں بائیں جانب کچھ نوجوان پورے رمضان اسی صف میں نظر آتے ہیں تو مسجد کے سابق امام وخطیب حافظ حفیظ اللہ بھی اس معمول سے سرِمو انحراف نہیں کرتے۔ عشا ء کی جماعت سے کچھ پانچ سات منٹ پہلے وہ مسجد میں داخل ہوتے ہیں اور پہلی صف میں جہاں ان کیلئے کرسی رکھی گئی ہے، آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ حافظ صاحب نے برسوں امامت کی اور تراویح پڑھائی۔ پھر نئے امام کے پیچھے جب تک کھڑے ہوکر پڑھنے کی طاقت تھی، برسوں تراویح پڑھی، اب جبکہ کمزوری زیادہ ہوچکی ہے، کرسی پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں، لیکن کسی دن ناغہ تو دور کی بات، مقررہ وقت سے آگے پیچھے بھی نہیں ہوتے۔ 
 افطارکے بعدمسلم علاقےہشاش بشاش ہوجاتےہیں اور تراویح بعدتو دوڑ پڑتے ہیں۔ محلے میں نافع اورفرقان کی دکان پر رات میں نوجوانوں کا گروپ بیٹھتا ہے۔ عزیر، ارشاد، فیروز، وقاص، مجاہد، عمران، مزمل اور فرقان یہ سب رات ۲؍ بجے تک بیٹھتے ہیں اور موبائل پر لوڈوکا لطف لیتے ہیں۔ حال چال پوچھنے پربتایا کہ ہمار ا یہی معمول ہے، ایک ساتھ مل بیٹھنا اوردوستی قائم رکھنا، بس اور کیا چاہئے۔ رمضان میں یہ شہر نہیں سوتا اور بچے تو بالکل بھی نہیں۔ ۱۴؍ روزے ہوچکے ہیں۔ شہر میں اونٹ اور گھوڑے والے بھی آئے ہیں۔ بگھی بھی ہے۔ دس بیس روپےمیں بچےسواری کالطف لیتے ہیں۔ یہی رمضان کا جشن ہےجو عنقریب ختم ہونے والا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK