Inquilab Logo

مالونی میں یہ ساڑھے سات نمبر کیا ہے بھائی؟

Updated: March 28, 2024, 1:58 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

مالونی کے اس علاقے پر بھنڈی بازارکاگمان ہوتا ہے۔ اس لئے بھی کہ اس پورے حصے میں انواع واقسام کی کھانے پینے کی دکانیں سجی رہتی ہیں اور رات میں دیر تک لوگ لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

مالونی ؍چارکوپ : ۱۵؍ ویں روزے کو مالونی اورچارکوپ علاقے میں رمضان کی رونقیں اور ایمانی بھائیوں کی مصروفیات دیکھنے نکلا۔ پہلا پڑاؤ مسجد علی، ۵؍ نمبرناکہ تھا۔ یہیں سویرا ٹاکیز بھی ہے لیکن یہ خوشگوار تبدیلی ہے کہ اب مسجد حضرت علی سے اس ناکے کی شناخت ہوتی ہے۔ اچانک ذہن میں یہ خیال گزرا کہ یہی وہ مسجد ہے جہاں گزشتہ سال رام نومی کے موقع پر شرانگیزی کی گئی تھی اوراس دفعہ سکل ہندو سماج کے مورچے میں بھی یہاں طوفان بدتمیزی مچایا گیا۔ نتیش رانے نے ریلی میں اس مسجد کوبھی نشانہ بنایا تھا۔ گزشتہ سال رام نومی میں ناکردہ گناہی کی سزا بھگتنے والے کئی مسلم نوجوانوں کو رمضان اور عیدالفطر جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنی پڑی تھی۔ لیکن اس دفعہ مسلمانوں کی حکمت اور صبر وتحمل نے شرپسندوں کے منصوبے پرپانی پھیردیا۔ 
مالونی کے اس علاقے پر بھنڈی بازارکاگمان ہوتا ہے۔ اس لئے بھی کہ اس پورے حصے میں انواع واقسام کی کھانے پینے کی دکانیں سجی رہتی ہیں اور رات میں دیر تک لوگ لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ یہیں صباح الدین خان بن مولانا کمال الدین (مرحوم) اور ختم قرآن کریم کی ایک مجلس میں شمیم خان سے بھی ملاقات ہوگئی۔ ان حضرات نے بات چیت کے دوران اس بات پرخوشی کا اظہار کیا کہ نتیش رانے نے جس طرح اشتعال انگیزی کی تھی اس کے خلاف قانونی کارروائی اورلائحۂ عمل طے کرنے کی غرض سے جو میٹنگ بلائی گئی تھی ا س میں بلاتفریق مسلک سبھی ذمہ داران نے شرکت کی تھی۔ یہ خوش آئند ہے کہ ہم اپنے مسلک پرقائم رہیں لیکن جہاں بنام مسلم ہمیں نشانہ بنایا جائے وہاں اتحاد کا مظاہرہ کیا جائے۔ یہی دانشمندی ہے اورحالات کا تقاضہ بھی۔ 
آگے بڑھنے پرگیٹ نمبر۷؍ جامع مسجد اور زمزم ہوٹل کے قریب مولانا نوشاد احمد صدیقی، جامع مسجد کےصدر اجمل خان، شبلی اوران کے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔ آپس میں گفتگو کے دوران ان حضرات نےمالونی، ممبئی اور ملک کے حالات پر تبصرہ شروع کردیا۔ دورانِ گفتگو ووٹر لسٹ سے نام غائب ہونے پر گفتگو چھڑ گئی۔ ان کی رائے یہ تھی کہ مسلمان اس معاملے میں بہت پیچھے ہے۔ وہ متوجہ کرنے کےباوجود نام شامل کروانے یالسٹ چیک کرنے کی اہمیت کونہیں سمجھتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک اہم جمہوری عمل سے محروم رہ جاتا ہے۔ حالانکہ ہم میں سے ہرایک کوکشمیرکے رکن پارلیمنٹ سیف الدین سوز کا واقعہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے ایک ووٹ کی وہ اہمیت تھی کہ حکومت گرگئی تھی۔ دیگر قومیں اورفرقہ پرست تنظیمیں اس تعلق سے منظم انداز میں کام کررہی ہیں۔ یہی نہیں، علاقے میں انفراسٹرکچر کے کئی کام ہیں جن کیلئے سب کو شانہ بہ شانہ سرگرم رہنا چاہئے مگر مسلمان عموماً ان کاموں سے غافل رہتے ہیں۔ 
اس دوران ایک صاحب ملے، کہنے لگے کہ اب ہم لوگ ساڑھے ۷؍ نمبرپرآگئے ہیں۔ یہ ساڑھے سات کیا ہے بھائی؟ انہوں نے کہا کہ آپ کو نہیں معلوم؟ دراصل گیٹ نمبر ۸؍ بس ڈپو سے پہلے سبزی مارکیٹ کا حصہ ساڑھے سات کہلاتا ہے، آٹو رکشا والے اس کازیادہ استعمال کرتے ہیں اور اسی کے حوالے سےملاڈ میں وہ مسافروں کومتوجہ کرتے ہیں۔ 
طے شدہ پروگرام کے مطابق ہم مہاڈا ہوتے ہوئے انبوزواڑی پہنچے۔ ہزاروں کی آبادی والی اس بستی کی ایک الگ شناخت ہے۔ یہ اجڑتے بستے، بستے اجڑتے یہاں تک پہنچی ہے۔ یہاں داخل ہوتے ہی ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم کسی ایسی بستی میں داخل ہوگئے ہیں جہاں ترقیاتی اسکیموں کا گزربرائے نا م ہی ہوا ہے۔ کئی گھرایسے ہیں جہاں جھوپڑوں کےاندر لوگوں نے گہرے گڑھے کھود رکھے ہیں، اس میں جمع ہونے والے پانی سے وہ اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہےکہ یہ آبادی ووٹ بینک کے طور پرپابندی سے استعمال ہوتی ہے۔ الیکشن قریب آتے ہی یہاں کے مکینوں کی خیر خیریت دریافت کرنے میں اضافہ ہوجاتاہے، اس کے بعد پھربے گھرکئے جانے کی تلوار لٹکنے لگتی ہے۔ میدھا پاٹکر نے یہاں کے مکینوں کو آباد کرنے کیلئے کافی محنت کی ہے۔ اس کا اعتراف ہر کوئی کریگا۔ 
ہماری اگلی منزل چار کوپ قبرستان ناکہ اور اس سے متصل حصہ تھی۔ قبرستان کی مخالف سمت نگاہ پڑی تورَکشا اسپتال کا بورڈ دیکھ کر بے ساختہ ہنسی آگئی کہ قبرستان کے سامنے رکشا ؟ یہ حصہ روشنی سے جگمگاتا رہتا ہے۔ اس لئے کہ یہ ناکہ ہے جس کے بالکل قریب میں میٹرو یارڈ ہے۔ یہیں فرنیچر مارکیٹ بھی ہوا کرتی تھی جہاں بڑی تعداد میں مسلم تاجر روزی روٹی کماتے تھے لیکن اسے تہس نہس کرکے اب ویدک تھیم پارک بنانے کا عمل شروع کیا گیا ہے اور تاجر انصاف کے لئے ۶؍ماہ سے چکر لگارہے ہیں۔ اب تک مایوسی ہی ان کے ہاتھ لگی ہے۔ یہاں شہاب الدین خان، محمود خان، ایوب خان اورحافظ معید نظر آگئے۔ ان حضرات سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے خوش آمدید کہا اور مختلف موضوعات پر گفتگو کی جو دیر تک جاری رہی۔ اس سوال پر سب گم صم تھے کہ کیا ہم واقعی رمضان کا حق ادا کررہے ہیں ؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK