Inquilab Logo

رحمٰن کے بندوں کی صفات،چیونٹیوں کا مکالمہ اور ملکہ ٔ سبا، سلیمان ؑ کے دربار میں

Updated: March 28, 2024, 1:49 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سورۂ الشعراء میں زیادہ تر انبیائے کرام کے واقعات ہیں، اور ان کی دعوت کا ذکر ہے۔ ان کی قوموں نے اپنے انبیائے کرام کے ساتھ کیا سلوک کیا اور ان کی دعوت کو کس طرح ٹھکرایا اس کا بیان ہے۔

Special servants of Rahman perform prostration. Photo: INN
رحمٰن کے خاص بندے سجدہ ریزی کرتے ہیں۔ تصویر: آئی این این

اُنیسواں پارہ شروع ہوا ہے اور سورۂ الفرقان چل رہی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ اس میں مشرکین مکہ کے اعتراضات و شبہات اور ان کے جوابات بیان کئے گئے ہیں۔ اسی ضمن میں ارشاد فرمایا: جو لوگ (قیامت کے دن) ہماری ملاقات کی اُمید نہیں رکھتے وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر (بجائے انسان کو رسول بنانے کے) فرشتے کیوں نہیں نازل کئے گئے، یہ لوگ اپنے اندر بڑا گھمنڈ لئے بیٹھے ہیں اور اپنی سرکشی میں حد سے گزر گئے ہیں۔ اس کے بعد قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ کس طرح یہ لوگ اس دن چیخ اٹھیں گے۔ نیک لوگوں کا ذکر ہے کہ اس روز ان کیلئے جنت بہترین ٹھکانہ ہوگا۔ آگے کچھ دلائل قدرت بیان کئے گئے ہیں کہ آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کا رب کس طرح سایہ پھیلادیتا ہے، اللہ اگرچاہتا تو اس کو ایک حالت پر ٹھہرا دیتا، پھر ہم نے سورج کو اس سائے کی تبدیلی پر ایک علامت مقرر کیا، پھر ہم نے اس سائے کو آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیا، اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمہارے لئے لباس اور نیند کو راحت وآرام کا ذریعہ، اور دن کو جی اٹھنے کا وقت بنایا، اور وہی ہے جو اپنی رحمت کی بارشوں سے پہلے ہواؤں کو خوشگوار بناتا ہے، پھر آسمان سے پانی اتارتا ہے، جو پاک وصاف کرنے کی چیز ہے تاکہ ہم مردہ علاقے کو اس آب ِباراں سے زندگی بخشیں اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو سیراب فرمائیں، اور ہم اس پانی کو لوگوں میں تقسیم کردیتے ہیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ وہی اللہ ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے، ایک لذیذ و شیریں اور دوسرا شور وتلخ، ان کے درمیان ایک پردہ اور ایک رکاوٹ ہے جو ان دونوں کو ایک دوسرے سے ملنے سے روکتی ہے۔ اللہ وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو بنایا، پھر اس نے نسب اور سسرال کے دو رشتے الگ الگ چلائے۔ آپ کا رب بڑی قدرت والا ہے، (مگر) یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کر رہے ہیں جو انہیں نہ نفع دیتی ہیں اور نہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ قدرت کی صناعی پر ایک اور دلیل کے طور پر ارشاد فرمایا کہ وہ بڑی اعلیٰ و برتر ذات ہے جس نے آسمان میں بروج (بڑے بڑے ستارے اور سیارے) بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک روشن چاند بنایا، وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے چلنے والا بنایا۔ 
آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک اور مخصوص بندوں کے اوصاف بیان کئے ہیں۔ یہ کل تیرہ اوصاف ہیں، فرمایا: رحمٰن کے خاص بندے وہ ہیں جو زمین میں نرم روی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں، اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لئے سجدہ ریزی اور قیامِ میں راتیں بسر کرتے ہیں، اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو (ہمہ وقت حضورِ باری تعالیٰ میں ) عرض گزار رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے دوزخ کا عذاب ہٹا لے، بیشک اس کا عذاب بڑا مہلک (اور دائمی) ہے، اور یہ لوگ وہ ہیں جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ کنجوسی اختیار کرتے ہیں، بلکہ معتدل راستہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبود کو نہیں پکارتے، اور نہ کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں، اور جو شخص ایسا کام کرے گا اسے سزا بھگتنی ہوگی، اور جو بے ہودہ (باتوں یا کاموں ) میں شامل نہیں ہوتے اور اگر وہ غلط کاموں کے پاس سے گزرتے بھی ہیں تو شریف انسانوں کی طرح (گردن جھکا کر) گزر جاتے ہیں۔ جب ان کو ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر اندھے بہرے ہوکر نہیں گرتے، یہ لوگ اپنی دعا میں کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں سے اور اپنے بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیز گاروں کا امام بنا، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے صبر کا پھل (جنت کے) بلند وبالا محل کی شکل میں پائیں گے، اور اس میں ان کا استقبال سلامتی کی دعاؤں سے ہوگا، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑا ہی اچھا مقام اور ٹھکانہ ہے، آپ (مشرکین سے) فرمادیجئے کہ میرے رب پر کیا فرق پڑتا ہے اگر تم اس کی عبادت نہ کرو، اگر تم نے تکذیب کی تو عنقریب ایسی سزا پاؤ گے جس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوجائے گا۔ 
یہاں سے سورۂ الشعراء شروع ہوتی ہے، اس سورہ میں زیادہ تر انبیائے کرام کے واقعات ہیں، اور ان کی دعوت کا ذکر ہے۔ ان کی قوموں نے اپنے انبیائے کرام کے ساتھ کیا سلوک کیا اور ان کی دعوت کو کس طرح ٹھکرایا اس کا بیان ہے۔ سورہ کے آغاز میں فرمایا کہ یہ کتابِ مبین کی آیات ہیں، پھر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ شاید اس غم میں خود کو ہلاک کر ڈالیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے، ہم اگر چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کردیں کہ جس کے سامنے ان کی گردنیں جھک جائیں۔ اس کے بعد بطور تسلی دوسرے انبیائے کرام کے واقعات بیان کئے اور بتلایا کہ تکذیب کا یہ سلسلہ آپ ہی کی ذات تک محدود نہیں ہے، اس سے پہلے بھی ہم نے مختلف قوموں میں انبیاء و رُسُل بھیجے اور ان کی تکذیب کی گئی، اس سلسلے میں حضرت موسیٰ ؑ کا قصہ مفصل بیان کیا گیا ہے جس کے زیادہ تر حصے مختلف جگہوں پر آبھی چکے ہیں۔ 
بات قرآن کریم کے ذکر سے شروع ہوئی تھی، آخر میں پھر قرآن کا ذکر ہے کہ یہ قرآن رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے، اسے امانت دار فرشتہ آپ کے قلب پر عربی زبان میں لے کر نازل ہوا ہے تاکہ آپ بھی ڈرانے والوں میں ہوں اور اس (قرآن) کا ذکر گزشتہ صحیفوں میں بھی ہے، کیا اہل مکہ کیلئے یہ بات حجت نہیں ہے کہ اس سے (قرآن سے) بنی اسرائیل کے علماء واقف ہیں۔ اگر ہم اسے کسی عجمی پر نازل کرتے اور وہ اسے پڑھ کر سناتے تب بھی یہ لوگ اس پر ایمان نہ لاتے۔ آگے فرمایا اس (قرآن) کو شیاطین لے کر نہیں اترے نہ وہ اس کام کے لئے موزوں ہیں اور نہ ایسا کرناان کے بس میں ہے، وہ تو اس کے سننے تک سے محروم ہیں۔ آپ اپنے قریب ترین رشتے داروں کو ڈرائیے، اور اہل ایمان میں سے جو لوگ آپ کی اتباع کررہے ہیں ان کے ساتھ تواضع اور انکساری سے پیش آئیے، اور اگر وہ آپ کی نافرمانی کریں تو ان سے کہہ دیجئے کہ میں تمہاری حرکتوں سے بری الذمہ ہوں اور اللہ پر توکل رکھئے جو زبردست ہے اور رحم والا ہے جو آپ کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہے۔ پھر فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتلاؤں کہ شیاطین کن لوگوں پر اترتے ہیں، ہر مکار اور گنہ گار پر اترتے ہیں، سنی سنائی باتیں کانوں میں ڈالتے ہیں، اکثر ان میں سے جھوٹے ہوتے ہیں۔ 
اب سورۂ نمل شروع ہوتی ہے جو دو طرح کے مضامین پر مشتمل ہے۔ شروع کے چار رکوع میں بتلایا گیا ہے کہ قرآن کی رہنمائی سے صرف وہ لوگ مستفید ہوسکتے ہیں اور اس میں بیان کردہ بشارتوں کے صرف وہی لوگ مستحق ہو سکتے ہیں جو ان حقائق کو دل وجان سے تسلیم کرلیں جو اس کتاب میں بیان ہوئے ہیں، پھر ان حقائق کو تسلیم ہی نہ کریں، ان پر عمل کرکے بھی دکھلائیں، دوسرے مضمون میں حقائق ِ کائنات اور دلائلِ قدرت کے بعد کفار مکہ سے پوچھا گیا ہے کہ کیا یہ حقائق توحید کا اثبات ہیں یا کفر وجحود کا جس میں تم مبتلا ہو۔ (جحود = جان بوجھ کر انکار کرنا)۔ 
اس سورہ میں بھی فرعون، ثمود اور قوم لوط کی سرکشیوں کا ذکر ہے۔ اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ ٔ سبا کا قصہ بیان کیا گیا ہے اور یہ بتلایا گیا ہے کہ ملکۂ سبا اپنی قوم کی سردار تھی، مگر جب اس پر حق واضح ہوا تو کوئی چیز اسے قبول حق سے نہ روک سکی۔ قصے کا آغاز اس طرح ہوا کہ ہم نے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو علم عطا فرمایا اور انہوں نے کہا تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے ہمیں اپنے بہت سے مؤمن بندوں پر فضیلت عطا کی، اور ہم نے سلیمان کو داؤد کا وارث بنایا، انہوں نے کہا کہ اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں اور ہر طرح کی چیزیں عطا کی گئی ہیں، واقعی یہ کھلا فضل ہے۔ سلیمانؑ کیلئے جن اور انسانوں کے لشکر جمع کئے گئے، وہ نظم وضبط کے پابند تھے، جب وہ چیونٹیوں کی ایک وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیو! اپنے بلوں میں چلی جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کے لشکر کے لوگ تمہیں پیس ڈالیں، اور انہیں خبر بھی نہ ہو، سلیمان یہ سن کر مسکرائے اور فرمایا کہ اے میرے رب مجھے ہمیشہ شکر ِ احسان کی توفیق دے جو آپ نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمایا ہے، میں اور آپ کے پسندیدہ اعمال صالحہ کرتا رہوں تاکہ آپ مجھے اپنے نیک بندوں میں شامل فرمالیں۔ (ایک دن) سلیمانؑ نے پرندوں کا جائزہ لیا تو فرمایا کہ کیا بات ہے میں ہد ہد کو نہیں دیکھ رہا ہوں، کیا وہ کہیں چلا گیا ہے، میں اسے سخت سزا دوں گا ورنہ اسے (غائب ہونے کی) معقول وجہ بتلانی ہوگی۔ کچھ دیر بعد ہد ہد نے آکر کہا میں ایسی خبر لے کر آیا ہوں جو آپ کے علم میں نہیں تھی، میں آپ کے پاس قبیلۂ سبا کی ایک عورت کی یقینی خبر لے کر آیا ہوں ، میں نے ایک عورت دیکھی ہے جو اس قوم کی حاکم ہے اور اسے ہر چیز عطا کی گئی ہے اور اس کا ایک زبردست تخت ہے، (مگر) میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔ سلیمانؑ نے فرمایا کہ ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے، میرا یہ خط لے کر جا اور اسے ان کی طرف ڈال کر دیکھ کہ اُن کا کیا رد عمل ہے، ملکہ نے (خط پڑھ کر) کہا کہ میرے پاس ایک بڑاا ہم خط ڈالا گیا ہے اوروہ سلیمان کی جانب سے ہے اور اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے شروع ہوا ہے (اس میں لکھا ہے کہ) میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور مطیع بن کر میرے پاس حاضر ہوجاؤ، اس کے بعد ملکہ ٔسبا نے حاضری کا ارادہ کیا۔ حضرت سلیمان نے ملکہ کا تخت اپنے شاہی دربار میں (جنات کے ذریعے) منگوا لیا تاکہ ملکہ اسے دیکھ کر حیران رہ جائے، بہر حال وہ آئی اور اس نے دربار سلیمانی کا کر وفر دیکھ کر کہا کہ اے میرے رب میں اپنے نفس پر بڑا ظلم کرتی رہی اور اب میں نے سلیمان کے ساتھ اللہ کی اطاعت قبول کرلی ہے۔ 
(کل کا کالم ۱۹؍ویں تراویح کی مناسبت سے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK