غیر یقینی حالات کے پیش نظر ہزاروں مہاجر مزدور اپنے بچے کھچے اثاثہ کے ساتھ اپنے وطن کے لئےپیدل سفر پر روانہ ہوئے تو مودی کو ان کی تکالیف دور کرنے کے بجائے کورونا وائرس کی جنگ میں شامل ہیلتھ ورکروں کی حوصلہ افزائی کی سوجھی۔ انہوںنے تالی بجاؤ ، تھالی بجاؤ کا فرمان جاری کیا۔
مہاجر مزدور ۔ تصویر : پی ٹی آئی
جس طرح کیک کا مزہ اس کی خوبصورتی میں نہیں ، کھانے میں ہے۔ اسی طرح سرکاری پالیسیاں اور اسکیمیں اس وقت بارآور اور کارآمد ثابت ہوتی ہیں جب عمل کی کسوٹی پر کھری اتریں۔ مودی حکومت کی تمام اسکیمیں اپنے خوبصورت ناموں اور بلند بانگ دعووں کے ساتھ بڑی پُرکشش معلوم ہوتی ہیں لیکن عملاً ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ وزیراعظم بننے کے لئے اور وزیراعظم بننے کے بعد سے اب تک وہ یہی کرتے چلے آئے ہیں۔ڈیولپمنٹ ،سب کا ساتھ سب کا وکاس یا پھر میک ان انڈیا ، اسٹینڈاپ انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا نامی سیریز سے انہوںنے وہ جادو جگایا کہ لوگ انہیں مسیحا سمجھ بیٹھے لیکن وہ نیم حکیم نکلے۔ قسمت نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ۲۰۱۹ء کے الیکشن میں عام خیال یہ تھا کہ مودی کی وعدہ خلافی اور عدم کارکردگی بی جے پی کے آڑے آئے گی۔ ابتدائی جائزوں نے بھی یہی تاثر دیا کہ مودی کو پچھاڑنا مشکل ہوگا لیکن بی جے پی اپنے بل پر اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے گی۔ بالا کوٹ کی سرجیکل اسٹرائیک نے ان سب پر پانی پھیر دیا۔ لوگوں نے اسے یاد رکھا لیکن پلوامہ پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کو بھول گئے جس نے ۴۰؍ سی آ ر پی ایف نوجوانوں کی جانیں لی۔ کسی نے یہ جاننے پر زور نہیں دیا کہ سخت سیکوریٹی کے باوجود حملہ کیونکر اورکیسے ممکن ہوا؟
ایسا ہی کچھ لاک ڈاؤن کے موقع پر ہوا جب غیر یقینی حالات کے پیش نظر ہزاروں مہاجر مزدور اپنے بچے کھچے اثاثہ کے ساتھ اپنے وطن کے لئےپیدل سفر پر روانہ ہوئے تو مودی کو ان کی تکالیف دور کرنے کے بجائے کورونا وائرس کی جنگ میں شامل ہیلتھ ورکروں کی حوصلہ افزائی کی سوجھی۔ انہوںنے تالی بجاؤ ، تھالی بجاؤ کا فرمان جاری کیا۔ حسب توقع ان کے بھکت سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال کئے بغیر جلوس کی شکل میں تالی ، تھالی پیٹتے ’کورونا جاجا ‘ گاتے نظر آئے ہمارے پردھان سیوک اس کامیابی سے اتنا خوش ہوئے کہ انہوںنے ۵؍ اپریل کو پانچ منٹ کے لئے بتی بجھا ؤ اور دیا جلاؤ تجویز کردیا جس کا مقصد کورونا وائرس کو یہ جتنا تھا کہ ہم ۱۳۰؍ کروڑ ہندوستانی تجھے شکست دینے کے لئے متحد ہیں۔ وائرس نے اپنا انتقام مریضوں اور اموات کی بڑھتی تعداد کی شکل میں لیا جو مزید رعایتوں کے ساتھ لاک ڈاؤن کے چوتھے مرحلے کا سبب بنا۔
ایک نظر نہ آنے والے جرثومے نے آج دنیا کے تمام طاقتور ممالک اور حکمرانوں کو ان کی اوقات بتادی۔ متاثرین اور مہلوکین کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے اس نے حکمرانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ جب تک کورونا کو مات دینے والا ویکسن ایجاد نہیں ہوجاتا لوگوں کو اس کے ساتھ جینے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ اس کے پس پشت امریکہ اور یورپی ممالک میں لاک ڈاؤن کے خلاف ہونے والے مظاہروں کا بھی دخل ہے جہاں لوگ خطرات کے باوجود معمول کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کورونا کے خلاف جنگ میں پسپائی کا اعتراف سب سے پہلے ہندوستان نے کیا۔ ۸؍ مئی کو وزارت صحت نے کورونا کے بارے میں دی جانے والی پریس بریفنگ کے دوران اعلان کیا کہ ہمیں وائرس کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا اور وہ تمام تدابیر اختیارکرنا ہوگی جو اس سے بچنے کے لئے ضروری ہیں۔یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ امریکہ اور عالمی صحت ادارہ کی طرف سے آیا۔۱۲؍ مئی کو ڈاکٹر انتھونی فوسی نے جن کا شمار امریکہ کے وبائی امراض کے ماہرین میں ہوتا ہے۔ٹرمپ حکومت کو متنبہ کیا کہ لاک ڈاؤن اور پابندیاں ہٹانے سے مریضوں اور اموات کی تعداد میں تشویشناک حدتک اضافہ ہوگا۔ ڈاکٹر فوسی کو رونا کے خلاف جنگ میں امریکی ٹاسک فورس کے ممبر ہیں۔ انہوںنے یہ وارننگ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ایک سینیٹ پینل کے سامنے ٹرمپ کے اس بیان کے جواب میں دی جس میں ٹرمپ کو ان ریاستوں کی تعریف کرتے سناگیا۔ جنہوںنے لاک ڈاؤن کے بعد پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ یاد رہے کہ امریکہ کورونا سے متاثرممالک میں سرفہرست ہے۔ جہاں مریضوں کی تعداد لاکھوں میں اور مہلوکین کی ایک لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح کے وارننگ عالمی صحت ادارہ کے کارگزار ڈائریکٹر مائیکل ریان نے دی۔ انہوںنے خدشہ ظاہر کیا کہ ایچ آئی وی کی طرح کورونا وائرس ہمیشہ رہنے والا وائرس ہوسکتا ہے اس لئے اس سے بچاؤ کے لئے لگائی گئی پابندیوں کو جلد بازی میں ہٹانا مناسب نہیں ہوگا اس سے وائرس کا خطرہ بڑھ جائے گا اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلے گی۔ اس وقت تمام ممالک کی کیفیت ’پائے رفتن نہ جائے ماندن‘ سی ہوگئی ہے ۔ اگر پابندیوں میں چھوٹ دینے کے تباہ کن اثرات ہوسکتے ہیں تو نہ دینے پر قومی سرگرمیوں کے ٹھپ پڑنے سے ہونے والے نقصانات کا مشاہدہ ہم آئے دن کررہے ہیں۔ کورونا سے جنگ اسی صورت میں جیتی جاسکتی ہے جب اسے حکومت اور عوام دونوں کا تعاون حاصل ہو۔ لاک ڈاؤن کے تعلق سے عوام بڑی حد تک تعاون کررہے ہیں لیکن یہ حکومت کی ناعاقبت اندیش پالیسیاں ہیں جن کا خمیازہ ملک کا ہر طبقہ بھگت رہا ہے اور جس نے غریبوں اور مزدور طبقے کی زندگی اجیرن کردی ہے تقسیم کے وطن المیے کے بعد مہاجر مزدوروں کی گھر واپسی دوسرا سب سے بڑا سانحہ ہے جس نے اب تک سو سے زائد افراد کی جانیں لی ہے۔
۱۲؍ مئی کو مودی نے’ آتم نربھربھارت ابھیان‘ یعنی خودکفیل بھارت کے نام سے جس ۲۰؍لاکھ کروڑ روپے کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا وہ ان کی پرانی اسکیموں کا ملغوبا ہے جس کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد پتہ چلا کہ حکومت نے مدد کے نام ’لون میلہ ‘ کا اہتمام کیا ہے۔ اس پیکیج کا اسّی فیصد قرض پر مشتمل ہے۔ مودی نے پیکیج کو جی ڈی پی کے ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ دس فیصد ماہرین اقتصادیات اسے ایک سے ڈیڑھ فیصد بتاتے ہیں۔ مودی نے وزیر خزانہ کی طرف سے پیش کی جانے والی تفصیلات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جن اقدامات واصلاحات کا اعلان کیا گیا ہے ان سے تجارت وملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے اور معیشت پٹری پر آجائے گی۔ اس طرح کے دعویٰ ہم اورآپ گزشتہ چھ سال سے سنتے چلے آئے ہیں۔ معیشت ، جو آئی سی یو میں تھی وینٹی لیٹر پرچلی گئی ہے۔ راحتی پیکیج اعدادوشمار کا پلندہ ہے راحت کا نہیں