Inquilab Logo

رقومات ِ زکوٰۃ سے بھی دینی مدارس کی اعانت کی جا سکتی ہے؟

Updated: March 17, 2023, 10:37 AM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

زکوٰۃ کے مصارف سے نابلد افراد اکثر سوال کرتے ہیں کہ زکوٰۃ کو مدارس میں نہ دے کر کسی اور کام میں خرچ کیا جائے؟ زیرنظر مضمون میں اس موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔

Consider the system of religious madrasas and its role by keeping the spirit of spending Zakat in front, see their lack of service while the status of religious madrasas is not that of ordinary educational institutions.
مصرف زکوٰۃ کی روح کو سامنے رکھ کر دینی مدارس کے نظام اور اس کے کردار پر غور کیجئے، ان کی بے سروسامانی کو دیکھئے جبکہ دینی مدارس کی حیثیت عام درس گاہوں کی نہیں ہے

کچھ عرصہ سے بعض حلقوں کی طرف سے اس بات پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ زکوٰۃ کی رقم مدارس کو کیوں دی جائے؟ اس سے خدمت خلق کا کام ہونا چاہئے، غریبوں کی مدد ہونی چاہئے، عصری تعلیم کا انتظام ہونا چاہئے، یوپی ایس سی  کے لئے بچوں کو تیار کرنا چاہئے، غرض کہ قوم کے جتنے کام ہیں، وہ اسی زکوٰۃ کی رقم سے پورے کئے جائیں لیکن مدارس پر اس کو خرچ کرنا زکوٰۃ کو غلط مصرف میں خرچ کرنا اور پیسے ضائع کرنا ہے… حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی بات دو قسم کے لوگ کہتے ہیں، ایک وہ لوگ جن کو حالات کا شعور نہیں، جو سطحی سوچ رکھتے ہیں، شریعت کے احکام سے بھی نابلد ہیںاور ملت کی موجود صورت حال سے بھی ناواقف ہیں، یا وہ لوگ ہیں جو فرض شدہ زکوٰۃ کے علاوہ قومی اور ملی کاموں کیلئے ایک کوڑی خرچ کرنا نہیں چاہتے، شادی بیاہ میں تو پیسوں کا دریا بہا دیتے ہیں، گھروں کی تزئین و آرائش میں توڈھیر ساری دولت لگا دیتے ہیں؛ لیکن اللہ کے دین کے لئے ڈھائی فیصد سے زیادہ ان کے دل میں جگہ نہیں ہے؛ بلکہ اکثر لوگ اپنی زکوٰۃ سے نہیں دوسروں کی زکوٰۃ سے اُن کاموں کو کرنا چاہتے ہیں، جو زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہیں۔  
اس مسئلہ پر غور کرنے کے لئے دو باتیں پیش نظر رکھنی ضروری ہیں : اول یہ کہ زکوٰۃ کا مقصد کیا ہے؟ اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں کیا رعایت ملحوظ ہے؟ دوسرے کیا یہ مقصد دینی مدارس کو زکوٰۃ ادا کرنے سے حاصل ہوجاتا ہے؟ قرآن مجید نے زکوٰۃ کے آٹھ مصارف ذکر کئے ہیں، فقیر، مسکین یعنی غریب اور بہت زیادہ غریب، عاملین یعنی زکوٰۃ کی جمع و تقسیم کا کام انجام دینے والے لوگ، مؤلفۃ القلوب یعنی وہ نومسلم جن کو اسلام پر استقامت کے لئے یا وہ غیر مسلم جن کو اسلام کی ترغیب کے لئے کچھ دیا جائے، غلام، مقروض، اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور مسافر۔ (توبہ: ۶۰)۔ ان آٹھ مصارف میں پانچ وہ ہیں جن کا مقصد غرباء اور حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنا ہے، فقیر و مسکین سے عام محتاج مراد ہیں ، غلام ، مقروض اور مسافر سے مخصوص نوعیت کے اور وقتی طورپر پریشان حال لوگوں کی حاجت براری مقصود ہے، مؤلفۃ القلوب اور مجاہدین فی سبیل اﷲ کی رعایت کا منشاء اسلام کی سربلندی اور اعلاء کلمۃ اﷲ ہے،  ’’عاملین ‘‘کی مد، زکوٰۃ سے متعلق انتظامی اُمور کی انجام دہی اور اس کے اخراجات کی تکمیل کے لئے ہے ، پس ان مصارف زکوٰۃ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کے بنیادی طورپر دو مقاصد ہیں: غربا کی حاجت پوری کرنا، اسلام کی بلندی اور اس کی دعوت و اشاعت اورحفاظت و صیانت کے نظام کو تقویت پہنچانا ۔ 
مصرف زکوٰۃ کی روح کو سامنے رکھ کر دینی مدارس کے نظام اور اس کے کردار پر غور کیجئے… دینی مدارس کی حیثیت عام درس گاہوں کی نہیں ہے، عام درس گاہوں کا مقصد بچوں کو ایسی تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جو آئندہ ان کو ملازمت دلائے اور زیادہ سے زیادہ کمانے کے لائق بنائے، جس تعلیم سے جس قدر مستقبل کی معاشی فلاح و بہبود متعلق ہے، وہ اسی قدر لوگوں کے لئے مرکز توجہ بھی ہے اور گراں بھی؛ بلکہ سرکاری تعلیم گاہوں کی زبوں حالی اور بے سروسامانی نے اب تعلیم کو ایک نہایت ہی نفع بخش اور نفع رساں تجارت بنا دیا ہے؛ لیکن دینی مدارس کی حیثیت اس سے مختلف ہے ، خاص کر ہندوستان میں اس کا ایک خاص پس منظر ہے ۔ 
مسلم دورِ حکومت تک وہ علوم جن کو آج ’’جدید علوم ‘‘ کہا جاتا ہے ، اس قدر شاخ درشاخ نہ ہوتے تھے، جیساکہ آج ہم دیکھ رہے ہیں ، بعض فنون مدون ہوچکے تھے؛ لیکن ان پر ایک آدھ کتابوں کی تدریس کے ساتھ تجربہ کافی سمجھا جاتا تھا، بعض فنون مدون بھی نہ ہوئے تھے اور ان کے تجربات سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے آئے تھے، جیسے: مختلف شعبوں کی انجینئرنگ اور زراعت وغیرہ، اس کیلئے حکومت کی طرف سے عمومی نوعیت کی درس گاہیں ہوتی تھیں، ان میں زبان، مذہب، اخلاق اور طب وغیرہ کی تعلیم مشترک طورپر ہوتی تھی اور مختلف قوموں کے لوگ مل جل کر تعلیم حاصل کیا کرتے تھے ۔ 
جب ہندوستان سے مسلمانوں کے اقتدار کا سورج غروب ہونے لگا اور انگریز نہایت چالبازی کے ساتھ اپنے قدم بڑھانے لگے، تو انہوں نے سونے کی اس چڑیا کے بال و پر نوچنے کو کافی نہ سمجھا ؛ بلکہ ہندوستان کو مستقل طورپر اپنے زیر اثر رکھنے کی غرض سے رعایا کی فکر و نظر میں تبدیلی کو بھی ضروری سمجھا اور اس کے لئے چہاررخی تدبیریں کی گئیں۔ چونکہ ان کو زیادہ خطرہ مسلمانوں سے تھا، اس لئے انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو اور خاص کر مسلمانوں کو اپنی فکری یورشوں کا نشانہ بنایا اور اسلام پر بے سروپا اعتراضات اور خلاف واقعہ شکوک و شبہات شروع کئے   تاکہ ہندوستانیوں کی نئی نسل اپنے مذہب کے بارے میں غیر مطمئن اور بدگمان ہوجائے۔ دوسرے نہایت ہی قوت کے ساتھ ملک کے چپہ چپہ میں عیسائی مشنریز کو بھیجا اورعیسائیت کی تبلیغ شروع کردی، بعض اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقصد کے لئے ایک ایک شہر میں پانچ پانچ سو پادریوں کے قافلے اُترتے تھے اور عیسائیت کی تقویت کے لئے بڑے بڑے مناظر برطانیہ سے بلائے جاتے تھے ۔ 
تیسرے،  انگریزوں نے بلا تاخیر ہندوستان میں ایک نیا نظام تعلیم جاری کیا، جس کا مقصد محض علوم و فنون کی تعلیم نہ تھی  بلکہ ہندوستانیوں کو مغرب سے قریب کرنا، ان کو ایسے مذہبی افکار اوراپنی ثقافت کے بارے میں احساس کمتری میں  مبتلا کرنا اور انگریز حکومت کیلئے ہندوستانی نوکروں کا ایک انبوہ تیار کرنا تھا۔  بقول لارڈ میکالے ان درس گاہوں کا مقصد تھا کہ ہندوستان کے لوگ رنگ و نسل کے ہندوستانی رہ جائیں اور دل و دماغ میں انگریز بن جائیں۔
 چوتھے ہر طرح کی سرکاری ملازمت کو اسی نئی تعلیم سے متعلق کردیا گیا جس نے بہت جلد ہندوستانیوں کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ اپنی گردنِ اطاعت اس نئے نظام کے سامنے خم کردیں ۔ 
انگریزوں کو ہندوستان کی دیگر قوموں کے مقابلے میں اصل پُرخاش مسلمانوں سے تھی اور وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کے ایمان کا سودا کریں۔ اس پس منظر میں بالغ نظر اور دردمند علماء نے محسوس کیا کہ سیاسی اقتدار تو اب رُخصت ہونے کو ہے، کسی طرح مسلمانوں کے  ایمان کی حفاظت کی تدبیر کرنی چاہئے؛ چنانچہ انہوں نے طے کیاکہ ہندوستان کے گوشے گوشے میں دینی درس گاہوں کا جال بچھا دیا جائے اور ایک ایسی نسل کو وجود بخشا جائے جومادی منافع کے پیچھے دوڑنے کے بجائے اپنی دنیا کو قربان کرکے مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت پر کمربستہ رہے، فاقہ مستی اسے گوارہ ہو، معمولی کھانے اور معمولی پہننے پر وہ قناعت کرسکے اورخس پوش جھوپڑیوں میں چٹائیوں پر بیٹھ کر اپنے آپ کو خدا کے دین کی حفاظت اورسربلندی کے لئے وقف رکھے ۔ 
چنانچہ اس منصوبہ کے تحت پورے ملک میں مدارس و مکاتب کا قیام عمل میں آیا اورایک ایسے تعلیمی نظام کی تشکیل کی گئی جو اپنے اخراجات میں حکومت کا محتاج نہ ہو؛ بلکہ اگر حکومت مدد کرنا بھی چاہے تو اسے قبول نہ کیا جائے اور ہر طرح  کی سرکاری مداخلت سے آزاد رہ کر یہاں سے دین کی حفاظت و اشاعت کے جذبہ سے سرشار اور ایثار و قربانی سے سرمست بادہ خواروں کی ایک بہت بڑی تعداد پیدا کی جائے؛ چنانچہ وہ اس میں کامیاب رہے اور انہوں نے ایک ایسے طبقہ کو وجود بخشا جس نے ایک طرف حکومت کی ابتلاؤں کو برداشت کیا، مادی سہولتوں سے محرومی اور طنز و تعریض کے تیر بھی اپنے سینوں پر سہے؛ لیکن نہ کوئی خوف ان کو اپنے مشن سے دُور کرسکا اور نہ کوئی تحریص ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکی ۔ 
غور کیجئے کہ گزشتہ ڈیڑھ دو سو سال میں اسلام کے خلاف اس ملک میں جتنی یورشیں ہوئی ہیں، ان کا مقابلہ کس نے کیا ہے؟ جب ملک کی گلی کوچوں میں عیسائی مبلغ لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی شدومد سے کوشش کر رہے تھے تو کس نے شہر شہر اور قریہ قریہ ان کا تعاقب کیا؟ جب آریہ سماجی تحریک اُٹھی اور اس نے افلاس زدہ  ناخواندہ مسلمانوں کو دھرم پریورتن  کی دعوت دی تو کون لوگ تھے جو اس فتنہ کے مقابلہ میں سینہ سپر ہوئے؟ جب پنجاب سے انگریزوں کی شہ پر مرزا غلام احمد قادیانی نے ختم نبوت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو کون لوگ اس فتنۂ کبریٰ کے خلاف اُٹھے اور ہر سطح پر اس فتنہ کی بیخ کنی کا فریضہ انجام دیا؟ جب کچھ لوگوں نے مستشرقین سے متاثر ہوکر حدیث نبویؐ کے حجت و دلیل ہونے کا انکار کیا؛ تاکہ شریعت کا طوق اپنے گلے سے نکال پھینکا جاسکے تو کن لوگوں نے ان جھوٹے بازی گروں کی قلعی کھولی؟
اتنا ہی نہیں، اسلام کے خلاف جب مسلمان نوجوانوں کو کمیونزم کا نشہ پلایا گیا تو وہ کون لوگ تھے جنہوں نے پوری معقولیت کے ساتھ اس طوفان کا راستہ روکا؟ اور جب مسلمانوں کے بچے کھچے شرعی قوانین کو بھی منسوخ کرنے کی سازشیں رچی جانے لگیں تو کن لوگوں نے تحفظ شریعت کی تحریک چلائی اور ان کالی گھٹاؤں کو اپنا رُخ بدلنے پر مجبور کیا؟
 یہ  سب ان ہی بے نوا فقیروں اور ناسمجھ مسلمانوں کی تنقیدوں کا ہدف بننے والے مولویوں کا کارنامہ ہے۔ سیاسی قائدین نے سیاسی فائدے اُٹھائے اور موقع و حال کے مطابق اپنے ضمیر کی تجارت کی، دانشور کہلانے والے حکومت کے اونچے عہدوں پر فائز المرام ہوکر اعلیٰ تنخواہیں وصول کرتے رہے اور جہاں حکومت نے ضرورت محسوس کی ان کی زبان سے اپنی باتیں کہلوائیں اور انہوں نے بھی بے تکلف حق نمک ادا کیا؛ لیکن یہی دینی مدارس ہیں ، جنہوں نے مادی نقصان کے باوجود اپنے کاز پر استقامت کی راہ اختیار کی ۔ 
پھر غور کیجئے کہ ادھر سوا سو سال میں ہندوستان میں جتنی مذہبی تحریکات اُٹھی ہیں ان کی رگوں میں کن کا خون جگر دوڑ رہا ہے اور ان کا اصل سرچشمہ اور منبع کون ہے؟ بلا شک و شبہ، یہی مدارس ہیں جنہوں نے جماعتوں کو اچھے داعی اور مبلغ فراہم کئے ہیں، علمی دنیا کو اسلامیات پر اعلیٰ درجہ کا لٹریچر فراہم کیا ہے، عام مسلمانوں کو گاؤں گاؤں امام و خطیب فراہم کئے ہیں، جن کا عام مسلمانوں کو اسلام سے جوڑے رکھنے میں بڑا کردار ہے، جنہوں نے اُردو زبان کو زندہ رکھا ہے جس سے مسلمانوں کا بہت بڑا قومی اور دینی ورثہ متعلق ہے۔
 غرض یہ مدارس پاور ہاؤس ہیں، جن سے دین کے تمام شعبوں کو غذا ملتی ہے اور اسلام کے ہر کاز کو قوت بہم پہنچتی ہے ۔ اسی لئے فرقہ پرست تنظیمیں آج سب سے زیادہ دینی مدارس کو ہدف بنائے ہوئے ہیں، کیوںکہ انہو ںنے محسوس کرلیا ہے کہ جب تک یہ مدارس اور ان درسگاہوں سے پیدا ہونے والے ’ ملاّ‘ باقی رہیں گے ، مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کرنا اور ان کو اکثریت کی ثقافت میں جذب کرنا ممکن نہ ہوگا اور ان کا یہ خیال یقیناً غلط بھی نہیں ۔بلکہ یہ حقیقت ہے کہ یہ مدارس ہی ہیں کہ ان کی وجہ سے ہندوستان میں اسپین کی تاریخ دہرائی نہ جاسکی اور مذہبی غیرت و حمیت اوراسلامی شعار کا احترام و اہتمام جس قدر اس خطہ میں پایا جاتا ہے اکثر مسلم ممالک بھی اس میں ان کی ہمسری نہیں کرسکتے ؛ اس لئے بلاخوف تردید اور بغیر کسی طرفداری کے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس وقت اسلام کی حفاظت و بقاء ، اس کی دعوت و اشاعت اور اس کی سربلندی کا سب سے بڑا ذریعہ یہی مدارس ہیں۔    یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان مدارس میں ایک بہت بڑی تعداد ان بچوں کی ہے جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان مدارس میں ایک بہت بڑا حصہ معاشی اعتبار سے کمزور ہوتا ہے، پس ان مدارس کو زکوٰۃ ادا کرنے میں زکوٰۃ کے دونوں مقاصد کی بیک وقت تکمیل ہوتی ہے، غرباء کی ضرورت بھی پوری ہوتی ہے اور اسلام کی سربلندی کے مقصد میں بھی مدد ملتی ہے ۔ 
اس لئے ہمارے فقہاء نے خوب سوچ سمجھ کر ضرورتمند علماء اور علم دین حاصل کرنے میں مشغول طلبہ کو زکوٰۃ ادا کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس کو زیادہ باعث فضیلت بتایا ہے۔ مشہور محدث امام عبداﷲ بن مبارکؒ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی اعانتیں علماء ہی پر خرچ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مقام نبوت کے بعد علماء سے بڑھ کر کوئی بلند مرتبہ نہیں۔ (الاتحاف: ۴؍۴۱۷) مشہور فقیہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو علم کیلئے فارغ کرلے اس کے لئے زکوٰۃ لینا جائز ہے؛  کیونکہ وہ معاش کے دوسرے ذرائع اختیار نہیں کرسکتا۔ (درمختار مع الرد: ۶؍۲۸۵)
ایک اور موقع پر فرماتے ہیں :   محتاج عالم یا عابد و زاہد لوگوں پر صدقہ کرنا افضل ہے۔ (سابق: ۳؍۳۰۴)
اور یہ کچھ فقہاء کی طبع زادبات نہیں؛ بلکہ خود قرآن مجید سے ماخوذ ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
’’( صدقات میں ) اصل حق ان حاجت مندوں کا ہے جو اﷲ کی راہ میں گھر گئے ہیں، ملک میں کہیں چل پھر نہیں سکتے، ناواقف انہیں غنی خیال کرتا ہے، سو ان سے ان کی احتیاط کے باعث، تو انہیں ان کے چہرہ کے نقوش سے پہچان لے گا، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے اور تم مال میں سے جو کچھ خرچ کرتے ہو اﷲ تعالیٰ اس کا خوب جاننے والا ہے ۔ ‘‘(بقرہ: ۲۷۳)
اس آیت سے صاف واضح طور پر ظاہر ہے کہ جو محتاج اور ضرورتمند حضرات دین کے کام کی وجہ سے کسب ِ معاش میں مستقل طورپر لگنے کے موقف میں نہ ہوں، وہ صدقات اور اعانتوں کے زیادہ مستحق ہیں، اسی لئے اکابر مفسرین کا رجحان یہی ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اس سے اشارہ اصحابِ صفہ یعنی صفہ میں مقیم طالبان علوم نبوت کی طرف تھا؛ (تفسیر کبیر: ۳؍۶۳۶) بلکہ خود رسول اﷲ ﷺ  کے زمانہ سے یہ طریقہ مروج تھا کہ اہل ثروت صحابہ ؓاپنے صدقات کی کھجور اصحاب ِصفہ کے لئے پیش کیا کرتے تھے اور حضور ﷺ کی طرف سے ان کو اس کی ہدایت ہوتی تھی، اس لئے یوں تو تمام محتاج و ضرورت مند مسلمانوں کی زکوٰۃ سے مدد کرنی چاہئے لیکن دینی مدارس کا خصوصی استحقاق قرآن سے بھی ثابت ہے،  حدیث سے بھی، سلف صالحین کے عمل سے بھی اور یہ زیادہ مکمل طریقہ پر مقاصد زکوٰۃ کو پورا کرتا ہے اور بالخصوص ہندوستان کے موجودہ حالات میں اسلام کی بقاء اور حفاظت کے لئے یہ نہایت ہی مؤثر ذریعہ اور طاقتور وسیلہ ہے ۔  اس موضوع پر ہمیں خود بھی غورو تدبر کرنا چاہئے۔ 
 حکومت اور فرقہ پرست تنظیمیں چاہتی ہی ہیں کہ یہ مدارس بند ہوجائیں؛ تاکہ اسلامی تشخصات اور مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو مٹانے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے اور صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمان تو زکوٰۃ ہی پوری طرح نہیں نکالتے؛ چہ جائے کہ بڑے پیمانے پر ان سے نفل صدقات و عطیات کی توقع رکھی جائے، تو اب اگر زکوٰۃ کا دروازہ بھی مدارس پر بند کر دیا جائے تو وہ خود بخود کمزور ہو جائیں گے اور اس طرح مدارس کو زکوٰۃ نہ ادا کرنے کی بات بالواسطہ طریقہ پر حکومت کے معاندانہ مشن کی خاموش تکمیل ہوگی۔
  ہونا تو یہ چاہئے کہ مدارس کے اس نظام کو تقویت پہنچائی جائے اور مسلمانوں کو دوسرے مقاصد کے لئے بھی انفاق پر اُبھارا جائے، نہ کہ ایسی تدبیر اختیار کی جائے کہ جس سے مخالفین و دشمنان اسلام کی مہم کو تقویت پہنچے اور اس سوتےہی کو خشک کردیا جائے جس سے دینی کاموں کے ہر شعبہ کو آبِ حیات فراہم ہوتا ہے 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK