مغربی دنیا میں ایک کھیل ہے جسے رَگبی کہا جاتا ہے۔ اس کھیل میں دوٹیمیں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں۔ ہر ٹیم میں ۱۵؍ کھلاڑی ہوتے ہیں۔
ایمان دولت ہے، اور دولت کے چھن جانے کا خطرہ ہر وقت لاحق ہوتاہے، اس لئے اس کی خوب حفاظت کرنی چاہئے۔ تصویر: آئی این این
مغربی دنیا میں ایک کھیل ہے جسے رَگبی کہا جاتا ہے۔ اس کھیل میں دوٹیمیں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں۔ ہر ٹیم میں ۱۵؍ کھلاڑی ہوتے ہیں۔ اس کھیل میں ہر کھلاڑی کا سب سے اہم مقصد گیندکو پکڑنا ہوتا ہے ۔ کسی بھی کھلاڑی کے گیند پکڑتے ہی مخالف ٹیم کے کھلاڑی اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور بال اس سے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب اس گیند والے کھلاڑی کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ اسے دوسرے کھلاڑیوں سے بچاتے ہوئے میدان کی جو حدہے اس کو پارکرجائے۔ اس طرح کرنے پر اسے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
اس کھیل کے تذکرہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک مومن کی زندگی میں ایمان اور اعمال صالحہ کی اہمیت کو دیکھا جائے تو یہ دنیا بھی رگبی کا کھیل ہی نظرآتی ہے۔ گیندحاصل کرنے والا کھلاڑی مسلمان ہے۔ اس کے پاس جو گیند آئی ہے وہ ایمان ہے۔ اور مخالف ٹیم کا رول شیطان نبھارہاہے۔میدان کی جو حد ہے وہ ہماری موت ہے۔ گیند حاصل کرنے والے کھلاڑی کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ جی جان کی بازی لگار کر اس گیند کو سینے سے لگائے اس حد کو پارکرجائے ورنہ اس کی ساری کاوشیں کالعدم اور بے فائدہ قرار پاتی ہیں۔
اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں واضح کردیا ہے کہ’’ ائے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اور خبردار! تمہیں کسی اور حالت میں موت نہ آئے، بلکہ اسی حالت میں آئے کہ تم مسلمان ہو۔‘‘یعنی زندگی کی حد پار کرتے وقت ہمارے پاس صرف اور صرف دین اسلام کا ویزا ہی ہمیں جنت میں لے کر جائے گا۔ سورۂ آل عمران میں اللہ عزوجل نے اس بات کا اعلان فرمادیا ہےکہ ’’بیشک(معتبر) دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘ یعنی انسان اگر اب کسی اور دین پر موت پاکر اللہ کے پاس پہنچے گا تو پھر چاہے وہ ساری دنیا کی نیکیاں لے کر گیا ہو، اس کو جنت حاصل نہیں ہوگی۔
اس سے معلوم ہو اکہ ایمان ایک دولت ہے، اور کیونکہ دولت کے چھن جانے کا خطرہ ہر وقت لاحق ہوتاہے، اس لئے اس کی خوب خوب حفاظت کرنی چاہئے۔ دو خطرے ہیں جن کی طرف ہماری عام طور پر توجہ نہیں جاتی۔ پہلا خطرہ تو یہ ہے کہ ہم پشتینی مسلمان ہیں اور اس خام خیالی میں ہم گناہ سے نہیں رکتے۔ دھڑلے سے گناہ پر گناہ کئے جاتے ہیں۔ توبہ کو بھی آخری عمر کیلئے اٹھا کر رکھتے ہیں کہ جب ہماری کن پٹیوں میں سفیدی چھلکنے لگے گی تب مصلے پر بیٹھ کر توبہ استغفار کرلیں گے۔ ہمیں یہ بات جان لینی چاہئے کہ گناہوں کی کثرت اور توبہ کی غیر موجودگی ہمیں گناہوں پر جرأت دیتی ہے اور ہر گناہ ہمیں ایمان سے دورکرنے والا الارم ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے بہت ساری مشینیں اچانک خراب نہیں ہوتیں۔ وہ پہلے مختلف آوازوں کی شکل میں یا ٹھیک سے کام نہ کرکے ہمیں اشارہ دیتی ہیں ۔ بس ایسے ہی گناہ بھی اشارہ ہیں کہ ہمارا دل ایمان کے معاملے میں کمزور ہوتا جارہا ہے۔ اس لئے گناہوں پر جرأت کرنا ہمیں ہر گھڑی ایمان سے دور کررہا ہے۔حدیث شریف میں آپؐ نے گناہ سے دل پر سیاہ نقطہ پڑجانے کا اشارہ دیا ہے۔ جو توبہ سے صاف ہوجاتا ہے لیکن جب توبہ کم ہوگی اور گناہ زیادہ ہوں گے تو انسانی دل خود بخود گناہوں کی ایک آماجگاہ بن جائے گا اورگناہوں سے آلود اس دل سے ایمان کو چھیننا شیطان کیلئے ویسے ہی آسان ہوگا جیسے کسی نشے میں دھت شخص سے کوئی رقم چھیننا ہوتا ہے کہ اپنے آپ میں مست وہ انسان کسی بھی نفع نقصان اور اچھے برے کو سمجھنے سے عاری ہوتا ہے۔
ایمان کی حفاظت کے ساتھ ایک دوسرا مسئلہ بھی ہے جو بہت بڑا ہے۔ وہ یہ کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جو حضرت محمدؐ کے دور سے دور اور قیامت سے قریب ہو رہا ہے۔ قیامت سے ہم جتنے قریب ہوں گے، اتنے ہی فتنے اس دنیا میں اجاگر ہوتے جائیں گے اور یہ فتنے اور آزمائشیں کس چیز کی ہوں گی: ایمان کی۔ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت محمد ؐ نے امت کو ان فتنوں سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:میں دیکھ رہا ہوں کہ (عنقریب) تمہارے گھروں میں فتنے اس طرح برس رہے ہوں گے، جیسے بارش برستی ہے۔‘‘
یہی وہ فتنوں کا دور ہے جس نے ہمارے دل میں ایمان کی اہمیت کو کم کردیا ہے۔ اس طرح ہمارا ایمان کمزور ہوتا جارہا ہے۔ اور قیامت سے پہلے جسکو آپؐ نے بہت بڑا فتنہ قراردیا ہے وہ دجا ل ہے۔ دجال جو آئے گا وہ ہماری ایمان کی مضبوطی کا ایک امتحان ہوگا ۔ وہ اپنے ایک ہاتھ پر جنت اور ایک پر جہنم دکھائے گا۔ ایمان والوں کو ڈرائے گا، دھمکائے گا کہ اللہ عزوجل سے انکار کردو اور مجھ پر ایمان لے آؤ۔ اس سے مقابلے کیلئے چٹانوں جیسےمضبوط ایمان کی ضرورت ہوگی۔ اگر کسی کا ایمان پھسپھسا ہوگا تو وہ فوری طور پر دجال کے فتنے کا شکار ہوجائےگا اور ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم کاایندھن بن جائے گا۔
اس وقت دنیا کے کوائف پر غور کریں تو حالات کا رخ اسی طرف بہہ رہا ہے: ایمان والوں سے ایمان سے ہٹنے کا تقاضہ ہر جگہ کیا جارہا ہے۔ کہیں یہ ہے کہ ہمارے ساتھ تھوڑا ناچ گا لیجئے، کیا فرق پڑے گا۔ کہیں یہ ہے موبائیل پر یا اپنی روزمرہ کی زندگی میں تھوڑی بدنظری کر لیجئے، یہی تو لائف کو انجوائے کرنا ہے، اس میں کچھ غلط تھوڑی ہے۔ کہیں یہ ہے کہ دیش بھکتی کا فلاں گیت گالیجئے جس میں زمین کو سجدہ کرنے اور اس کی عبادت کرنے کی بات کہی گئی ہے،اتنی سی بات سے آپ کا ایمان تھوڑی نہ چلاجائے گا۔بچوں کو ڈرامے میں فلاں مذہب کے خدائی تصور کا انسانی کرداراداکرنے دیجئے ، آپ کے بچے کی ہنرمندی اور صلاحیت ابھر آئے گی، یہ صرف ایک ڈراما ہی تو ہے اس سے کونسی قیامت آجائے گی۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور فتنوں کے اس دور میں گناہ کو ایک بہت اچھی پیکنگ کے ساتھ بیچاجارہا ہے۔ اور ہم اس کے خریدار بن کر اپناایمان داؤ پر لگارہے ہیں۔ ان دجالی ریشہ دوانیوں کی ایک مثال دیکھتے ہیں۔ ساری دنیا میں مشہور انگریزی نظم ’جانی جانی یس پاپا ‘ کے الفاظ پر غور کیجئے، یہ ایک غیر محسوس طریقے پر ہر بچے کو کچھ غلطی ہونے پر دھڑلے سے جھوٹ بولنے اور پکڑے جانے پر شرمندگی کی بجائےاس پر ہنس دینے کی تعلیم دیتی ہے۔یعنی بچہ بچپن سے ہی ان عظیم گناہوں کا عادی بن کر پروان چڑھ رہا ہے، اور یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ ایسی ہزارہا ہزار کوششیں ہر دن ہمارے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی ہورہی ہیں۔ لیکن جس کا مال ومتاع لٹ رہا ہےوہی تاجر سب سے زیادہ خواب خرگوش میں مبتلا نظر آرہا ہے۔