Inquilab Logo

پروفیسر سائی بابا کی دوسری بار رِہائی

Updated: March 10, 2024, 3:42 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

ماؤ نوازوں سے تعلق رکھنے کے الزام میں قید وبند کی صعوبتوں کا سامنا کرنےوالے پروفیسر جی این سائی بابا کو رہائی مل گئی۔

Prof. G. N. Sai Baba addressing the media after his release from prison. Photo: INN
قیدو بند کی صعوبتوں سے رہائی کے بعد پروفیسر جی این سائی بابا میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے۔ تصویر : آئی این این

ماؤ نوازوں سے تعلق رکھنے کے الزام میں قید وبند کی صعوبتوں کا سامنا کرنےوالے پروفیسر جی این سائی بابا کو رہائی مل گئی۔ یہاں افسوسناک بات یہ ہے کہ انہیں بری کئے جانے میں ۱۰؍ سال کا طویل عرصہ لگ گیا۔ تاخیر سے انصاف ملنا بھی ظلم ہے۔ ۲۰۱۵ء سے ۲۰۲۰ء کے درمیان جن لوگوں کو ’یو اے پی اے‘ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، ان میں سے محض ۳؍ فیصد سے بھی کم کو عدالتوں نے قصور وار ٹھہرایا تھا۔ اس سے بہ آ سانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو بغیر کسی ٹھوس شواہد کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔ آیئے دیکھتے ہیں پروفیسر جی این سائی بابا کی رہائی پر مراٹھی اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے۔ 
مہاراشٹر ٹائمز(۶-مارچ)
 اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’ آندھراپردیش کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے طالب علم کے بارے میں اگر کوئی کہتا کہ وہ ملک میں بائیں بازو کی تحریک کا محرک بنے گا، تو کسی کو یقین نہیں آتا۔ منگل کو باعزت بری ہونے والے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر جی این سائی بابا کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ جسمانی طور پر ۹۰؍ فیصد معذور ہونے کے باوجود اُن کی ہمت اور حوصلہ قابل رشک ہے۔ وہ وہیل چیئر کے بغیر کہیں نہیں جاسکتے۔ ان کی خطابانہ صلاحیت کی تاثیر حیران کن ہے۔ اسی مہارت کے ذریعے وہ جارحیت سے بچتے ہوئے ضد سے کام لیتے ہیں۔ وہ کشمیر اور شمال مشرقی ہندوستان کی تحریکوں میں سرگرم رہے، اس کیلئے۲؍ لاکھ کلو میٹر کا سفر طے کیا۔ شہر میں رہ کر ماؤ نوازوں کے ساتھ مل کر ملک کے خلاف جنگ کی سازش رچنے کے الزام میں زندگی کے قیمتی ۱۰؍ سال جیل میں گزارنے پڑے۔ بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ نے ان کی عمر قید کی سزا کو کالعدم قرار دے کر مہاراشٹر سرکار کو بڑا جھٹکا دیا ہے۔ ماؤنوازوں سے تعلق رکھنے کا الزام ان پر کئی مرتبہ عائد کیا گیا، جس کی تردید وہ ہمیشہ کرتے رہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم ہیم مشرا نے پروفیسر سائی بابا کا نام سب سے پہلے پولیس پوچھ تاچھ کے دوران لیا تھا۔ ہیم مشرا نے پولیس کو بتایا تھا کہ وہ چھتیس گڑھ کے نکسل وادیوں اور سائی بابا کے درمیان ایک کڑی کے طور پر کام کرتا ہے۔ اکتوبر ۲۰۲۲ء میں ہائی کورٹ نے سائی بابا کی رہائی کا حکم سنایا تھا لیکن مہاراشٹر سرکار نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ جس کے بعد ان کی عمر قید کی سزا برقرار رکھی گئی تھی، لیکن اس مرتبہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہائی کورٹ نے حکومت کے تمام الزامات کو خارج کرتے ہوئے پروفیسر سائی بابا کی رہائی کو یقینی بنادیا ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے:کراس ووٹنگ سے جیت حاصل کرنا بی جے پی کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے

لوک ستہ(۶؍ مارچ)
 مراٹھی کے معروف کالم نویس دیویندر گاونڈے لکھتے ہیں کہ ’’کسی مسئلے کو پیچیدہ بنا کر سیاست کرنا، مخالفین کو نیچا دکھانا، ووٹ حاصل کرکے اقتدار پر قبضہ جمانا لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے انتظامی، سیاسی اور عدالتی سطح پر کوئی مخلصانہ کوشش نہ کرنا۔ نکسل واد کے سلگتے مسئلے پر گزشتہ ۱۰؍ برسوں سے بی جے پی مذکورہ فارمولے پر عمل پیرا ہے۔ ماہرین نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ بی جے پی کو اس کڑوے پھل کا مزہ ایک نہ ایک دن چکھنا پڑے گا۔ اس سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر نکسلائٹ ہونے کے الزام میں پچھلے ۱۰؍ سال سے قید وبند کی صعوبت جھیلنے والے پروفیسر جی این سائی بابا کو بامبے ہائی کی ناگپور بنچ کے ذریعہ رہائی کو دیکھا جارہا ہے۔ گڈچرولی سیشن کورٹ نے دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں ہائی کورٹ نے بری کردیا۔ ٹھوس ثبوت کی عدم موجودگی کے باوجود یو پی اے جیسی سخت دفعہ کا اطلاق کرتے وقت مناسب قانونی باریکیوں کو سرے سے نظر انداز کیا گیا۔ اسے عدلیہ کی تاریخ میں `ایک ’انوکھا‘ مقدمہ درج کیا جائے گا۔ ملک میں نکسلی مسئلہ ۵۰؍ سال سے زیادہ پرانا ہے۔ ایک دو ریاستوں کو چھوڑ کر کوئی بھی اس مسئلے کو حل نہیں کر پایا ہے۔ اس تحریک کی وجہ سے ہونے والے تشدد پر قابو پانا ہی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اسے جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔ پروفیسرسائی بابا کے معاملے نے ایک بار پھرثابت کیا ہے کہ سرکار نے اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ‘‘
نو شکتی (۷؍ مارچ)
 اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ’’ بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ نے دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر سائی بابا اور دیگر ۵؍ افراد کو انتہا پسندوں سے تعلق رکھنے اور ملک کیخلاف جنگ چھیڑنے جیسے سنگین الزامات سے بری کردیا ہے۔ بری ہونے والے تمام افراد کا ماؤ نوازوں سے تعلق ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بنا پر عدالت نے مقدمہ خارج کردیا۔ انسداد غیر قانونی سرگرمی ایکٹ کے تحت ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے کے الزام میں سات سال قبل گڈچرولی کی سیشن کورٹ نے جی این سائی بابا کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ جب بامبے ہائی کی ناگپور بنچ میں اس سزا کے خلاف درخواست دائر کی گئی تو عدالت نے ٹھوس ثبوت کی کمی کا حوالے دیتے ہوئے اکتوبر۲۰۲۲ء کو سائی بابا اور دیگر ملزمان کو بری کردیا تھا لیکن ریاستی سرکار اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی تو سپریم کورٹ نے سزا پر روک لگاتے ہوئے پورا معاملہ ناگپور بنچ کو واپس بھیج دیا۔ ہائی کورٹ نے دوبارہ ۵؍مارچ کو سائی بابا کے حق میں فیصلہ سنایا۔ حکومت ان پر لگے الزامات کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکی۔ ۱۰؍ سال کی طویل جدوجہد کے بعد بالآخر پروفیسر کو انصاف ملا۔ یہ معاملہ متحدہ ترقی پسند محاذ کے دور میں پیش آیا تھا مگر مودی سرکار کے دور میں عدالتی کارروائی کی گئی۔ بتایا جارہا ہے کہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے سے پہلے ریاستی اور مرکزی حکومت کے متعلقہ حکام سے اجازت لینا لازمی ہوتا ہے مگر اس پر عمل در آمد نہیں کیا گیا۔ عدالت کی جانب سے ان کے بری ہونے کی یہ تکنیکی وجہ بیان کی گئی۔ پروفیسرسائی بابا پر پولیس نے نکسلیوں کا ماسٹر مائنڈ ہونے کا سنگین الزام عائد کیا تھا۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK