Inquilab Logo

دولت کی تجوری نہیں، علم کے بینک میں محفوظ کریں اپنے بچّوں کا مستقبل

Updated: May 20, 2024, 3:43 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

یہ ایک سچائی ہے کہ جن بچوں کے کانوں میں بینک بیلنس کی باتیں جاتی رہتی ہیں، اُن بچوں کے کانوں میں علم کی باتیں بہت مشکل سے داخل ہو پاتی ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

برسہا برس سے یہ منظر ہم دیکھتے آئے ہیں کہ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں اور خوب خوب پڑھ رہی ہیں۔ لڑکوں کا معاملہ چہار سُو بگڑا ہوا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ غریب گھرانوں کےنوجوانوں کا مسئلہ چولہا ہوتا ہے۔ اُن کے والدین کے حالات ہی کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس ویژن، بصیرت یا دُوراندیشی نہیں آپاتی، اسلئے اُنہوں نے چولہے کو زندگی کا محور بنالیا ہے اور اس طرح اُن کے بچّوں کی ذہانت اور اُن کا مستقبل چولہے میں جل جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہو تا ہے کہ ہماری قوم کے خوشحال یا امیر گھروں کے بچّوں کا مسئلہ کیا ہے؟ ان کے یہاں توچولہا کوئی مسئلہ نہیں ہے، پھروہ اعلیٰ تعلیم وتحقیق میں کوئی کارنامہ انجام کیوں نہیں دے رہے ہیں ؟ آئیے اس اہم مسئلے کا تجزیہ کریں۔ 
 خلیجی ممالک اور مغربی ممالک کے تعلیمی دَوروں میں ہمارے معاشرہ کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ کرنے کا ہمیں موقع ملا جس سے امیر یا خوشحال گھروں کے امراض کا بھی ہمیں ادراک ہوا۔ وہاں پر مقیم ہندوستانی مسلمانوں کی مجلس کا مشترک موضوع کیا ہوا کرتا ہے؟ والدین کہتے ہیں : ’’بھئی میں نے تو طے کر لیا ہے کہ جن جن مشکلات سے میں گزرا ہوں، اُن کی ایک ہلکی سی پر چھائی بھی میرے بچّوں پر پڑنے نہیں دوں گا۔ میں اتنا کماؤں گا کہ میری اگلی نسل کو کمانے کی ضرورت ہی نہ پڑے‘‘کچھ لوگ تو اور چار قدم آگے بڑھ جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں :’’میں اتنا کماؤں گا کہ آنے والی چار نسلوں کو کمانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: آج کےحالات میں آگہی و بیداری کیلئےطلبہ کوتحریر، تقریر، نکڑ ڈرامے اور سوشل میڈیا کا سہارا لیناچاہئے

کیوں بھئی؟ کیوں اپنے بچّے کے دشمن بنے ہوئے ہیں ؟ اگر آپ اپنے بچّےکو واقعی چاہتے ہیں تو اسے زندگی کے سارے نشیب و فراز کا مشاہدہ کرنے دیجئے۔ جن جن مشکلات سے آپ گزرے ہیں، اُنہیں اس کا اندازہ بھی نہیں ہو گا تو جانتے ہیں کیا ہو گا ؟ زندگی نے اگر ذراسی بھی کروٹ بدلی اور طوفان آیا ... بلکہ آندھی نہیں اگر تیز ہوا ئیں بھی چلیں تو آپ کے بچّے چاروں شانے چِت ہو سکتے ہیں کیونکہ آپ نے اپنے بچّوں کوڈیزاسٹر مینجمنٹ یعنی زندگی کی نا گہانی آفتوں سے مقابلہ کرنے کا کوئی ہنر سکھایا ہی نہیں۔ اس کے برعکس ہمارے بعض والدین یہ تک کہتے ہوئے سُنائی دیتے ہیں :
 ’’مَیں اپنے بچے کی ہر خواہش پورا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میری خواہشیں بچپن میں کسی نے پوری نہیں کی تھیں۔ میں میلوں پیدل چلا لیکن اب مجھے یہ منظور نہیں کہ میرے بچے بھی اُسی طرح رہیں، پیدل چلنے کا سوال ہی نہیں، یہ دیکھو، کالج جانے کیلئے میں نے ۶؍لاکھ روپے کی بائیک اپنے بیٹے کودلا دی ہے۔ کیوں ؟مجھے یاد ہے میں بھی بس میں سفر کرنے نکلتا تھا تب پہلے جیب میں دیکھتا تھا کہ کتنے پیسے جیب میں ہیں۔ ۲۵؍پیسے ٹکٹ تھا لیکن ۲۰؍ پیسے والے اسٹاپ پر ہی اُتر جاتا تھا اور وہاں سے آگے پیدل چلتا تھا۔ میں نے طے کیا کہ اِن حالات سے میرے بچّے نہیں گزریں گے۔ ابھی یہ بائیک دی ہے آگے چل کر ایئر کنڈیشن گاڑی دلادوں گا۔ ایئر کنڈیشن گھر سے سیدھا ایئر کنڈیشن گاڑی میں بیٹھے گا میرا بیٹا۔ ۲؍ روپے کے چاکلیٹ بھی ہمیں میسر نہیں تھے اور اب یہ دیکھ رہے ہو؟ انبار لگا دیا ہے میں نے سنگا پور کے چاکلیٹ کا ! کنویں سے پانی لاتے تھے ہم گاؤں میں۔ اب دیکھ رہے ہو دو دو ریفریجر یٹر سافٹ ڈرنکس سے بھرے پڑے رہتے ہیں۔ میرے بچوں کو کوئی کمی نہیں ہونے دوں گا۔ ‘‘
  اپنے بچّوں کیلئے اس ’بے پناہ پیار‘ کا نتیجہ پھر کیا سامنے آتا ہے؟ بچّے انتہائی لا پروا، پڑھائی میں پھسڈّی، بد زبان اور اپنے سے کم حیثیت کے لوگوں سے نفرت کرنے والے بن جاتے ہیں۔ زندگی کا کوئی مقصد، کوئی نصب العین... یہ سب تو سوچتے ہی نہیں کہ ان کی زندگی کا نصب العین اُن کے والد صاحب نے بینک بیلنس کی شکل میں پہلے ہی محفوظ کر لیا ہے۔ جد و جہد زندگی؟ اُن کی نظر میں یہ سب غریب بچّوں کیلئے ہے، اُن کیلئے تو اُن کے والدین جد و جہد کر چکے ہیں۔ یہ ہوئی اُن کی ذہنی صحت ! اب اُن بچّوں کی جسمانی صحت کا معاملہ بھی سن لیجئے۔ برگر، پیز ا و دیگر فاسٹ فوڈس اور دن بھر سافٹ ڈرنکس پینے کی بنا پر پھر ہوتا یہ ہے کہ پانچویں کلاس کے بچے کا وزن ہوتا ہے: پچاس کلو، ساتویں والے کا ۷۰؍ کلو اور دسویں میں پڑھ رہے بچے کا پورا ۱۰۰؍ کلو! جی ہاں غیر مقیم ہندوستانی بچوں کو ہم نے ذیا بیطیس، ہائی بلڈ پریشر اور کولیسٹرال میں زیادتی جیسی بیماریوں کا شکار دیکھا۔ ہے یہ سب کس کا نتیجہ ہے؟ اپنے بچوں کو جد و جہد زندگی کی صحیح تربیت نہ دے پانے کا !
 در اصل بات یہ ہے کہ جن بچوں کے کانوں میں بینک بیلنس کی باتیں جاتی رہتی ہیں، اُن بچوں کے کانوں میں کبھی بھی علم کی باتیں داخل نہیں ہوتیں۔ جب والدین کے منہ سے ہمیشہ وہ بینک کے ڈپازٹ کی باتیں سنتے ہیں تب بچّے طے کر لیتے ہیں کہ انہیں کچھ کرنا نہیں ہے۔ ہمارے چند غیر مقیم ہندوستانی دوچار فلیٹ، ایک آدھ دکان وغیرہ میں بھی سرمایہ کاری کر کے اپنے بچوں کا مستقبل ’محفوظ‘ کر لیتے ہیں۔ یعنی وہ یہ سوچتے ہیں کہ کچھ ایسی جائیداد چھوڑ جاؤں کہ اس کے کرائے ہی سے ان کے بچوں کا گزر بسر شاہانہ طریقے سے ہو سکے۔ جانتے ہیں اُس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ ان لوگوں کے انتہائی ذہین بچے بھی صرف کرایہ وصول کرنے والے بن جاتے ہیں۔ یعنی اُن کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے: ہر ماہ کی ایک تاریخ کو کرایہ وصول کرنا اور اُس پر عیش کرنا۔ جب کسی کے دو چار بیٹے ہوتے ہیں تو سبھی ایک تاریخ کو دکان کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں، کرایہ وصول کرنے اور پھر ان کے کرائے کے جھگڑے کورٹ کچہری تک پہنچ جاتے ہیں۔ دیکھا آپ نے بچوں کا مستقبل دولت کے ذریعے محفوظ کر لینے کا نتیجہ! 
 حضرات!آپ اپنے بچوں کو دولت کا چوکیدار مت بنائیں۔ اس کے برعکس آپ یہ سوچیں کہ آپ دولت کو خرچ کر رہے ہیں یا دولت آپ کے بچوں کوخرچ کر رہی ہے !آپ کے بعدآپ کے بچّے بھی بدقسمتی سے آپ کوکوستے رہتے ہیں کہ اُنھوں نے سوچا تھا کہ اُن کے ابّا اُنھیں ڈسٹرکٹ کلکٹر بناکرجائیں گے مگر اُنھوں نے اُنھیں رینٹ (بھاڑا) کلکٹر بناکر اس دنیا سے رُخصت ہوئے۔ 
 ہم نے خلیجی ممالک میں دیکھا ہے کہ باپ ’فکر مند‘ ہے اپنے بچوں کیلئے دولت کمانے میں لہٰذا وہ رات گئے گھر لوٹتا ہے تب تک بچّے سو جاتے ہیں۔ صبح باپ سورہاہوتا ہے تب بچے اسکول کیلئے نکل جاتے ہیں۔ باپ سے ملاقات جمعہ کے روز ہو تی ہے۔ اب اگر ماں بھی ملازمت کرتی ہو تب تو بچے بالکل لاوارث ہو جاتے ہیں اور وہ نوکر چاکر اور ڈرائیور کے حوالے ہو جاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں ہم نے دیکھا کہ ماں باپ کو جو ہفتے میں اتوار نصیب ہوتا ہے اُس میں پورے ہفتے کا بازار لانا ہوتا ہے اُنہیں، لہٰذا بچوں کیلئے کوئی وقت وہ دے نہیں پاتے۔ جن بچّوں کیلئے اتنی ساری قربانیاں آپ دے رہے ہیں، اُن بچوں کیلئے آپ وقت دے پاتے ہیں نہ توجہ ! پھر وہ بچے کمپیوٹر گیمس، فیس بُک اورنِت نئی لَت یا غلط صحبت کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ 
 ہمارا روئے سخن خلیجی ممالک وغیرہ میں ملازمت پیشہ دولت مندوں سے ہے۔ وہ آخر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کی طرف کب راغب کرائیں گے؟ کیا وہ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ سارے خلیجی ممالک یہودی، عیسائی اورسنگھ پریواری ماہرین پر منحصرر ہیں یا پھر کیا وہ اس بات کا بھی انتظار کر رہے ہیں کہ سنگھ پریواری وزیر اعظم اب کی بار بُرج خلیفہ کے ۶۲؍ویں منزلے پر جا کر وہاں سے ’من کی بات‘ کہے اور اس کو ٹیلی کاسٹ کرنے کیلئے سارے عرب حکمراں اعلیٰ پیمانے پر اہتمام کریں ؟ یا اعلیٰ عہدوں پر تقرری کیلئے فرقہ پرست حکومتیں اُس وقت راضی ہوجائیں جب اُن ملا زمین کیلئے ہر مسلم ملک میں جابجا مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK