Inquilab Logo

الیکشن کمیشن ناراض ہے، یعنی زندہ ہے

Updated: May 20, 2024, 4:14 PM IST | NK Singh | Mumbai

یہ سن کر کچھ سکون ملا کہ الیکشن کمیشن بھی ناراض ہو سکتا ہے۔ ناراض کس پر ہوا، یہ آگے دیکھا جائے گا لیکن اتنا تو ثابت ہو گیا کہ ادارہ زندہ ہے۔

Election Commission of India. Photo: INN
الیکشن کمیشن آف انڈیا۔ تصویر : آئی این این

یہ سن کر کچھ سکون ملا کہ الیکشن کمیشن بھی ناراض ہو سکتا ہے۔ ناراض کس پر ہوا، یہ آگے دیکھا جائے گا لیکن اتنا تو ثابت ہو گیا کہ ادارہ زندہ ہے۔ عام طور پر، اگر کوئی کیچوا تن کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، تو یہ اس کے وجود کا ثبوت ہوتا ہے۔ اگر جمہوریت میں کوئی ادارہ دنیا کو دکھانے اور گمراہ کرنے کیلئے ہی سہی اور اپنی مرضی کے مطابق ہی سہی کارروائی کرتا ہے اور تن کر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس بات کی امید کی جاسکتی کہ آئندہ کبھی اس میں ریڑھ کی ہڈی بھی بڑھے گی۔ 
 الیکشن کمیشن نے کانگریس صدر کے خط پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس کا ووٹروں پر’منفی اثر‘ پڑے گا۔ درحقیقت کانگریس سربراہ نے اپنے خط میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا کیونکہ کمیشن نے دس دن بعد ووٹ فیصد کا حتمی اعداد و شمار د یاتھا جو نسبتاً زیادہ تھا۔ اس کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں بے ضابطگیوں کا شبہ ظاہر کیا تھا۔ اس طرح کی تاخیر پہلی بار ہوئی ہے اور وہ بھی الیکٹرانک ووٹنگ کے دور میں جبکہ بیلٹ بکس کے زمانے میں اس کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز میں پہنچنے کے چند منٹوں میں ہی اعدادو شمار دستیاب ہو جاتے تھے۔ 
 لیکن کمیشن کو اُس وقت غصہ نہیں آیا جب نہ صرف انتخابی ضابطہ اخلاق بلکہ آئی پی سی کی دفعہ۱۵۳ (اے) کی بھی دھجیاں اڑاتے ہوئے سو مرتبہ ہمارے وزیراعظم مذہب، ہندو، مسلم اور منگل سوتر کے موضوع پر تقریریں کررہے تھے۔ اُس وقت اس ادارے کے ذمہ داران کو کیوں سانپ سونگھ گیا تھا؟

یہ بھی پڑھئے: دولت کی تجوری نہیں،علم کے بینک میں محفوظ کریں اپنے بچّوں کا مستقبل

یہ حاکمیت کا احساس ہی تو تھا جب چند ماہ قبل پی ایم او نے اسے ایک’ اہم‘ میٹنگ میں شرکت کا حکم دیا تھا اور اس کی تعمیل بھی کی گئی تھی؟ یہ غلامی کا احساس نہیں تو پھر کیا تھا جب شدید کورونا کے دور میں سماجی فاصلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مغربی بنگال کی قانون ساز اسمبلی میں بھیڑ کے درمیان وزیراعظم اور وزیرداخلہ ’’دیدی او دیدی‘‘ کہہ کر انتخابی مہم چلا رہے تھے اوران کے خلاف الیکشن کمیشن کسی طرح کی کارروائی کی جرأت نہیں کرپا رہا تھا۔ 
  اگر اسے بقا کا مسئلہ نہیں کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے کہ اپوزیشن کے خلاف چھوٹے چھوٹے معاملات پرکمیشن اسے نوٹس بھیجتا ہے لیکن دوسری طرف جب بی جے پی کا کوئی وزیر اعلیٰ اپنی انتخابی تقریر میں کہتا ہے کہ ’’اورنگ زیب کی اولادوں کو سبق سکھائیں گے‘‘ تو کمیشن آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ شاید ان کے خلاف کارروائی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کارروائی، حکمراں طبقے سے وفاداری کا ثبوت ہے۔ اسے ’غلامی‘ کا زیور بھی کہا جاسکتا ہے۔ 
 اس الیکشن کو جمہوری ہندوستان کی۷۴؍ سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ سطحی انتخابات کہا جائے گا۔ منطق میں ’توازن‘ کو مناسب تجزیہ کا مرکز سمجھنے کا سوال اس وقت آتا ہے جب دوسرا فریق بھی اقدار کو تھوڑا بہت توڑ رہا ہو۔ لیکن اس الیکشن میں انتخابی مہم جس ناقص سطح تک پہنچ گئی ہے اس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر سخت قوانین اور مضبوط ادارے ہوتے تو ایسے لیڈروں کے عوامی زندگی میں آنے پر پابندی لگ چکی ہوتی۔ دس سال کی حکمرانی کے بعد بھی اگر کوئی وزیر اعظم، اس کے کئی وزرائے اعلیٰ اور لیڈر مذہب، ذات پات، کالے گورے اور امیر غریب، ۱۵؍ منٹ بنام ۱۵؍ سیکنڈ، آدھا سچ بتا کر بدنام کرنے والے اعداد وشمار، آبروریزی کے سچےجھوٹے الزامات اور مندر بنانے بنام مندر میں تالا لگانے والےجیسے بیانات دیں تو کیا اسے حکمرانی کہا جائے گا جو ترقی کیلئے ذمہ دار ہے؟ ایک لیڈر، جو اپنی ریاست میں ’راج دھرم‘ نبھانے میں ناکام رہا ہو، اس سے اس سےزیادہ کی امید کیوں کر کی جاسکتی ہے؟
 یہ ایک قائم شدہ تصور ہے کہ ایک اخلاقی پیمانے پر گرا ہوا شخص یا ادارہ دوسرے اخلاقی پیمانے پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ایک شخص کی طرح ایک تنظیم کو بھی اپنے طرز عمل سے اخلاقی اقدار پر قربان ہونے کے عزم کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ ان دنوں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ ایماندار ہو گیا ہے یا وہ ایماندار تھا لیکن حالات نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کر دیا۔ البتہ کئی بار ہم عوامی چال چلن میں ایماندار ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں۔ 
 بہرحال اب دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن جس طرح اپوزیشن لیڈروں کے خلاف برہمی کا اظہار کرتا ہے، کیا کبھی حکمراں محاذ کے خلاف بھی کرنے کی جرأت کرسکتا ہے؟ الیکشن کمیشن ایک ایسا ادارہ ہے جسے ملک کے۱۴۰؍ کروڑ عوام انتخابات کے دوران بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہیں اور اس کی اخلاقی طاقت کو جانچتے ہیں۔ ملک کے عوام بہت کچھ دیکھتے ہیں۔ اُس وقت بھی جب اس کے’کمشنروں ‘ کو ایک طاقتور وزیر اعظم اپنی طاقت کے اظہار کی صورت میں ’پرساد‘ کے طور پر تعینات کرتا ہے، تو عوام کی سمجھدار نظریں اور گہری ہو جاتی ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین بنانے والوں نے ججوں کو ہٹانے کے عمل کی طرح ہی الیکشن کمشنروں کو بھی ان کے عہدے سے ہٹانے کے عمل کو مضبوط کیا ہے تاکہ وہ بلا خوف کام کر سکیں لیکن افسوس کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ ایک خوف کے سائے تلے میں کام کرتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔ 
(مضمون نگار سینئر صحافی اور براڈکاسٹ ایڈیٹرز اسوسی ایشن کے سابق جنرل سکریٹری ہیں )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK