بزنس مینجمنٹ کے استاذ اور کئی کتابوں کے مصنف’ اسٹیفن آر کووے‘ کی شہرہ آفاق تصنیف ’سیون ہیبٹس آف ہائلی اِفیکٹیو پیپل: پاور فل لیسنس اِن پرسنل چینج‘ کا اجمالی جائزہ، اس کتاب میں شخصیت سازی اور دنیا میں کامیابی کے کئی اہم نکات بتائے گئے ہیں۔
EPAPER
Updated: July 13, 2025, 2:25 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai
بزنس مینجمنٹ کے استاذ اور کئی کتابوں کے مصنف’ اسٹیفن آر کووے‘ کی شہرہ آفاق تصنیف ’سیون ہیبٹس آف ہائلی اِفیکٹیو پیپل: پاور فل لیسنس اِن پرسنل چینج‘ کا اجمالی جائزہ، اس کتاب میں شخصیت سازی اور دنیا میں کامیابی کے کئی اہم نکات بتائے گئے ہیں۔
اسٹیفن آر کووے (۲۰۰۲۔ ۱۹۳۲ء) بزنس مینجمنٹ کے استاذ، ماہر تربیت اور مصنف تھے۔ لیڈرشپ اور شخصیت سازی پر اُن کے کام کو دنیا بھر میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ۱۹۸۹ء میں اُن کی کتاب (سیون ہیبٹس آف ہائلی اِفیکٹیو پیپل: پاور فل لیسنس ان پرسنل چینج) یعنی ’’اثردار اشخاص کی ۷ عادتیں : ذاتی تبدیلی کے لئے زبردست اسباق‘‘شائع ہوئی جو اُن کی پہچان اور عالمی شہرت کا سبب بنی۔ یہ تصنیف دنیا بھر میں کروڑوں قارئین کی سوچ، عادات اور طرزِ عمل میں قابلِ قدر تبدیلی کا باعث بنی۔
پہلی عادت: پروایکٹیو یعنی پیشقدمی کرنے والا بنئے۔
دو دوست کئی برس ایک فیکٹری میں ملازم رہے۔ دونوں اپنی تنخواہ کو لے کر ناخوش تھے۔ کچھ عرصے بعد ان میں سے ایک استعفیٰ دے کر چلا جاتا ہے۔ سال بھر بعد دونوں کی ملاقات ہوتی ہے۔ باتیں ہوتی ہیں۔ پہلے نے جب دیکھا کہ کمپنی میں ترقی کا امکان نہیں تو اس نے مثبت رویہ اپنایا، کوئی دوسرا ہنر سیکھا۔ اب وہ بہتر تنخواہ پا رہا ہے۔ دوسرا، کم تنخواہ اور منفی رویے کے ساتھ اب بھی کمپنی کی پالیسیوں کا شکایات گزار ہے۔ اثردار لوگ حالات کا رونا روتے رہنے کے بجائے آگے بڑھ کر عمل کرنے والے ہوتے ہیں۔ اپنے اندر مثبت تبدیلی کی کوشش جاری رکھتے ہیں۔ اسی لئے کامیابی اُن کا تعاقب کرتی ہے۔ راہ وہی بدلتا ہے جو قدم اٹھانا جانتا ہو۔
دوسری عادت: انجام کو ذہن میں رکھ کر ہی اپنے کام کا آغاز کیجئے۔
تصوّر کیجئے کہ آپ قبرستان میں ہیں۔ کسی کی تدفین کی تیاری ہو رہی ہے۔ آپ کی نظر میت کے چہرے پر پڑتی ہے تو آپ چونک جاتے ہیں۔ کفن پہنے لیٹا ہوا کوئی اور نہیں آپ خود ہیں۔ گھر آکر آپ سوچتے ہیں کہ اگر میں آج چل بسوں تو دنیا میں کیا چھوڑ کر جاؤں گا ؟ لوگ مجھے کیسے یاد کریں گے؟ انجام پر نظر، کاموں کے آغاز ہی میں ہونی چاہئے۔ کیا مجھے اپنی زندگی کامقصد واضح طور پر معلوم ہے؟ ہدف کا صحیح تعین کرنے اور نصب العین پر نظریں جمائے رکھنے کے بے شمار فائدے ہیں۔ انسان وقت کے ضیاع سے بچتا ہے۔ ایک ۳۰؍ سالہ آرکیٹیکٹ آئندہ پانچ برسوں میں ذاتی فلیٹ کا مالک بننا چاہتا ہے۔ ایک دوشیزہ تین ماہ میں مغلئی اور چائنیز کھانے پکانے میں مہارت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ دونوں نے کاغذ پر اپنے اپنے گول تحریر کئے؛ کتنی معیاد میں اور کیا حاصل کرنا ہے؟ اب یہ دونوں ٹائم پاس کرنے سے بچنے کی شعوری کوشش کریں گے اور اپنے مقصد کی راہ میں سرگرداں رہیں گے۔
تیسری عادت: کارِ اول پہلے انجام دیجئے یعنی اہم کام پہلے کیجئے۔
وقت ہمیشہ محدود ہوتا ہے اور کام زیادہ۔ ہنگامی مسائل بھی پیش آتے رہتے ہیں۔ ایسے میں عقلمندی یہی ہے کہ ہم کاموں کی درجہ بندی کریں۔ ایک خاتون خانہ جب کھانا پکانے کیلئے کچن میں کھڑی ہوتی ہے تو اُس کی سہیلی کا فون آتا ہے، جو اپنا کام ختم کرچکی ہے۔ ۴۰؍ منٹ کی مزیدار، چٹ پٹی گپ شپ کے سبب کھانے کاذائقہ متاثر ہوتا ہے اور تاخیر الگ۔ محترمہ کو ترجیح کا خیال کرنا پڑے گا۔ ترجیحات کے تصور کو واضح کرنے کیلئے کووے، روزمرہ کے مختلف کاموں کی درجہ بندی کچھ اس طرح کرتے ہیں :
اہم اور فوری
اہم لیکن غیر فوری
فوری لیکن غیر اہم
غیر اہم اور غیر فوری
کامیاب لوگ کاموں کی درجہ بندی کرتےہیں اور اسی مناسبت سے اس پر عمل کرتے ہیں۔ چہل قدمی، جسمانی ورزش وغیرہ فوری طور پر کرنے کے کام بھلے نہ ہوں لیکن دونوں کی اہمیت مسلّم ہے۔ ’ٹائم نہیں ملتا‘ کی شکایت کرنے والے اکثر وہاٹس ایپ پر موصول ہر ویڈیو دیکھتے ہیں اور دھڑادھڑ اسے آگے بڑھا کر دوسروں کا وقت بھی برباد کرتے ہیں۔ وقت کو ہم قابو میں کریں ورنہ وقت ہمیں قابو میں کرلے گا۔
چوتھی عادت : جیت، جیت والی سوچ اپنایئے۔
یہ ضروری نہیں کہ ایک فریق کی جیت دوسرے کی ہار کی وجہ بنے۔ گھریلو زندگی ہو یا کاروبار، معاملات اگر اس طرح ترتیب دیئے جائیں کہ دونوں فریقوں کو اپنی جیت کا احساس ہو توزندگی خوشگوار محسوس ہوتی ہے۔ کسی مشقت طلب سودے بازی کے بعد اگر خریدار کو پتہ چلے کہ اسے دو فیصد زائد مقدار میں مال ملنے جا رہا ہو تو وہ کتنا خوش ہوگا؟ جیت، جیت کے فلسفے میں، زندگی میدانِ جنگ نہیں بلکہ باہمی شراکت داری کا خوشگوار سفر ہوتا ہے، جہاں سب کی کامیابی ایک دوسرے سے جُڑی ہوتی ہے۔
پانچویں عادت: پہلے سمجھیں، پھر سمجھائیں۔
پہلے دوسروں کی بات سُنئے پھر اپنی سنائیے۔ آپ کو کبھی اتفاق ہوا کہ آپ وقت لے کر کسی ڈاکٹر کے پاس گئے ہوں اور اس نے آپ کی شکایت کو ٹھیک سے سُننے سے قبل ہی پرچہ لکھ دیا ہو؟ آپ نے اُس کے متعلق کیا تاثر قائم کیا؟ ممکن ہے کہ اس نے اپنے طویل تجربے کی بنیاد پر ایسا کیا ہو، لیکن پھر بھی آپ کے دل میں اُس کی تشخیص کے متعلق شک ضرور پیدا ہوا ہوگا۔
ہم لوگ وہاٹس ایپ پر گپ شپ کرتے ہیں۔ اکثر اُلجھ پڑتے ہیں۔ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے جبکہ دو نوں فریقوں کا منشا ایک ہی ہوتا ہے۔ الفاظ کسی بھی مدّعے کا اظہار ایک حد تک ہی کرسکتے ہیں۔ گفتگو کا لہجہ اور جسمانی حرکات و سکنات مفہوم کو مکمل کرتے ہیں۔ فریق مخالف کی بات سُننا، اس کے نکتہ نظر کو سنجیدگی اور ہمدردی کےساتھ سمجھنےکی کوشش کرنا، کامیاب لوگوں کی خاص صفت ہوتی ہے۔ یہ لوگ کانوں سے بھی سُنتے ہیں اور دل سے بھی۔
چھٹی عادت : سینرجائز یعنی ہم آہنگی و اشتراک کی راہ اپنایئے۔
کائنات میں اُس کے خالق نے ایک اعلیٰ درجے کی ہم آہنگی قائم کر رکھی ہے۔ وہ گھر جس میں اس کے مکین باہمی احترام اور الفت کے ساتھ رہتے ہوں ایک بابرکت مقام بن جاتا ہے۔ دکانوں، دفاتر یا کارخانوں کی ترقی میں بھی کام کرنے والوں کی سینرجی یعنی باہمی یکجہتی و اشتراک بڑا رول ادا کرتے ہیں۔ بآثر لوگ اپنے ہمکاروں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ایسا نہ کرنے والوں کو ہمارے بزرگ’ عاقلوں میں عاقل‘ نہیں گنتے۔
ساتویں عادت: آرے کی دھار تیز رکھیئے یعنی اپنی صلاحیتوں کو جلا بخشتے رہئے۔
بھرپور کار کردگی کا مظاہرہ کرنے کیلئے، روحانی، ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر لحاظ سے اپنے کو قابل بنائے رکھنا ضروری ہے۔ ایک بینک ملازم شام کو دیر تک کام کرتا ہے، لیکن دن بھر نشست پر جمے رہنے اور ورزش کی کمی کے سبب اُس کا وزن بڑھنے لگتا ہے حتیٰ کہ اسے کولیسٹرول اور دل کی بیماری کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ اسی طرح، اہل خانہ کو مناسب توجہ اور کوالیٹی ٹائم نہ دے سکنے سے کئی سماجی مسائل جنم لیتے ہیں جو بالآخر آپ ہی کی کامیابی کے آڑے آتے ہیں۔
کتاب ایک باقاعدہ پریکٹیکل گائیڈ ہے۔ ساتوں عادات سے متعلق عملی مشورے دیئے گئے ہیں۔ خاکے، جدول، چارٹ اور بہت ساری مثالیں قاری کی دلچسپی برقرار رکھنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ شخصیت سازی اور بہتر کارکردگی پر مغربی لٹریچر یقیناً بڑا دلکش اور مفید دکھائی دیتا ہے۔ اُن کا سارا ورلڈ ویو دنیاپرستی پر مبنی ہے جس کی جھلک سیلف ہیلف لٹریچر میں نظر آتی ہے۔ وہاں فرد کی آزادی کو بڑی اہمیت حاصل ہے لہٰذا شخصی کامیابی میں بھی خود فرد کا رویہ اور رول بہت اہم ہے، لیکن تیسری دنیایا عالمی جنوب کے ممالک میں معاشی نابرابری، مواقع کی کمی، غربت اور ادارہ جاتی تعصب بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ تو کامیابی یا ناکامی کی ساری ذمہ دارمحض فرد کی عادتوں اور عمل پر کیسے ڈالی جاسکتی ہے؟ جب راقم نے یہ سوال خود سے پوچھا تو فکرستان کی میموری چِپ میں محفوظ ایک لکیر پر کرنٹ دوڑا۔ صاف سنائی دیا کہ’’انسان کیلئے وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی!‘‘ یعنی بہر حال کوشش شرط ہے۔ اسٹیفن کووے کہیں دعویٰ نہیں کرتا کہ فرد کی محنت ہی سب کچھ ہے اور معاشرتی رکاوٹیں غیر اہم۔ باہر کی دنیا کو ہم مکمل بدل نہیں سکتے، لیکن اپنی اندرونی قوتوں کو پہچان کر ایک چھوٹے دائرے میں تبدیلی کی ابتدا تو کرہی سکتے ہیں۔ اپنے ردِعمل کو بدلنے کی سعی ضرور کر سکتے ہیں۔
کووے نے مغربی سیلف ہیلپ اور علم انتظامیہ میں ایک اخلاقی زاویئے کو متعارف کروایا۔ کووے کا شمار اُن مفکرین میں ہوتا ہے جنہوں نے خودی، کردارسازی، قیادت اور وقت کے نظم و ضبط جیسے موضوعات پر نئی جہتیں متعارف کرائیں۔ ان کا خیال تھا کہ کامیابی محض ظاہری چالوں یا چالاکیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ انسان کی اندرونی صفات، اصولوں پر مبنی زندگی اور مثبت عادات سے جڑی ہوتی ہے۔ انہوں نے قیادت کو اختیار یا طاقت کے بجائے خدمت، اعتماد اور بصیرت کا نام دیا۔ حقیقی تبدیلی باہر سے نہیں بلکہ اندر سے شروع ہوتی ہے۔ کووے نے Inside-Out یعنی ـ’باطنی سے ظاہری تبدیلی‘ کا تصور پیش کیا۔
اگرچہ یہ کتاب ہر مسئلے کا حل نہیں دیتی لیکن خود احتسابی اور عملیت پسندی کی ترغیب دیتی ہے۔ کتاب بہت سے لوگوں کیلئے عملی طور پر فائدہ مند ثابت ہوئی۔ راقم الحروف بھی ان میں سے ایک ہے۔