Inquilab Logo

جذبۂ شاہین باغ کو ہر گھر اور ہر خاتون تک پہنچانے کی ضرورت ہے

Updated: March 08, 2020, 5:09 PM IST | Raeesa Munawwar / Saaima Shaikh

شہریت ترمیمی قانون ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۹ء کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظورکیاگیا تھا۔ اس قانون کے مضمرات سے پیدا شدہ اندیشوں کی وجہ سے ملکی سطح پر اس کے خلاف احتجاج فطری تھا لیکن سب سے توانا آواز ثابت ہوئی شاہین باغ کی۔ ۱۵؍دسمبر کو خواتین کے ایک گروپ نے نئی دہلی کے شاہین باغ علاقے میں دھرنا دیا جو آج تک جاری ہے۔

Inquilab Womens Day Special - Pic : Inquilab, Nimesh Dave
یوم خواتین کی مناسبت سے خصوصی پیشکش ۔ تصویر : انقلاب، نمیش دَوے

شہریت ترمیمی قانون ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۹ء کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظورکیاگیا تھا۔ اس قانون کے مضمرات سے پیدا شدہ اندیشوں کی وجہ سے ملکی سطح پر اس کے خلاف احتجاج  فطری تھا لیکن سب سے توانا آواز ثابت ہوئی شاہین باغ کی۔ ۱۵؍دسمبر کو خواتین کے ایک گروپ نے نئی دہلی کے شاہین باغ علاقے میں دھرنا دیا جو آج تک جاری ہے۔ اس ایک شاہین باغ سے ملک میں کئی شاہین باغ پیدا ہوئے  اور ہر شاہین باغ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں خواتین احتجاج کررہی ہیں جن میں مسلم غیر مسلم سب ہیں۔ یہ ایک بے حد خوش آئند منظرنامہ ہے کہ خواتین اپنے  ہی نہیں  بلکہ پورے ملک کے اُن طبقات کیلئے اتنی بڑی قربانی دے رہی ہیں جو اس قانون کی زد میں آئینگے۔ آج  ۸؍مارچ (عالمی یوم ِ خواتین) کی مناسبت سے انقلاب نے مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی چند خواتین سے ’’شاہین باغات‘‘ پر ان کے تاثرات، آئندہ زندگی میں جذبۂ شاہین باغ کو جاری رکھنے کی ضرورت، اہل خانہ کا تعاون اور یومِ خواتین  پر ان کے تاثرات جاننے کی کوشش کی :
انقلاب: ملک کے مختلف شہروں میں ’’شاہین باغ‘‘ انداز کا احتجاج جاری ہے  اور بڑی حوصلہ افزا صورتحال سامنے ہے، اس پر آپ کیا سوچتی  ہیں؟
بیگم ریحانہ احمد:کسی بھی تحریک اور اس کی کامیابی کے لئے صرف مردوں کا حصہ لینا کافی نہیں ہوتا۔ آپ آزادی سے لے کر اب تک دیکھیں، ایک طویل فہرست ہے۔ سروجنی نائیڈو نے کہا تھا کہ  ہندوستان ایک ایسی گاڑی ہے جس کا ایک پہیہ مرد اور دوسرا خواتین ہیں ۔ 
آزادی سے لے کر اب تک خواتین میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اس کا ثبوت شاہین باغ ہے جو اپنے آپ میں مثال ہے۔ 
 فرخ وارث:  شاہین باغ کی گفتگو کو میں تاریخ سے شروع کرنا چاہوں گی۔ جب رامپور کے ایک صاحب جن کا نام شارق انصار اللہ تھا، انہوں نے ۸۰؍ بیگھہ زمین خریدی تو انہوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ یہاں ایک نئی تاریخ لکھی جائے گی۔ شارق صاحب، اس جگہ کا نام نشاط باغ رکھنا چاہتے تھے لیکن چونکہ علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے  چنانچہ انہوں نے علامہ اقبال کے ’شاہین‘ سے متاثر ہوکر اس جگہ کا نام شاہین باغ رکھا تھا۔ شہرت ترمیمی قانون کی وجہ سے آج شاہین باغ  عالمی سطح پر مشہور ہے۔ غالباً  خواتین بالخصوص مسلم خواتین نے اتنا بڑا احتجاج کبھی نہ کیا ہوگا۔ 
معراج میر: یہ وہ وقت ہے کہ خواتین اپنے آپ کو ثابت کر رہی ہیں۔  ہر انسان کے پاس صلاحیت ہوتی ہے مگر اکثر اوقات ہماری خواتین کی صلاحیتوں کو  نظر انداز کیا گیا ۔ ’شاہین باغ‘ کا یہ احتجاج اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اگر خواتین کو موقع دیا جائے تو وہ بھی تاریخ رقم کر سکتی ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہیں۔ 
پروفیسر امرین موگر: ہمارے مذہب نے خواتین کو بااختیار بنانے  سے نہیں روکا اور انہیں تمام حقوق فراہم کئے ہیں۔ ’شاہین باغ‘ کی خواتین نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ صرف گھر سنبھالنا ہی نہیں جانتیں بلکہ دیگر ذمہ داریاں بھی بخوبی نبھا سکتی ہیں۔ چونکہ خواتین ’ملٹی ٹاسکنگ‘ ہوتی ہیں اسلئے انہوں نے ثابت کردیا کہ اگر موقع ملے تو وہ ’شاہین باغ‘ جیسا کارنامہ ہر محاذ پر انجام دے سکتی ہیں۔ہم کو خود اپنا حق جاننا چاہئے۔ 
انقلاب: گویا آپ تسلیم کررہی ہیں کہ ’’شاہین باغ‘‘ صرف احتجاج نہیں، خواتین کی حوصلہ مندی اور حالات سے لوہا لینے کی وہ صلاحیت ہے جو اُن میں موجود رہتی ہے، وہ صرف ’’شاہین باغ‘‘ کی وجہ سے نہیں ہے۔ کیا آپ اس حوصلہ مندی اور حالات سے لوہا لینے کی صلاحیت کی چند مثالیں پیش کرسکتی ہیں؟
بیگم ریحانہ احمد:  ایسی ایک نہیں بے شمار مثالیں آپ کو مل جائیں گی ۔ تاریخ  دیکھئے جہاں رضیہ سلطانہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ رضیہ کے والد نے  بیٹوں کے باوجود بیٹی کو صرف اس لئے تخت پر بٹھایا کہ اس میں تخت پر بیٹھنے کی صلاحیت تھی۔ اہلیہ بائی ہولکر دوسری مثال ہے۔ انہوں نے بھی بہادری کا ثبوت دیا ہے۔ جھانسی کی رانی کو کون بھول سکتا ہے ۔ ایسی کئی مثالیں ہماری تاریخ پیش کرتی ہے۔ ان میں ساوتری بائی پھلے، فاطمہ بی بی ،  چاند بی بی، بی امّاں جیسے نام بھی شامل کرلیجئے۔
فرخ وارث: ’شاہین باغ‘ میں جو مائیں، بہنیں، دادیاں اور نانیاں بیٹھی ہیں وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کیلئے اس احتجاج میں شامل ہیں۔ مذکورہ ناموں کی فہرست میں ایک نام شیخ عبداللہ کی اہلیہ کا جوڑنا چاہوں گی۔ انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کافی جدوجہد کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرسید نے تعلیم کے لئے انقلابی جدوجہد کی لیکن اسی جگہ پر لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کوشش کرنے والی شیخ عبداللہ کی اہلیہ تھیں۔  ایسے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے۔
 انقلاب: ’’شاہین باغ‘‘ سی اے اے اور این آر سی وغیرہ کے تنازع تک ہے۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ یہ جذبہ سرد نہ ہو اور آئندہ بھی برقرار رہے؟
بیگم ریحانہ احمد: مجھے نہیں لگتا کہ یہ جذبہ سرد ہونے والا ہے کیونکہ میں دیکھ رہی ہوں کہ جس طرح  ہر شہر میں  اس تحریک کو فروغ مل رہا ہے وہ قابل ذکر ہے۔ یہاں میں مسلم خواتین کی بات کروں گی۔ پہلے وہ بہت دبی ہوئی رہتی تھیں، لیکن آج کیا ہو رہا ہے؟ یہ کہ مسلم خواتین حجاب میں رہتے ہوئے تعلیم میں بھی آگے بڑھ رہی ہیں۔ حال ہی میں ’شاہین باغ‘ کی چند باحجاب خواتین ٹی وی پر جس طرح پُراعتماد ہوکر بات چیت کررہی تھیں وہ ایسے ہی نہیں تھا۔ اس دوران  انہوں نے کوئی غیر ضروری بات نہیں کی ۔ انہیں قانون کی بھی اچھی معلومات تھی۔ مَیں کئی ممالک کے دورے کرچکی ہوں اور کرتی رہتی ہوں ۔ میں نے وہاں باحجاب مسلم خواتین کو  اہم مناصب پر فائز  دیکھا ہے۔ آج ہمارے ملک میں بھی ایسی خواتین نظر آرہی ہیں ۔ دیکھا جائے تو خواتین ’چینج میکر‘ ہیں۔ اس لحاظ سے مجھے نہیں لگتا کہ یہ (شاہین باغ کا) جذبہ سرد ہوسکتا ہے۔
فرخ وارث: ’شاہین باغ‘ کی تحریک دہلی سے شروع ہوئی اور ملک کے ہر شہر تک پہنچ گئی۔ ممبئی اور دہلی  بڑے شہر ہیں اس لئے عام طور سے شناخت کا مسئلہ نہیں ہوتا لیکن چھوٹے شہروں میں لوگ فوراً کہہ دیتے ہیں کہ یہ فلاں صاحب کی بیٹی ہے یا فلاں کی بہن ہے ۔ پہلے اس طرح کی باتیں بہت معیوب سمجھی جاتی تھیں ، لیکن آج حالات بدل گئے ہیں ۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں یہ جذبہ پہنچ گیا ہے ۔ بقول کسے ’ہمیں اپنے شیشے کے گھروں  سے نکلنا ہے۔ ‘ اور آپ  دیکھ رہی ہیں کہ خواتین نکل رہی ہیں۔ 
معراج میر:  جذبۂ  شاہین باغ ختم نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمیں خواتین میں مزید بیداری لانے کی ضرورت کو سمجھنا چاہئے۔ آج بھی کئی غیرتعلیم یافتہ خواتین اس احتجاج سے متعلق نہیں جانتیں مگر ان میں تجسّس ہے۔  مَیں ممبرا کے ’شاہین باغ‘ جاتی ہوں ،وہاں کی کئی خواتین مجھ سے پوچھتی ہے کہ آخر یہ ’سیاہ قانون‘ کیا ہے؟ اس کے بارے میں بتایئے۔ وغیرہ۔ اس وقت یہ بہت ضروری ہے کہ ہماری خواتین میں اس تعلق سے معلومات میں اضافہ  ہو اور اُن میں بیداری جیسی بیداری آئے۔
پروفیسر امرین موگر: یہ بالکل صحیح ہے، خواتین میں جاننے کی لگن ہے ۔  چنانچہ ان کی بہتر  رہنمائی کی جانی چاہئے۔ 
انقلاب: اگر یہ ممکن ہے اور ضروری بھی ہے تو بتائیے کہ ’’شاہین باغ‘‘ کے جذبے اور اسپرٹ کو کس طرح آگے لے جایا سکتا ہے تاکہ ہماری قوم سماجی، تعلیمی اور معاشی میدانوں میں اس جذبے کو بروئے کار لاسکے؟
معراج میر: مَیں کہوں گی کہ سب سے پہلے اُنہیں (خواتین کو) بدلے ہوئے دور میں اُن کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرایا جائے۔ شہروں میں تو کچھ حد تک بیداری ہے مگر دیہاتوں اور قصبوں میں اس کی کمی ہے۔ جب ہم ان سے ملتے ہیں تو وہ اپنے دل کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو شیئر کرتی ہیں۔ انہیں اپنے وجود کی لڑائی کے بارے میں بتانا ہوگا، اپنی پہچان کے لئے بیدار کرنا ہوگا۔
پروفیسر امرین موگر: ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ وہ بیٹیوں کی شادی کیلئے تو اس کی پیدائش سے ہی پیسے اکٹھے کرنے لگتے ہیں مگر والدین ان کی تعلیم پر خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ حالانکہ یہ سمجھنا ضروری  ہے کہ آپ بیٹی کو بہترین تحفہ، تعلیم ہی کی شکل میں دے سکتے ہیں۔ 
انقلاب: ریحانہ صاحبہ، آپ گرلز بورڈ، انجمن اسلام کی چیئر پرسن ہیں۔ یہ بتایئے کہ ’شاہین باغ‘ کے جذے کو اور لڑکیوں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لئے کیا عملی قدم اُٹھایا جاسکتا ہے؟
بیگم ریحانہ احمد: سماج کی باشعور خواتین کو لڑکیوں کے ہر اسکول سے رابطہ بڑھانا چاہئے۔ اس سے پہلے وہاں کے اساتذہ کو بتانا چاہئے کہ کیسے ’شاہین باغ‘ کے جذبے کو آگے بڑھائیں اور کس طرح اس کو برقرار رکھا جائے۔ تب جاکر وہ اپنے طلبہ کو اس سے متعلق آگاہ کر سکتے ہیں۔ صرف اسکول میں ہی نہیں بلکہ گھروں میں جو دعوتیں وغیرہ  ہوتی ہیں  وہاں بھی اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ خاندان کی خواتین کو بتایا جائے کہ ’شاہین باغ‘ کیا ہے، یہ کس رجحان کی علامت ہے ۔
فرخ وارث: سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ’شاہین باغ‘ نے ہمیں کیا سکھایا۔ ’شاہین باغ‘ نے ہمیں اپنی پہچان بتائی، بتایا کہ خواتین کیلئے کوئی راہ مسدود نہیں، وہ چاہیں تو اپنی الگ پہچان بنا سکتی ہیں۔
پروفیسر امرین موگر: مَیں نے ایک مثبت تبدیلی دیکھی ہے۔ میرے گھر کے سامنے والے فلیٹ میں اجتماع ہو رہا تھا۔ اجتماع ہونے کے بعد خواتین ’شاہین باغ‘ پر گفتگو ہوئی، خواتین آپس میں بھی اسی موضوع پر  باتیں کر رہی تھیں۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے بارے میں بات چیت یہاں کیسے ہو رہی ہے۔ مَیں ان کے پاس گئی اور ان سے کہا کہ آپ کے پاس جب بھی اس طرح کے کسی پروگرام وغیرہ کی معلومات آئے یا جانا ہو تو ہمیں ضرور اپنے ساتھ لے جائیں۔ تب آزاد میدان میں جو پروگرام ہوا، اس میں وہ شریک ہوئیں۔ اسی طرح دیگر پروگراموں میں بھی شامل ہوئیں۔ یہاں تک کہ مَیں جہاں جہاں جاتی ہوں کہ احتجاج ہونے والا ہے، وہ وہاں پہنچ جاتی ہیں۔ کالج کی کئی طالبات مجھ سے پوچھتی ہیں کہ مس ہمیں بتایئے کہ ہم کس طرح آگے بڑھیں، ہمیں اس احتجاج سے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں ہے (یہ ابتدائی دنوں کی کیفیت تھی) تاہم اس سے محسوس ہوا کہ بیداری آرہی ہے اور ایسے حالات میں اگر جذبۂ شاہین باغ کو عام کیا گیا تو اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔
انقلاب: شاہین باغ میں خواتین کا مجمع یہ سمجھاتا ہے کہ ان خواتین کے اہل خانہ بالخصوص شوہر بھرپور تعاون دے رہے ہیں۔ یہ تعاون روزمرہ کی زندگی میں کتنا ضرو ری ہے؟
بیگم ریحانہ احمد: آپ نے صحیح کہا، ’شاہین باغ‘کی عورتوں کو احتجاج میں شامل ہونے کیلئے خود ان کے شوہروں نے اجازت دی ہے کیونکہ آج حالات ہی ایسے ہیں، یہ انتہائی ضروری ہوگیا تھا۔ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر عوام کے لئے ٹھیک نہیں چنانچہ ہر کوئی پریشان ہے۔ لوگوں کے پاس ملازمت نہیں ہے اور بھی کئی مسائل ہیں ۔ ایسا نہیں کہ اس احتجاج میں خواتین تنہا ہیں، مَردوں کا انہیں پورا تعاون حاصل ہے  اور مجھے یقین ہے یہ تعاون آگے کی زندگی میں بھی ملتا رہے گا۔ یقیناً مرد حضرات اپنی بیٹی، بہن، ماں اور بیوی کو اتنی جازت ضرور دیں گے  کہ وہ کسی اہم مقصد کے تحت اپنی آواز بلند کریں۔
فرخ وارث: جہاں تک شوہر کی اجازت کی بات ہے ،   صرف شوہر ہی نہیں بلکہ گھر میں موجود بڑوں کو بھی بتانا ضروری  ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ آپ غیر ضروری طور پر بے باک ہوجائیں۔ رشتوں کے تقدس کو محسوس کرتے ہوئے اجازت طلب کریں۔ یاد رہے کہ اجازت مانگنے اور اطلاع دینے میں فرق  ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جے این یو میں عائشہ اور لدینا نے سی اے اے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ دونوں شادی شدہ ہیں۔ عائشہ نے اپنے دوست کی حفاظت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اپنے چہیتے دوست کی حفاظت کر رہی ہوں۔ یقیناً اس پر ان کے گھر والوں نے ان کا تعاون کیا۔ اس طرح کی سمجھ ہونی چاہئے۔ ’شاہین باغ‘ نے ہمیں مختلف راہیں دکھائی ہیں۔ اپنے حق کی لڑائی لڑنا سکھایا ہے۔ رشتہ نبھانا سکھایا ہے۔ قربانی دینا سکھایا ہے ۔گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ قومی ذمہ داریوں کو انجام دینے کی تعلیم دی ہے۔ 
پروفیسر امرین موگر: ایسا ہے کہ ہماری خواتین کو اجازت طلب کرنے کی عادت ہوتی ہے جو ہمارا معاشرتی طریقہ ہے۔ کبھی کبھی اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ سے کبھی یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہم فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں چنانچہ اس اچھی عادت کو کمزور نہیں بننے دیاجائے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK