Inquilab Logo

شیخ عبدالقادر جیلانیؒ

Updated: November 27, 2020, 2:17 PM IST | Dr Shafaqat Ali Al Baghdadi Al Azhari

آپؒ بکثرت رونے اور اللہ سے نہایت درجہ ڈرنے والے تھے۔ احکام الٰہی کی نافرمانی کے تعلق سے بڑے سخت گیر تھے لیکن اپنے اور غیر اللہ کیلئے کبھی غصہ نہ فرماتے، توفیق خداوندی آپ کی رہنما اور تائید ایزدی معاون تھی، علم نے آپ کو مہذب اور قرب نے مؤدب بنایا، خطابِ الٰہی آپ کا مشیر اور ملاحظہ خداوندی آپ کا سفیر تھا، انسیت ساتھی اور خندہ روئی صفت تھی، سچائی آپ کا وظیفہ، فتوحات آپ کا سرمایہ، بردباری آپ کا فن، یاد الٰہی آپ کا وزیر، غور وفکر مونس اور مکاشفہ غذا تھا۔

Baghdad Sharif
بغداد شریف

اخلاق حسنہ اوراوصاف جمیلہ کا شمار  انسانی معاشرے کی مضبوطی اور بقاء کی بنیادی اقدار میں ہوتا ہے۔ جس معاشرے کے افراد اخلاق حسنہ کے اوصاف اور خوبیوں سے مزین ہوتے ہیں وہ معاشرہ بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ اسلام جس ضابطہ اخلاق کی بات کرتا ہے وہ دنیا کے تمام ضابطوں سے بہترین اور اکمل ہے۔ علاوہ ازیں اخلاق حسنہ دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ باب الہامی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء و مرسلین نے اصلاح معاشرہ کے لئے اخلاق حسنہ کی تکمیل پرزور دیا اور خاتم المرسلین نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کو قرآن کریم نے خلق عظیم سے تعبیر فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور بے شک آپؐ  عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔‘‘ (القلم:۴)
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے کسی نے ایک دن پوچھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے ؟ توآپؓ نے جواب دیا:
’’کیا تم نے قرآن پاک نہیں پڑھا؟‘‘(رواہ مسلم)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے اثرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقدس نفوس پر جب ظاہر ہوئے تو کوئی صداقت میں امام بن گیا، کوئی عدل و انصاف کا علمبردار ٹھہرا، کسی نے حضور کی ذات سے عکس سخاوت کی خیرات پائی اور کوئی شجاعت و بہادری کی مثال بن کر سامنے آیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیماتِ اخلاق حسنہ صحابہ کے ذریعے آنے والے زمانہ تک پھیلتی چلی گئیں اور جمیع تابعین، اتباع التابعین، سلف صالحین، آئمہ و مجتہدین اور اولیائے کاملین نے اپنے اپنے زمانہ میں فیض حاصل کیا۔ بعدازاں اسی فیضِ اخلاق حسنہ کو عام کرتے ہوئے اولیائے کرام نے لوگوں کی زندگیوں میں روحانی، علمی، فکری، تربیتی و اخلاقی انقلاب برپا کیا اور افراد معاشرہ کے ظاہری و باطنی اخلاق کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ذیل میں ہم تمام اولیاء کے سردار امام الاولیاءحضرت عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اخلاق حسنہ کا تذکرہ کریں گے۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ  کاشمار نامور اولیاء اللہ میں ہوتا ہے۔ آپؒ کاتعلق سادات گھرانے سے ہے۔ آپؒ حسنی وحسینی سید ہیں۔ آپؒ کا سلسلہ نسب والدماجدکی طرف سے حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ ؓ اوروالدہ ماجدہ کی طرف سے حضرت سیدناامام حسینؓ سے ملتاہے۔ 
آپؒ عالی مرتبت، جلیل القدر، وسیع العلم ہونے اور شان و شوکت کے باوجود ضعیفوں میں بیٹھتے، فقیروں کے ساتھ تواضع سے پیش آتے، بڑوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت فرماتے، سلام کرنے میں پہل کرتے اور طالب علموں اور مہمانوں کے ساتھ دیر تک بیٹھتے، بلکہ شاگردوں کی لغزشوں اور گستاخیوں سے درگزر فرماتے، اپنے مہمان اور ہمنشین سے دوسروں کی نسبت انتہائی خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے، آپ کبھی نافرمانوں، سرکشوں، ظالموں اور مالداروں کیلئے کھڑے نہ ہوتے نہ کبھی کسی وزیر و حاکم کے دروازے پر جاتے، الغرض مشائخِ وقت میں سے کوئی بھی حسنِ خلق، وسعت قلب، کرمِ نفس، مہربانی اور عہد کی نگہداشت میں آپ کی برابری نہیں کر سکتا تھا۔ آپؒ علم و عرفان کا مینار تھے جس کا اعتراف آپ کے معاصر اور متاخر علماء نے کیا۔ عجز و انکساری آپ کا وصف اور حق گوئی آپ کا خاصہ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر آپ کا شیوہ تھا۔ بسیار گوئی سے پرہیز کرتے تھے۔ غریبوں سے شفقت اور مریضوں کی عیادت آپ کا وطیرہ تھا۔ آپؒ سخاوت کا مجسمہ اور پیکر عفو و کرم تھے۔ نہایت رقیق القلب اور شرم و حیا میں اپنی مثال آپ تھے۔ وسیع القلب، کریم النفس، مہربان، وعدوں کے پاسدار، خوش گفتار اورخوش اطوار تھے۔ آپ بہت غریب پرور اور مساکین کی مدد کرنے والے تھے۔
آپؒ نے اخلاق حسنہ کے بارے میں اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت فرمائی اورفرمایا اے بیٹے میں تمہیں یہ وصیت کرتا ہوں اسے ہمیشہ یاد رکھنا:
’’اغنیاء کے ساتھ تم بھی بطور ایک غنی اور پروقار بن کر رہنا جبکہ فقراء کے ساتھ عاجزی اور تواضع سے رہنا۔مخلوق میں سے خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ نزدیک وہ شخص ہے جو اخلاق میں سب سے زیادہ عمدہ اخلاق کا مالک ہے۔ فقراء کی خدمت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ فقراء کے معاملہ میں تین چیزوں کی پابندی لازمی ہے: تواضع و انکساری، حسن آداب اور سخاوت نفس۔ اپنی حاجتوں کو کسی شخص کے سامنے نہ رکھنا، چاہے اس کے اور تمہارے بیچ محبت، مودت اور قرابت و دوستی کا تعلق ہی کیوں نہ ہو۔
تمام اعمال میں سب سے زیادہ افضل عمل ایسی چیز میں التفات سے بچنا ہے جو خدا تعالیٰ کو اذیت دے یعنی اس کی ناراضگی کا سبب بنے۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ  کے اخلاق حسنہ اور اوصاف عظیمہ کے نمایاں پہلو یوں تو بہت ہیں مگر یہاں ان میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے:
عفوو درگزر:حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ عفوو درگزر اور محبت و شفقت میں اپنی مثال آپ تھے۔آپ کی مجلس میں حاضر ہونے والا یہی سمجھتا کہ آپ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ میری عزت افزائی کی جاتی ہے۔ آپ اپنے احباب کی خطاؤں سے درگزر فرماتے اور جو شخص قسم کھا کر کچھ عرض کرتا اس کی بات تسلیم کر لیتے اور اپنے علم کا اظہار نہ فرماتے۔
جس زمانے میں آپ مدرسہ نظامیہ میں پڑھاتے تھے اس دور میں خصوصی طور پر آپ نے طلبہ کی غلطیوں کو در گزر فرمایا، کسی پر ظلم ہوتا دیکھتے تو آپ کو جلال آجاتا مگر اپنے معاملے میں کبھی غصہ نہ آتا، اگر بتقاضائے بشری غصہ آجاتا تو خدا تم پر رحم کرے سے زیادہ کچھ نہ فرماتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے اگر برائی کا بدلہ برائی سے دیا جائے تو یہ دنیا خونخوار درندوں کا گھر بن جائے۔
غریب پروری:حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کا فیض تھا کہ سیدالاولیاء حضرت شیخ عبدا لقادر جیلانیؒ ہمیشہ حاجت رواؤں کی حاجت روائی فرماتے تھے۔ آپ بہت رقیق القلب اور غریبوں، مسکینوں کے لئے سراپا رحمت تھے، فقراء سے بے حد محبت فرماتے، انہیں اپنے ساتھ بٹھاتے، کھانا کھلاتے اور ان کی جو بھی خدمت بن آتی کرتے۔ کسی شخص کو تکلیف اور دکھ میں مبتلا نہیں دیکھ سکتے تھے۔
خدمت خلق: سخی اللہ کا دوست اور سخاوت مومنین کی علامت ہے۔ ولی اللہ کبھی بخیل و کنجوس نہیں ہوتا۔آپؒ نے ہمیشہ مخلوقِ خدا کی بھلائی کی، اپنے پاس آنے والوں کی راہِ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی، بے شمار مخلوقِ خدا کو دعاؤں کے ذریعہ نجات کے راستے پر گامزن کیا، اگر کوئی پریشان حال آیا تو اس کی بات سُن کر ہر ممکن مدد کی۔
روایت ہے کہ آپؒ کی خدمت میں ایک تاجر نے آکر عرض کیا کہ میرے پاس ایسا مال ہے جو زکوٰۃ کا نہیں اور میں اسے فقراء و مساکین پر خرچ کرنا چاہتاہوں لیکن مستحق و غیر مستحق کو نہیں پہچانتا، آپ جس کو مستحق سمجھیں عطا فرما دیں۔ آپ نے جواب دیا کہ مستحق و غیر مستحق میں سے جس کو چاہو دے دو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ چیزیں دے جس کے تم مستحق ہو اور وہ چیزیں بھی عطا کرے جس کے تم مستحق نہیں ہو۔
ایثار و سخاوت: آپؒ کا دل ہر قسم کے دنیاوی لالچ سے بے نیاز تھا۔ فیاضی کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ نے تجارت کا پیشہ بھی اپنا رکھا تھا اور اس سے جو آمدنی ہوتی تھی اس سے اللہ کے غریب بندوں کی امداد کیا کرتے تھے۔ آپ کے جلیل القدر معاصر حضرت شیخ معمر جرارہ فرماتے ہیں: شیخ عبد القادرؒ جیسا فراخ دل، پابند عہد، باوفا اور بامروت انسان میری نظروں سے نہیں گزرا۔ وہ اپنی عظمتِ روحانی اور فضیلتِ علمی کے باوجود بہت ہی متواضع تھے۔
قول و فعل کی ہم آہنگی: قول و فعل میں ہم آہنگی اور مطابقت انسان کے دیانتدار اور سچا ہونے کی پائیدار علامت ہے۔ ایک داعی اور مربی کیلئے  ضروری ہے کہ اس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو ورنہ ارادت مندوں میں شیخ کی بات کا کماحقہ اثر نہیں ہوتا۔ آپؒ کے قول فعل میں مطابقت اس قدر تھی کہ ایک مرتبہ مدرسہ نظامیہ میں مسئلہ قضاء و قدر پر گفتگو فرما رہے تھے، اتنے میں چھت سے ایک بڑا سانپ آپ کی گود میں گرا اور آپ کے کپڑوں میں داخل ہو کر گردن کے گرد لپٹ گیا۔  حاضرین دم بخود رہ گئے، خوف کے آثار سب کے چہروں پر نمایاں تھے مگر آپ پرسکون رہے۔ آپؒ نے نہ تو سلسلہ کلام قطع کیا اور نہ ہی پہلو بدلا۔ سانپ اچانک آپ سے علاحدہ ہو گیا اور دُم کے بل کھڑا ہو کر کچھ بات کی اور چلا گیا۔ حاضرین مجلس نے پوچھا حضرت یہ کیا ماجرا تھا۔ تو آپؒ نے فرمایا اس نے مجھ سے کہا:
میں نے متعدد بار اولیائے کرام کو اس طرح آزمایا مگر کوئی بھی آپ کی طرح ثابت قدم نہ رہا۔ تو میں نے جواب دیا کہ میں قضاء و قدر کے موضوع پر تقریر کر رہا تھا اور تو ایک معمولی کیڑا ہے جسے قضاء و قدر حرکت و سکون میں لاتی ہے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے قول و فعل میں تضاد پایا جائے۔
عبدالقادر جیلانی مشائخ کی نظر میں:
  بعض مشائخ نے اس طرح وصف بیان فرمایا ہے کہ آپ بکثرت رونے والے اور  اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے۔ نیک اخلاق تھے، بدگوئی سے دور بھاگنے والے اور حق کے سب سے زیادہ قریب تھے، احکام الٰہی کی نافرمانی کے تعلق سے  بڑے سخت گیر تھے لیکن اپنے اور غیر اللہ کیلئے کبھی غصہ نہ فرماتے، توفیق خداوندی آپ کی رہنما اور تائید ایزدی آپ کی معاون تھی، علم نے آپ کو مہذب بنایا، قرب نے آپ کو مؤدب بنایا، خطابِ الٰہی آپ کا مشیر اور ملاحظہ خداوندی آپ کا سفیر تھا۔ انسیت آپ کی ساتھی اور خندہ روئی آپ کی صفت تھی۔ سچائی آپ کا وظیفہ، فتوحات آپ کا سرمایہ، بردباری آپ کا فن، یاد الٰہی آپ کا وزیر، غور وفکر آپ کا مونس، مکاشفہ آپ کی غذا اور مشاہدہ آپ کی شفاء تھے۔ آداب شریعت آپ کا ظاہر اور اوصاف حقیقت آپ کا باطن تھا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں آپ کے طریق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اخلاق حسنہ سے ہمارے دامن کو مزین فرمائے۔ آمین
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخانؒ نے آپؒ کے حضور یوں نذرانہ عقیدت پیش کیا 
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا ترا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم ہے اعلا ترا
کیوں نہ قاسم ہو کہ تو ابن ابی القاسم ہے
کیوں نہ قادر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK