Inquilab Logo

بنگلہ دیش کا یک طرفہ پارلیمانی انتخاب

Updated: January 08, 2024, 1:29 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پارلیمانی انتخاب کیلئے گزشتہ روز پولنگ ہوئی مگر اتنی کم کہ رائے دہندگان کا صرف ایک طبقہ پولنگ مراکز تک پہنچا۔ موصولہ خبروں کے مطابق پولنگ ختم ہونے کے ایک گھنٹہ پہلے تک صرف ۲۷؍ فیصد رائے دہندگان نے اپنے جمہوری حق کا استعمال کیا تھا۔ خیال کیا جارہا ہے کہ آخری گھنٹے کی پولنگ کے بعد یہ فیصد ۴۰؍ تک پہنچ جائیگا۔

A scene from the election in Bangladesh. Photo: INN
بنگلہ دیش میں الیکشن کا ایک منظر ۔تصویر : آئی این این

پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں  پارلیمانی انتخاب کیلئے گزشتہ روز پولنگ ہوئی مگر اتنی کم کہ رائے دہندگان کا صرف ایک طبقہ پولنگ مراکز تک پہنچا۔ موصولہ خبروں  کے مطابق پولنگ ختم ہونے کے ایک گھنٹہ پہلے تک صرف ۲۷؍ فیصد رائے دہندگان نے اپنے جمہوری حق کا استعمال کیا تھا۔ خیال کیا جارہا ہے کہ آخری گھنٹے کی پولنگ کے بعد یہ فیصد ۴۰؍ تک پہنچ جائیگا۔ 
 جس وقت یہ سطریں  لکھی جارہی ہیں  حتمی اعدادوشمار منظر عام پر نہیں  آئے ہیں  جن سے منکشف ہو کہ فیصد ۴۰؍ تک پہنچا یا نہیں ۔ اگر ایسا ہوا تب بھی عوام کی عدم دلچسپی کی توثیق ہی ہوگی کیونکہ سابقہ پارلیمانی انتخابات میں  ۸۰؍ فیصد رائے دہندگان پولنگ بوتھوں  تک پہنچے تھے، کل عالم یہ تھا کہ پولنگ بوتھوں  پر بھیڑ بالکل نہیں  تھی، پولنگ پر مامورعملہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا تھا۔ اس سلسلے کی موصولہ تصاویر بنگلہ دیش میں  جمہوریت کا المناک منظرنامہ پیش کررہی تھیں ۔
  بلاشبہ یہ صورتحال اپوزیشن پارٹیوں  کے بائیکاٹ کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے مگر اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ رائے دہندگان کی بڑی تعداد حکمراں  جماعت کے ساتھ نہیں  ہے ورنہ پولنگ اتنی کم نہ ہوتی۔ اگر اُتنے ہی رائے دہندگان اپنی رائے درج کرانے کیلئے پولنگ بوتھوں  تک پہنچتے جتنے سابقہ الیکشن میں  پہنچے تھے تو انتخابی منظر نامہ کچھ اور ہوتا۔ فی الحال اس ضمن میں  اُن غیر ملکی مشاہدین کی رائے کا انتظار کرنا چاہئے جو انتخابی عمل کے مشاہدے کے مقصد سے بنگلہ دیش میں  خیمہ زن ہیں ۔بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ چاہتیں  تو اس انتخاب کو دو طرفہ اور سہ طرفہ بنانے کی کوشش کرسکتی تھیں  کہ صحتمند جمہوریت نہ ہو تو اقتدار کی معنویت ختم ہوجاتی ہے۔ اُن پر لازم تھا کہ وہ اپوزیشن پارٹیوں  کو اعتماد دِلاتیں  کہ آپ کوانتخابات کے غیر جانبدارانہ اور شفاف نہ ہونے کا شک ہے تو اسے دل سے نکال دیجئے،الیکشن ویسا ہی ہوگا جیسا کہ الیکشن کو ہونا چاہئے۔ مگر شیخ حسینہ نے اس فراخدلی کا مظاہرہ نہیں  کیا۔ ایسا کرنا تو دور کی بات، اُن کی حکومت نے مخالف پارٹیوں  کے سیاستدانوں  اور اُن کے حامیوں  کو بڑی تعداد میں  گرفتار کرکے شاید وہی کیا جو وہ چاہتی تھیں  کہ الیکشن تو ہو مگر اُس میں  اپوزیشن نہ ہو، یکطرفہ طریقے سے ہی سہی، وہ جیت جائیں  اور لگاتار چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ کا حلف لیں ۔ اُنہیں  جمہوریت کی فکر ہے یا اپنے اقتدار کی اس کا اندازہ گزشتہ روز جاری ہونے والے اُس بیان سے ہوتا ہے جس میں  اُنہوں  نے کہا کہ اُنہیں  عالمی ذرائع ابلاغ کے ردعمل کی فکر نہیں  ہے کیونکہ اُن کیلئے ملک کے عوام کی رائے اہمیت رکھتی ہے۔ بقول حسینہ ’’میں  یہ دیکھنا چاہتی ہوں  کہ ملک کے عوام اسے قبول کرتے ہیں  یا نہیں ‘‘۔
  عالمی ذرائع ابلاغ کے ردعمل کی فکر نہ کرنے میں  کوئی مضائقہ نہیں  مگر جمہوری تقاضوں  کی فکر نہ کرنا افسوسناک ہے۔ کیا وہ آج بھی اپنے بیان پر قائم رہیں  گی جب اعدادوشمار سے ثابت ہوجائیگا کہ عوام کی اکثریت نے اپوزیشن کے بائیکاٹ کا ساتھ دے کر پولنگ میں  حصہ نہیں  لیا؟
 یہ بنگلہ دیش اپوزیشن کیلئے بھی افسوسناک ہے کہ اُنہوں  نے جمہوریت کی جدوجہد کو بالائے طاق رکھ کر بائیکاٹ کی پالیسی اپنائی۔ اس طرح اُنہوں  نے لڑنے کے بجائے شیخ حسینہ کو آسانی سے جیتنے کا موقع فراہم کردیا۔ کہنے کی ضرورت نہیں  کہ جاری ووٹوں  کی گنتی کتنی معنی خیز ہے اور کتنی بے معنی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK