Inquilab Logo

خاموشی طاقت کی نہیں کمزوری کی دلیل ہوتی ہے

Updated: September 29, 2020, 12:12 PM IST | Hasan Kamal

نریندر مودی بضد ہیں کہ یہ بل کسانوں کو انصاف دیں گے، تو وہی کسان ملک بھر میں سڑکوں پراترکر ان بلوں کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ شاید مودی سرکار کے پاس اس کا بھی جواب نہیں ہے۔

Lok Sabha - Picture : PTI
لوک سبھا ۔ تصویر : پی ٹی آئی

لوک سبھا کا مانسون اجلاس کب شروع ہوا ، کب ختم ہو گیا، کسی کو خبر بھی نہیں ہوئی۔اجلاس کے اچانک بے مدت خاتمہ کی وجہ کورونا وباکا خطرہ بتائی گئی۔گویا کورونا کا خطرہ یا اس وبا کا وجود اس وقت نہیں تھا جب ملک بھر میں ’نیٹ‘ کے امتحانات ہو رہے تھے۔ اس وقت  طلبہ رو رو کر التجا کر رہے تھے کہ ان میں سے ہزاروں کو سو سو کلومیٹر  دور  سینٹروں تک جانا پڑے گا۔ اس وقت تو جسٹس ارون مشرا نے جو اب سبکدوش ہو چکے ہیں، ان التجاوں کا جواب یہ کہہ کر دیا تھا کہ امتحانات کب تک ملتوی کئے جائیں گے؟ زندگی کو رکنا نہیں چاہئے،زندگی کو تو چلتے رہنا چاہئے۔ تو اگر زندگی کو چلتے رہنا چاہئے تو لوک سبھا کے اجلاس کو بھی چلتے رہنا چاہئےتھا۔یا پھر یہ یہ مان لیا جائے کہ کابینہ کے وزیر امیت شاہ اور نتن گڈکری بھی کورونا کی لپیٹ میں آگئے تھے، اس لئے کورونا ایک قومی خطرہ بن گیا تھا۔ 
 یوں بھی جب لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں وقفہ سوالات نہ ہونے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تب ہی معلوم ہو گیا تھا کہ اجلاس صرف آئینی مجبوری کی وجہ سے بلایا جا رہا ہے۔  علاوہ ازیں  چندبل خصوصاََ زرعی بل، پاس کروانے تھے ، اس لئے اجلاس بلانا ہی تھا۔اگر کورونا اتنا ہی بڑا خطرہ ہے تو مدھیہ پردیش میں ضمنی اور بہار میں اسمبلی انتخابات کیوں برپا کئے جا رہے ہیں؟  حقیقت یہ ہے کہ مودی سرکار اچھی طرح جانتی ہے کہ سوال بے شمار ہیں اور اس کے پاس جواب ایک کا بھی نہیں ہے۔ ظاہر ہے جب یہ پوچھا جاتا کہ کورونا کے خلاف جو جنگ ۲۱؍ دنوں میں جیتی جانے والی تھی، وہ آج تک کیوں نہیں جیتی جا سکی، تو کیا جواب دیا جاتا۔یا جب یہ پوچھا جاتا کہ ملک کی معیشت جو پانچ کھرب ڈالر تک پہنچنے والی تھی، وہ آج کس مقام پر ہے تو یہ کہتے شرم آتی کہ جہاں آج ہے ، اگر وہیں  رک جائے تو   غنیمت سمجھا جائے۔ اگر کوئی یہ سوال کر لیتا کہ وزیر اعظم اب نوٹ بندی کا نام کیوں نہیں لیتے ، جسے کبھی انہوں نے ملک کی تمام بیماریوں کیلئے سنجیونی بوٹی بتایا تھا تو سر جھکالینے کے علاوہ کیا کیا جاتا۔ یا جب یہ پوچھا جاتا کہ جس جی ایس ٹی  کا اعلان   ۱۹۴۷ءمیںآدھی رات کو ہندوستان کی آزادی کے اعلان کی طرح  کیاگیا تھا،  ، وہ جی ایس ٹی آج کس حال میں ہے تو کیا جواب دیا جاتا۔ 
  وزیر داخلہ امیت شاہ نے ۴؍اگست ۲۰۱۹ء کو ایوان میں چھاتی ٹھونک کر کہا تھا کہ اقصائے چن تو ہم لے کر رہیں گے، چاہے جان چلی جائے ، کیا وزیر داخلہ آج بھی اپنے اس بیان پر قائم ہیں؟ تو کیا جواب دیا جاتا۔  جب یہ پوچھا جاتا کہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اپنے روسی ہم منصب سے  جو کروانے گئے تھے وہ ہوا یا نہیں؟ تو ایک ٹھنڈی خاموشی کے سوا کیا جواب دیا جاتا۔ جب یہ پوچھا جاتا کہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور ان کے چینی ہم منصب وانگ ای کے درمیان مذاکرات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس میں  ایل اے سی کے بجائے بارڈر ٹیریٹری کا نام کیوں  اور کس کی ایماء پر شامل کیا گیا ہے، اور کیا اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ چین نے ہمارا جو علاقہ چھین لیا ہے ، وہ اب ہمیں کبھی واپس نہیں ملے گا؟ تو کیا جواب دیا جاتا۔ جب یہ پوچھا جاتا کہ وزیر خارجہ بار بار یہ کیوں کہتے ہیں کہ معاملات کو حل کرنے کیلئے ’’بہت گہرے مذاکرات‘‘ کی ضرورت ہے۔ کیا  وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی گفتگو  سے معاملات نہیں حل ہو سکیں گے اور خود وزیر اعظم کو پہل کرنی پڑے گی۔   ایسا ہے تو وزیر اعظم پہل کیوں نہیں کرتے؟ تو کیا جواب دیا جاتا۔ جب کوئی یہ سوال کرتا کہ وزیر اعظم نے ۲۰۱۵ء میں بڑی دھوم دھام سے جو اعلان کیا تھا کہ انہوں نے ناگا لیڈروں سے گفتگو کر کے ناگا لینڈ کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے سلجھا دیا ہے، وہ مسئلہ اچانک کیوں زندہ ہو گیا؟ ایک بار پھر ناگا سوشلسٹ کونسل یہ کیوں کہہ رہی ہے کہ جب تک ناگا لینڈ کیلئے الگ آئین اور الگ جھنڈے کے مطالبات نہیں مانے جائیں گے، تب تک کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں، تو کیا جواب دیا جاتا۔  اسلئے خاموشی سے کورونا کے بہانے اجلاس ہی ختم کر دیا گیا۔ لیکن یہ  خاموشی  وہ خموشی نہیں ہے جو لاکھ بلائیں ٹالتی ہے۔ بلکہ یہ خموشی سوالوں سے بچنے کی کوشش ہے، جو طاقت کی نہیں کمزوری کی دلیل ہے۔ 
 رہی  ان  بلوں کی بات جنہیں پاس کروانے کیلئے اجلاس بلوایا گیا تھا  ، تو یہ  بل جس طرح پاس کروائے گئے ہیں ، اس نے جواب کم دیئے ہیں، سوال زیاہ کھڑے کر دیئے ہیں۔لوک سبھا میں بی جے پی کو تقریباََ دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔   وہاں یہ سمجھا جانا چاہئے کہ   کوئی بھی بل پیش ہونے سے قبل ہی پاس ہو جاتا ہے۔ لیکن راجیہ سبھا میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔ وہاں اب تک جو بل پاس ہوئے ہیں، ان کیلئے  ان پارٹیوں سے مدد لی گئی تھی ، جو این ڈی اے میں شامل نہیں ہیں، لیکن وقتاََ فوقتاََ بی جے پی کی حمایت بھی کرتی رہی ہیں۔ ان میں  وائی ایس آر کانگریس،  تلنگانہ راشٹریہ سمیتی  ، بی جے ڈی اور تمل ناڈو کی بر سر اقتدار اے آئی اے ڈی ایم کے جیسی پارٹیاں ہیں۔ لیکن زرعی بل کا تعلق کسانوں سے ہے، جو ملک کی ہر ریاست میں ایک مخصوص اہمیت کے حامل ہیں۔ اس لئےلگ رہا تھا کہ یہ   بل راجیہ سبھا میں منظور نہیں ہو  پائیں گے۔  بی جے پی کی سب سے پرانی اتحادی اکالی دل نے نہ صرف ان بلوں کی مخالفت کی تھی ، بلکہ مودی کابینہ میں شامل اکالی دل کی وزیر ہر سمرت بادل نے کابینہ سے استعفیٰ بھی دیدیا۔ علاوہ ازیں بی جے ڈی نے لوک سبھا میں تو بل کی حمایت میں ووٹ دیا تھا، لیکن جیسے ہی معلوم ہوا کہ اُدیشہ  کے کسان بھی بل کی مخالفت کر رہے ہیں ، تو اس نے راجیہ سبھا میں بل کی مخالفت کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد بل کا گر جانا لازمی تھا۔ لیکن راجیہ سبھا کے نو منتخب ڈپٹی چیئر مین ہری ونش نرائن سنگھ نے ’’صوتی ووٹ‘‘ مانگ کربل کے پاس ہونے کا اعلان کر دیا ۔جبکہ اپوزیشن نے ممبروں کی گنتی کے ذریعہ ووٹنگ کروانے کی مانگ کی، لیکن ہری ونش سنگھ نے ایک نہ سنی۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اس کے بعد اپوزیشن نے جو ہنگامہ کیا، وہ انتہائی نازیبا تھا۔ ترنمول کانگریس کے بے حد سنجیدہ اور برد بار ممبر ڈیرک برائون نے تو رول بک ہی پھاڑ دی۔ لیکن دیکھا جائے تو ہری ونش سنگھ تو پہلے ہی رول بک کی دھجیاں اڑا چکے تھے۔ رول بک میں یہ قاعدہ موجود ہے کہ اگر ایک ممبر بھی تقسیم اور گنتی پر مبنی ووٹنگ کا مطالبہ کرے تو ووٹنگ ویسے ہی کروانی لازمی ہے۔ لیکن ایسانہیں کیا گیا۔  نریندر مودی بضد ہیں کہ یہ بل کسانوں کو انصاف دیں گے، تو وہی کسان ملک بھر میں سڑکوں پراترکر ان بلوں کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ شاید مودی سرکار کے پاس اس کا بھی جواب نہیں ہے۔ کسانوں نے کہہ دیا ہے کہ وہ ان بلوں کی واپسی تک دم نہیں لیں گے۔ اس لئے یہ ممکن ہے کہ اس بل کا بھی وہی انجام ہو، جو ۲۰۱۵ء میں لینڈ ایکوائریشن بل کا ہوا تھا

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK