سرسید کی پیدائش دہلی جو اُس وقت مغل ہندوستان کا دارالسلطنت تھا،کے ایک معزز سید خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کا دادیہالی اور نانیہالی خاندان مغل دربار سے منسلک تھا۔
EPAPER
Updated: October 17, 2023, 1:06 PM IST | Dr. Muhammad Jahangir Warsi | Aligarh Muslim University, Aligarh
سرسید کی پیدائش دہلی جو اُس وقت مغل ہندوستان کا دارالسلطنت تھا،کے ایک معزز سید خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کا دادیہالی اور نانیہالی خاندان مغل دربار سے منسلک تھا۔
سرسید کی پیدائش دہلی جو اُس وقت مغل ہندوستان کا دارالسلطنت تھا،کے ایک معزز سید خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کا دادیہالی اور نانیہالی خاندان مغل دربار سے منسلک تھا۔ ان کے نانا خواجہ فریدالدین مغل بادشاہ اکبر شاہ کے د ربار میں وزارت پر فائز تھے وہیں دادا سید ہادی کو عالمگیر کے دربارمیں نہ صرف ایک بڑے منصب سے نوازا گیا بلکہ جواد علی خاں کا لقب بھی عطا کیا گیا۔ان کے والدمغل بادشاہ اکبر شاہ سے ان کے شاہزادے کے زمانے سے قربت اور آشنائی رکھتے تھے۔سرسید کی تربیت میں ان کی والدہ عزیزالنساء کاخاص ہاتھ رہا، جنہوں نے ان کی تربیت بڑے اصول و ضوابط کے ساتھ کی، ان کی ماں جدید تعلیم کی جانب رجحان رکھتی تھیں ۔ سرسید نے فارسی، عربی اوراردو کے ساتھ مذہبی تعلیم بھی حاصل کی نیز جدید مضامین ریاضی اور فلکیات کو بھی سیکھا۔سرسید کو جسمانی ورزش اور کھیل کود میں ملکہ حاصل تھا اور وہ تیراندازی اور تیراکی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔
سرسیدکی تعلیم کی ابتداء قرآن شریف سے ہوئی جو ایک خاتون استانی کے ذمہ تھی۔ سرسید اور ان کے بھائی سید محمد دونوں کی تربیت مغل رسم ورواج کے مطابق ہوئی۔انہوں نے صہبائی، رومی اور غالب کے فلسفیانہ کلام کامطالعہ بھی کیا۔ابتدا میں سرسید طبی تعلیم کی جانب بھی مائل ہوئے اور چند طبی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا لیکن جلد ہی انہوں نے طبی تعلیم کاا رادہ ترک کردیا۔ ۱۸؍ برس کی عمر میں انہوں نے اس وقت کی فارمل تعلیم کو مکمل کی، لیکن مطالعہ کے شوق نے ان کا کتابوں کے ساتھ رشتہ استوار کئے رکھا۔ ان کے والد کا انتقال ان کی کم عمری میں ہوگیا تھا،جس نے سرسید کو نہ صرف بے حد متاثر کیا بلکہ ان کو اور خاندان کو تمام تر معاشی مشکلوں سے گزرنا پڑا۔ اسی دوران بہادر شاہ ظفر کے ہاتھوں سرسید کو ان کے والد اوردادا کے پشتینی اعزازیہ لقب عارف جنگ سے نوازا گیا۔جب سرسید کے بڑے بھائی نے دہلی میں اردو کی پہلی پرنٹنگ پریس قائم کی اور اس سے اردو کا اخبار سیدالاخبار جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے سرسید کو اخبار کے مدیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز کیا تو سرسید نے مغلیہ دربار کی جانب سے پیش کیا گیا عہدہ لینے سے انکار کردیا۔
سرسید جس زمانے میں پیدا ہوئے وہ زمانہ مغلیہ سلطنت کیلئے بڑی افراتفری کازمانہ تھا ۔صوبہ داروں ، گورنروں کی روزانہ بڑھتی ہوئی بغاوتوں نے مغلیہ حکومت کی چولوں کو ہلا کررکھا تھااور وہ کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی تھی۔ یہ بغاوتیں اور بدامنی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایما پر انجام دی جارہیں تھی اور اس افراتفری نے مغلیہ سلطنت کو قلعہ کے اندر ہی محدود ر کردیا تھا۔ ان واقعات نے سرسید کو یہ احساس دلایا کہ تعلیمی صلاحیت کو اپنے آپ کو کھڑے کرنے کیلئے بروئے کار لایا جائے۔
سیاست میں دلچسپی:
۱۹۳۶ میں سرسید کے والد کا انتقال کے بعدان کا خاندان معاشی تنگی میں مبتلا ہوگیاجس نے سرسید کوصرف ۲۱؍ برس کی عمر میں ملازمت کی تلاش کیلئے مجبور کیا ۔ ابتدا میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے منسلک ہوئے ۔سرسید انگلش سول سروس کی ملازمت کے خواہاں تھے البتہ وہ اس کو جوائن نہیں کرسکتے تھے کیونکہ ا س وقت تک صرف اس منصب برطانوی شہریوں کا تقرر ہوتا تھا۔ان کی ملازمت کاآغاز آگرہ کی منصفی میں سررشتہ دار کے عہدہ سے ہوا جہاں ان کو ریکارڈ کو رکھنے اور کورٹ کے کاموں کے انتظام کی ذمہ داری عطا کی گئی۔دو سال بعد ان کی ترقی منشی کے منصب پر ہوگئی۔۱۸۵۶ ء میں سرسید کو مراداباد میں صدر الصدور کے عہدے پر ترقی دی گئی اور یہ وہ مرحلہ ہے جہاں سے انہوں نے اپنے ادبی، سماجی اور تعلیمی کاموں کی ابتداء کی۔ ایک سال بعدان کواسمال کازز کورٹ میں منصف کے منصب پر ترقی عطا کی گئی۔
کورٹ میں کام کرنے کے دوران سرسید کا واسطہ اعلیٰ عہدوں پر فائز انگریزوں سے بھی ہوا، جہاں سے ان کوبرطانوی نو آبادیاتی سیاست کے بارے میں درک و تفہیم پیدا ہوئی۔ہندوستانی بغاوت یا ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کی شروعات ۱۰؍ مئی ۱۸۵۷ء کو ہوئی اور یہ سرسید کی زندگی کا ایک ہم واقعہ ہے۔ بغاوت کے وقت وہ بجنور کی منصفی میں صدر امین کے عہدے پر تعینات تھے اور اس دوران انہوں نے بہت سے انگریزوں کی زندگیوں کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ ا ن کو محفوظ مقام تک بھی پہنچایا۔ اس بغاوت کا زیادہ اثر ہندوستان کے شمالی حصوں میں پڑا۔ یہ جنگ تقریباً ایک برس تک جاری رہی اورایک لاکھ سے زائد لوگ اس میں ہلاک ہوئے۔اس جنگ نے مسلم شہروں جیسے دہلی،آگرہ، لکھنؤ اور کانپور کو زیادہ متاثر کیا۔ طاقتور سلطنت مغلیہ جو کسی زمانے میں تمام ہندوستان پر حکمرانی کرتی تھی، اس کی چولیں ہل چکی تھیں اور حالات کچھ بہتر نہیں دکھ رہے تھے۔ سرسید جن کا ہمیشہ سے ہی مغل بادشاہوں سے واسطہ رہا تھا کو اس واقعہ نے بہت زیادہ متاثر کیا۔سلطنت مغلیہ کے اس زوال کو لوگوں نے مسلم معاشرے کی ہار اور بکھرائو کے طور پر پیش کیا۔اس جنگ میں سرسید نے چند بہت قریبی رشتہ داروں کو کھویا اوروہ ان کے لئے بہت غم زدہ تھے۔سرسید نے کسی طرح اپنی بیمار ماں کو اس تباہ کاری سے نکال کر میرٹھ منتقل کیا لیکن میرٹھ میں جلد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔
سماجی اصلاح:
سرسید کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو کہ مستقبل کے بارے میں آگاہی رکھتے تھے ۔سرسید نے مشرقی و مغربی دنیا کے درمیان خلیج کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ بڑے دوراندیش تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ آج سماجی طور پر کیا کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اورنیا کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کیلئے ہندوستانی سماج کو کس طرح کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔سرسید نے اپنی زندگی روایتوں اور جدیدیت کے درمیان میزان قائم کرنے میں وقف کردی۔
انگریزی پر زور:
سرسید نے معاشرے میں انگریزی زبان کے فروغ پرزور دیا اور یہ بتایا کہ دنیا کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں ساتھ رہنے کیلئے اس زبان کی افادیت کتنی ضروری ہے۔ان کے چند ہم عصر اس نظریہ کے مخالف تھے اور اس کو اپنی تہذیب سے منکر سمجھتے تھےلیکن سرسید نے انگریزی کی اہمیت کو سوسائٹی کی ترقی کی جانب ایک قدم بتایا۔ ان کے مطابق آج علوم و فنون کی تمام باتیں صرف انگریزی میں دستیاب ہیں ۔ گزرے زمانے میں مسلم دانشوروں نے فارسی اور یونانی زبان کو اسلئے اختیا ر کیا تھا کہ وہ اس وقت علوم وفنون کی زبان تھیں ۔ ان کا ماننا تھا کہ لوگوں کو انگریزوں کی دشمنی میں انگریزی زبان کی مخالفت نہیں کرنا چاہئے کیونکہ وہ آج کے علوم و فنون کی زبان ہے۔اور یہ ان کا صحیح نظریہ تھا کہ اس زبان کے سیکھنے میں بہت سے فائدے ہیں ۔ ان کا انگریزی پر زور کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ لوگوں کو عربی زبان سے دور کرنا چاہتے تھے بلکہ سرسید عربی زبان اور عربی تہذیب و ثقافت کے ایک بڑے مداح تھے۔انہوں نے انگریزی زبان کی صرف اسلئے وکالت کی کہ اس میں علوم وفنون کے تما م ذرائع موجو د تھے۔سرسید عملی طور پر اپنے نظریات میں بڑے پکے تھے۔