Inquilab Logo

سرسید احمد خاں کاغازی پور میں مدرسے کے قیام کا فیصلہ

Updated: October 17, 2023, 1:07 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

۱۲؍ مئی ۱۸۶۲ء کو سرسید کی تبدیلی مرادآباد سے غازی پور کو ہوگئی۔ ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ انتظام قحط کے بعد ان کو ایک بہت بڑا یتیم خانہ کھولنے کا خیال ہوا تھا اور قحط سے پہلے وہ متعدد تدبیریں ملک اور قوم کی بھلائی کی کرچکے تھے مگر بہت جلد یہ سب خیالات ان کے دل سے محو ہوگئے۔

Aligarh Muslim University. Photo: INN
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ تصویر:آئی این این

۱۲؍ مئی ۱۸۶۲ء کو سرسید کی تبدیلی مرادآباد سے غازی پور کو ہوگئی۔ ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ انتظام قحط کے بعد ان کو ایک بہت بڑا یتیم خانہ کھولنے کا خیال ہوا تھا اور قحط سے پہلے وہ متعدد تدبیریں ملک اور قوم کی بھلائی کی کرچکے تھے مگر بہت جلد یہ سب خیالات ان کے دل سے محو ہوگئے۔ ان کو پختہ یقین ہوگیا کہ جب تک ہندوستان میں عام طورپر علم کی روشنی نہ پھیلے گی اس وقت تک ہندوستانیوں کی بھلائی کی تمام تدبیریں بیکار اور فضول ہیں ۔ باوجود یہ کہ وہ غازی پور میں سرکاری کاموں کے علاوہ بہت سا وقت تبیین الکلام کی ترتیب اوراس کے چھپوانے کے اہتمام میں جونہایت سخت کام تھا صرف کرتے تھے ۔ اسی حالت میں انہوں نے ایک اور تدبیراپنے ہم وطنوں کی بھلائی کی سوچی۔ انہوں نے خیال کیا کہ ملک میں علوم جدیدہ کی عام اشاعت اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ علمی کتابیں دیسی زبان میں ترجمہ نہ کی جائیں ۔ انہوں نے اس بات کوانگریزی تعلیم کے پھیلانے سے بھی زیادہ ضروری اور مقدم سمجھا، کیونکہ مسلمان انگریزی پڑھنے کو گناہ سمجھتے تھے اور مسلمانوں کے سوا اور قوموں کیلئے بھی کوئی ایسی ترغیب نہ تھی جس سے وہ انگریزی تعلیم کی طرف مائل ہوں ۔ تمام عدالتوں میں دیسی زبان مروج تھی۔ اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں کیلئے جو اس وقت تک ہندوستانیوں کو مل سکتے تھے مشرقی زبانوں کی تعلیم کافی تھی جن اعلیٰ عہدوں کیلئے انگریزی تعلیم کی ضرورت تھی اگرچہ ملکہ معظمہ کے اشتہار میں ان کے ملنے کی ہندوستانیوں کی اُمید دلائی گئی تھی مگر ابھی تک عملی طورپر ان وعدوں کا چنداں ظہور نہ ہوا تھا۔
 سرسید کو یہ خیال ہوا کہ مسلمان جوانگریزی تعلیم سے نفرت اور وحشت کرتے ہیں اور ہندو جو انگریزی تعلیم کو محض نوکری کیلئے ضروری سمجھتے ہیں ۔ دونوں کے دل میں انگریزی تعلیم کا نقش جمانے کیلئے ضروری ہے کہ کچھ علمی اور تاریخی کتابیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرائی جائیں تاکہ مغربی لٹریچر اور مغربی علوم کی وقعت ان کے دل میں پیدا ہو۔ اس کے علاوہ ان کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ انگریزوں اور ہندوستانیوں میں میل جول اور ربط واتحاد پیدا ہوجس کا نہ ہونا انگریزوں اور ہندوستانیوں کے حق میں نہایت مضر ثابت ہوچکا تھا۔ اور یہ تمام مقصد بغیر اس کے کہ ایک علمی سوسائٹی قائم کی جائے جس کے ممبر انگریز اور ہندوستانی ہوں اور جو سائنس اور انگلش لٹریچر کی کتابیں اردو میں ترجمہ کراسکے۔ کسی طرح حاصل نہیں ہوسکتے تھے۔
 ۱۸۶۳ء میں انہوں نے ایک تحریر اس عنوان سے کہ ’’التماس بخدمت ساکنان ہندوستان درباب ترقی تعلیم اہل ہند‘‘ چھاپ کر مشتہر کی جس کا خلاصۂ مضمون یہ تھا کہ ہندوستان میں علم کے پھیلانے اور ترقی دینے کیلئے ایک مجلس مقرر کرنی چاہئے جو اپنے مصنفوں کی عمدہ کتابیں اورانگریزی کی مفید کتابیں اردو میں ترجمہ کراکے چھاپے۔ اس کے بعد وہ عملی طورپر لوگوں کوادھر مائل کرنے کی طرف متوجہ ہوئے۔ غرض کہ اسی سنہ میں سائنٹفک سوسائٹی غازی پور میں قائم ہوگئی۔ تمام قواعد منضبط کئے گئے۔ ’ڈیوک اوف آرگائل‘ جو اس وقت وزیر ہند تھے انہوں نے سوسائٹی کا پیٹرن ہونا منظور کیا۔ اور ڈریمنڈ صاحب لفٹنٹ گورنر شمال مغرب اور میکلوڈ صاحب لفٹنٹ گورنر پنجاب وائس پیٹرن قرار پائے اور دور دراز صوبوں کے بہت سے رئیس اور ذی عزت ہندو اور مسلمانوں نے اس کی ممبری قبول کی اور غازی پور میں ترجمہ کا کام باقاعدہ طورپر شروع ہوگیا۔
سرسید نے جو اس سوسائٹی کے آنریری سکریٹری قرار پائے تھے اور درحقیقت وہی اس کا ہیولے اور وہی اس کی صورت تھی۔ سوسائٹی کے اغراض اور مقاصد مشتہرکرنے اوراس کے ساتھ پبلک کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے کلکتہ کا سفر اختیارکیا۔ ۶؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء کو مجلس مذاکرۂ علمیہ میں ایک لمبا لیکچر فارسی زبان میں سوسائٹی کے مقاصد پر دیا جو کہ ان کی اردو اسپیچوں اور لیکچروں کے ساتھ چھپ گیا اورکلکتہ سے آتے جاتے جس شہر میں ان کا گزر ہوا وہاں سوسائٹی کا چرچا کیا۔اسی سنہ میں انہوں نے غازی پور میں ایک مدرسہ قائم کرنے کی فکر کی۔اگرچہ ضلع غازی پور کے اکثر ہندومسلمان رئیسوں کی خود یہ خواہش تھی کہ غازی پور میں ایک مدرسہ قائم ہو لیکن اول تو کوئی شخص ایسا نہ تھا کہ مدرسہ کے انتظام اور حفاظت ِ زر چندہ کی طرف سے لوگوں کو مطمئن کرے دوسرے مسلمان عموماً ان انگریزی کے نام سے بدکتے تھے۔ سرسید نے ان دونوں مشکلو ں کو حل کیا اور تھوڑا تھوڑا چندہ جمع ہونے لگا۔ اس مدرسہ کی عمارت اوراس کے قیام کیلئے ۸۰؍ ہزار کا تخمینہ ہوا تھا۔ جب چندہ کی مقدار ۱۷؍ ہزار تک پہنچ گئی تو مدرسہ کیلئے ایک مکان بننا تجویز ہوا۔ اور ۱۸۶۴ء میں ایک عام مجمع میں جس میں ہندوستانی اور تمام ضلع کے حکام نیک تھے اس کی بنیاد کا پتھر رکھا گیا اور تعمیر شروع ہوگئی۔

سرسید احمد خاں سے متعلق کچھ اہم معلومات

ان کا پورا نام
احمد خان متقی بن محمد متقی
تھا جو بعد سیداحمد اور پھر سرسید احمد خان سے مشہور ہوئے
تاریخ پیدائش
۱۷؍ اکتوبر ۱۸۱۷ء
تاریخ وفات
۲۷؍مارچ  ۱۸۹۸ء
۱۸۳۸ء
میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی
 ۱۸۶۳ء
میں غازی پور میں وکٹوریہ اسکول اور ۱۸۶۴ء میں سائنٹفک سوسائٹی برائے مسلمانان قائم کی
۱۸۸۸ء میں سر کا خطاب ملا
۱۸۸۹ء 
میں انگلستان کی یونیورسٹی اڈنبرا نے ان کو ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی
۱۸۷۰ء
میں سرسید نے تہذیب الاخلاق کااجراء کیا  جوبعد میں بند ہوگیا تھا۔ بعد میں سید حامد  نے 
۱۹۸۲ء میں جاری کیا، تب سے مستقل جاری ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK