• Sun, 13 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آیاتِ سجدہ کا ترجمہ، تفسیر اور شانِ نزول (۶)

Updated: April 02, 2024, 12:48 PM IST | Dr. Muhammad Iqbal Khalil | Mumbai

شانِ نزول کے حساب سے یہ پہلی آیت سجدہ ہے لیکن ترتیب کے حساب سے آخری۔ نبی پاکؐ پر وحی کا آغاز غارِحرا میں حضرت جبریل ؑ کے ذریعے سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات کی صورت میں ہوا تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

تیرہواں سجدہ (۳۰؍واں پارہ)
(ترجمہ) : ’’ اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔ ‘‘(الانشقاق ۸۴:۲۱)
اس آیت سجدہ کے پورے مفہوم کو سمجھنے کے لئے آیت نمبر ۱۶؍ سے پڑھیں : ’’پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی، اور رات کی اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے، اور چاند کی جب کہ ماہِ کامل ہوجاتا ہے، تم کو ضرور درجہ بہ درجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے۔ پھر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے؟‘‘ 
یعنی [انسان کو] ایک حالت پر نہیں رہنا ہے بلکہ جوانی سے بڑھاپے، بڑھاپے سے موت، موت سے برزخ، برزخ سے دوبارہ زندگی، دوبارہ زندگی سے میدانِ حشر، پھر حساب و کتاب اور پھر جزا و سزا کی بے شمار منزلوں سے لازماً تم کو گزرنا ہوگا۔ اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے: سورج ڈوبنے کے بعد شفق کی سرخی، دن کے بعد رات کی تاریکی اور اس میں ان بہت سے انسانوں اور حیوانات کا سمٹ آنا جو دن کے وقت زمین پر پھیلے رہتے ہیں، اور چاند کا ہلال سے درجہ بہ درجہ بڑھ کر بدرِ کامل بننا۔ یہ گویا چند وہ چیزیں ہیں جو اس بات کی علانیہ شہادت دے رہی ہیں کہ جس کائنات میں انسان رہتا ہے اس کے اندر کہیں ٹھہراؤ نہیں ہے، ایک مسلسل تغیر اور درجہ بہ درجہ تبدیلی ہر طرف پائی جاتی ہے، لہٰذا کفار کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ موت کی آخری ہچکی کے ساتھ معاملہ ختم ہوجائے گا۔ 
[اس پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں تعجب کا اظہار کرتے ہیں جو ایمان نہیں لاتے اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے] ’’یعنی ان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا نہیں ہوتا اور یہ اس کے آگے نہیں جھکتے۔ اس مقام پر سجدہ کرنا رسولؐ اللہ کے عمل سے ثابت ہے۔ امام مالکؒ، مسلمؒ اور نسائیؒ نے حضرت ابوہریرہؓ کے بارے میں یہ روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے نماز میں یہ سورۃ پڑھ کر اس مقام پر سجدہ کیا اور کہا کہ رسولؐ اللہ نے یہاں سجدہ کیا ہے۔ بخاری، مسلم، ابوداؤد، اور نسائی نے ابو رافع کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ نے عشاء کی نماز میں یہ سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔ میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے ابوالقاسمؐ کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور حضوؐر نے اس مقام پر سجدہ کیا ہے، اس لئے میں مرتے دم تک یہ سجدہ کرتا رہوں گا۔ (تفہیم القرآن، ج۶، ص ۲۹۱۔ ۲۹۲)
چودہواں سجدہ(۳۰؍واں پارہ)
(ترجمہ) ’’ ہرگز نہیں، اُس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرو۔ ‘‘(العلق ۹۶:۱۹)
شانِ نزول کے حساب سے یہ پہلی آیت سجدہ ہے لیکن ترتیب کے حساب سے آخری۔ نبی پاکؐ پر وحی کا آغاز غارِحرا میں حضرت جبریل ؑ کے ذریعے سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات کی صورت میں ہوا تھا۔ اس کے بعد کی آیات اس وقت نازل ہوئیں جب رسولؐ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے خانہ کعبہ میں نماز پڑھنی شروع کی اور ابوجہل کو یہ بات ناگوار گزری اور اس نے نبی پاکؐ کو منع کرنا چاہا۔ اس لئے سورۂ علق کی آیت نمبر ۶؍ سے آخر (۱۹) تک آیات میں اللہ پاک نے اس کافر کے ردعمل کا جواب دیا: ’’ہرگز نہیں، انسان سرکشی کرتا ہے اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے (حالانکہ) پلٹنا یقیناًتمہارے رب ہی کی طرف ہے۔ تم نے دیکھا اُس شخص کو جو ایک بندے کو منع کرتا ہے، جب کہ وہ نماز پڑھتا ہو؟ تمہارا کیا خیال ہے اگر (وہ بندہ) راہِ راست پر ہو یا پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو؟ تمہارا کیا خیال ہے اگر (یہ منع کرنے والا شخص حق کو) جھٹلاتا اور منہ موڑتا ہو؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے؟ ہرگز نہیں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر اسے کھینچیں گے، اس پیشانی کو جو جھوٹی اور سخت خطاکار ہے۔ وہ بلا لے اپنے حامیوں کی ٹولی کو، ہم بھی عذاب کے فرشتوں کو بلا لیں گے۔ ہرگز نہیں، اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرو۔ ‘‘
ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسولؐ اللہ مقامِ ابراہیم پر نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے کہا: اے محمدؐ! کیا میں نے تم کو اس سے منع نہیں کیا تھا؟ اور اس نے آپؐ کو دھمکیاں دینی شروع کیں۔ جواب میں رسول ؐ اللہ نے اس کو سختی سے جھڑک دیا۔ 
اس پر اس نے کہا: اے محمدؐ! تم کس بل پر مجھے ڈراتے ہو۔ خدا کی قسم! اس وادی میں میرے حمایتی سب سے زیادہ ہیں۔ (احمد، ترمذی)۔ (تفہیم القرآن)
چنانچہ ان آیات کے ذریعے آپؐ کو تسلی دینے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک بار پھر آپؐ کو حکم دیا کہ تم اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو۔ 
 [یہاں ] سجدہ کرنے سے مراد نماز ہے، یعنی اے نبیؐ! تم بے خوف اُسی طرح نماز پڑھتے رہو جس طرح پڑھتے ہو، اور اس کے ذریعے سے اپنے رب کا قرب حاصل کرو۔ 
صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ ’’بندہ سب سے زیادہ اپنے رب سے اس وقت قریب ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے‘‘ اور مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت بھی آئی ہے کہ جب رسول اللہ ؐ یہ آیت پڑھتے تھے تو سجدۂ تلاوت ادا فرماتے تھے۔ (ایضاً، ص۳۹۹)  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK