اس ہفتے دنیا بھر میں امدادی قافلے صمود کے چرچے ہیں۔ یہ قافلہ بھلے اپنی منزل غزہ کو نہ پہنچ سکا، لیکن جذبے اور ہمت سے سرشار اس کی سعی لاحاصل نے بہت کچھ پالیا۔
EPAPER
Updated: October 05, 2025, 1:17 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
اس ہفتے دنیا بھر میں امدادی قافلے صمود کے چرچے ہیں۔ یہ قافلہ بھلے اپنی منزل غزہ کو نہ پہنچ سکا، لیکن جذبے اور ہمت سے سرشار اس کی سعی لاحاصل نے بہت کچھ پالیا۔
اس ہفتے دنیا بھر میں امدادی قافلے صمود کے چرچے ہیں۔ یہ قافلہ بھلے اپنی منزل غزہ کو نہ پہنچ سکا، لیکن جذبے اور ہمت سے سرشار اس کی سعی لاحاصل نے بہت کچھ پالیا۔ اس کارواں نے دنیا کو دکھادیا کہ ظلمت شب کو چیرا جاسکتا ہے۔ اہل غزہ کی مدد کو دوڑپڑنے والے ان زندہ دلوں کی کشتیوں کو پچھلے دنوں اسرائیلی فورسیز نے غزہ کے پانیوں میں ضبط کرلیا ہے۔ گریٹا تھن برگ، منڈلا منڈیلا اور تھیاگو اویلا سمیت سبھی کارکنوں کو جبراً دھر دبوچ کر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ لیکن پھر بھی دنیا اس ناکام کوشش پر عش عش کررہی ہے۔ اضطراب اور درمندی کی توانا لہریں بلند ہونے لگی ہیں۔ دنیا بھر میں مظاہروں کا سلسلہ زور پکڑنے لگا ہے۔ لیوے لیوے پیلسٹائن، فری فری فلسطین کے نعرے گونجنے لگے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی صمود کی حمایت اور اسرائیلی جبر کیخلاف طوفان اٹھ گیا ہے۔ آل آئز آن غزہ، غزہ، صمودفلوٹیلا، گلوبل صمود فلوٹیلا کے ہیش ٹیگز ٹرینڈنگ میں رہے۔
اسرائیل فارین منسٹری کے ایکس اکاؤنٹ سے صمود کی ایک کشتی سے گرفتار کئے گئے کارکنوں کی ویڈیو شیئر کی گئی۔ جس پر محقق زیک فوسٹر نے لکھا کہ’’بین الاقوامی پانیوں میں نہتے شہریوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرکے اسرائیل اپنے ہی جنگی جرائم کے دستاویزی ویڈیو جاری کررہا ہے۔ ‘‘امریکی تنظیم کوڈ پنک کی سربراہ میڈی بنجامن نے لکھا کہ’’غزہ کے بھوکے بلکتے بچوں کیلئے کھانا لے کر جارہے ہمارے فلوٹیلا کے دوستوں کو اغواء کرلیا گیا ہے۔ اگر اطالوی بندرگاہوں کے ملازمین ہڑتال کرسکتے ہیں تو ہم امریکیوں کو بھی ایسا کرنا چاہئے۔ فلوٹیلا کو تحفظ دیا جائے۔ غزہ میں امداد کی باڑھ لائی جائے۔ نسل کشی کو روکا جائے۔ ‘‘ برطانوی رکن پارلیمان اور لیڈر جیریمی کوربن نے لکھا کہ’’اسرائیل نے غیر قانونی طور پر گلوبل صمود فلوٹیلا کو روکا ہے۔ یہ شرمناک حملہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ ہماری مشترکہ انسانی اقدار پر حملہ ہے اور فلسطینی عوام کی مزید توہین ہے، جنہیں اسرائیل بھوک سے مار رہا ہے۔ ہم میں سے بہتیروں نے بارہا خبردار کیا کہ ایسا ہوگا، پھر بھی ہماری حکومت نے فوری کارروائی کی اپیلوں کو نظرانداز کر دیا۔ ایک بار پھر ہم برطانوی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی قانون کا دفاع کرے، وسیع پیمانے پر پابندیاں عائد کرے اور اسرائیل کو اسلحہ دینا بند کرے۔ تاریخ فلوٹیلا کے ساتھ ہوگی اور ان کی جرأت مندی و بہادری مزید لوگوں کو تحریک دے گی کہ وہ فلسطین کیلئے ہماری عالمی جدوجہد میں شامل ہوں۔ ‘‘
نامور امریکی برطانوی شخصیت اور سابق کک باکسر اینڈریو ٹیٹ نے معنی خیز تبصرہ کیا کہ ’’گلوبل صمود فلوٹیلا واقعی بے خوف ہے۔ امراء نے ہمیشہ انفرادیت کو بڑھاوا دیا ہے، تاکہ لوگوں کو تنہا اور منتشر رکھا جاسکے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عوام کی واحد طاقت اجتماعیت ہے۔ اجتماعی عمل ہی آپ کی قوم، آپ کی نسل اور آپ کے مستقبل کو بچا سکتا ہے۔ عمل سے انکار دراصل موت کو قبول کرنا ہے۔ ‘‘ میلکم پال نائن نے کچھ کارکنوں کے کولاج ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’یہ وہ چہرے ہیں جنہیں تاریخ یاد رکھے گی، ان ہیروز کے نام یاد کرلیں، انہیں عالمی پانیوں میں اسرائیل نے اغوا کرلیا ہے۔ ‘‘ فلپ پراؤڈ فوٹ نے لکھا کہ ’’اس صمود فلوٹیلا نے طاقتور کانسپٹ کا ثبوت دیا ہے، ۴۲؍ چھوٹی کشتیوں سے یہ تقریباً غزہ پہنچ ہی گئے تھے۔ اگلی بار یہ تعداد ۲۰۰؍ بھی ہوسکتی ہے، بڑی کشتیوں کے ساتھ۔ ‘‘
حالہ جابر نے لکھا کہ’’ گلوبل صمود فلوٹیلا کو اسرائیلی بحریہ نے روک لیا ہے۔ غزہ کے اتنے قریب، مگر اب بھی دور۔ یہ مجرم ریاست ایک بھی جہاز کو بھوک سے بلک رہے لوگوں تک پہنچنے نہیں دیتی۔ یہاں تک کہ رحم و کرم پر بھی ناکہ بندی ہے۔ اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے جو ہمدردی سے بھی خوفزدہ ہے، اس نے روٹی اور دوا تک کی راہ بند کردی ہے۔ ‘‘ جیری ہِکس نے لکھا کہ’’صمود میں شامل ہر شخص کو سلام‘‘۔ خدا کی مصلحت دیکھئے کہ فلسطین کے پانیوں میں جیسے ہی صمود نے داخلہ لیا، اسرائیلی بحریہ انہیں روکنے اور پکڑنے میں لگ گئی۔ اس درمیان غزہ کے تباہ حال لوگوں کو ماہی گیری کا موقع مل گیا، جو اسرائیلی بحریہ کسی صورت ہونے نہیں دے رہی تھی۔ پاویل ورگن نے اس ضمن میں لکھا کہ ’’اہل غزہ صمود کے مشکور ہیں کہ اس نے غاصب فورسیز کی توجہ بھٹکائی اور انہیں ماہی گیری کا موقع مل گیا۔ اسرائیل تو چاہتا ہی یہ ہے کہ اہل غزہ کو بھوکوں مار دیا جائے۔ ‘‘
ریان روزبیانی نے لکھا کہ’’اسرائیل نے۴۶؍ممالک سے تعلق رکھنے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کے۴۹۷؍کارکنوں کا اغوا کرلیا ہے۔ یہ ایک انسانی مشن ہے جو اَب عالمی اغواء کا کیس بن گیا ہے۔ ‘‘
غزہ کے احمد الشعور جو پیشے سے وکیل ہیں نے دیر البلاح کے ساحل پر کھینچی گئی اپنی سیلفی کے ساتھ لکھا کہ’’سمندر کنارے کئی گھنٹوں تک فریڈم فلوٹیلا کے ہیروز کے انتظار کے بعد ہم رنجیدہ دل کے ساتھ اپنے خیموں کو لوٹ آئےہیں۔ اسرائیلی جنگی جہازوں کی مسلسل بمباری اور فائرنگ کے باوجود ہم وہاں کھڑے تھے، لیکن افسوس کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اسرائیل نے امدادی قافلے کو ہم تک پہنچنے سے روک دیا۔ غاصب چاہتا ہے کہ غزہ کے محصور عوام کی ہر امید کی کرن کو بجھادے، مگر ہماری استقامت اس کی ناکہ بندی سے زیادہ مضبوط ہے، اور آزادی و انصاف پر ہمارا ایقان ان کی تمام مایوس کن کوششوں سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔ ‘‘
مڈل ایسٹ آئی نے غزہ کے لوگوں سے فلوٹیلا کے متعلق تاثرات معلوم کئے، جس میں مجیدہ قادیہ نامی خاتون نے فلوٹیلا کے کارکنوں سے کہا کہ’’ آپ نے ہمت اور بہادری دکھائی، بھلے ہی آپ ہمارے ساحل تک نہیں پہنچ پائے، لیکن آپ ہمارے دلوں میں اترگئے ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر عمر سلیمان نے لکھا کہ’’ بمباری بند ہوگی، محاصرہ ٹوٹے گا، زخم مندمل ہوں گے، غزہ پھر سے جی اٹھے گا اور فلسطین آزاد ہوگا۔ یہ سب ان شاء اللہ ہمارا جیتے جی ہوگا۔ ‘‘
ایسے ہی لاتعداد پیغامات سوشل میڈیا کے گلیاروں میں زیر گردش ہیں۔ جاتے جاتے ہم اتنا ہی کہیں گے صمود کی کوشش نے قمر عباس قمر کے اس شعر کی یاد دہانی کرادی کہ:
بہت غرور تھا سورج کو اپنی شدت پر
سو ایک پل ہی سہی بادلوں سے ہار گیا