• Thu, 18 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ: نیپالی جین زی کوبھی پتہ ہے گودی میڈیا کون ہے

Updated: September 18, 2025, 5:44 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

ہمارے یہاں کے تو ٹی وی میڈیا نے یہ اڑادیا تھا کہ نیپالی حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی لگادی اسلئے یہ سارا بکھیڑا کھڑا ہو گیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ جب یہاں سے ٹی وی چینلوں کے رپورٹر ’گراؤنڈ زیرو‘ پر پہنچے تو انہیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

پچھلے دنوں نیپال میں سرکار کے خلاف نئی نسل ایسی بپھری کہ فیض احمد فیض کے الفاظ ’’سب تاج اچھالے جائیں گے، سب تخت گرائے جائیں گے‘‘ سچ ہوگئے۔ بدعنوانی اور نااہلی سے بیزار ’ہجومیت‘، جمہوریت پر حاوی ہوگئی۔ وزراء اور حکومتی افسران کو دوڑا دوڑاکر مارا، پیٹا گیا۔ پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کی رہائش گاہ اور دیگر وزراء کے گھروں کو بھی پھونک دیا گیا۔ انارکی اور خلفشار اتنا بڑھ گیاکہ وزیراعظم کے پی شرما اولی کوبذریعہ ہیلی کاپٹر ’فرار‘ ہونا پڑا۔ اس تختہ پلٹ میں جین زی کا بڑا ہاتھ رہا۔ ۹۵ء سے ۲۰۱۲ء کے درمیان پیدا ہونے والی نیپال کی اس نئی نسل نے اقتدار کی چُولیں ہلا کر رکھ دیں۔ صدراورفوج نے مداخلت تو کی لیکن بڑے محتاط انداز میں۔ تادم تحریر صورتحال قابو میں ہے کیونکہ اقتدار کا بحران حل ہوگیا ہے۔ عوامی مطالبے پر سبکدوش جسٹس سوشیلا کارکی نے عبوری سربراہ کا چارج سنبھال لیا ہے۔ پڑوسی ملک کے ان ہنگامی حالات کا سوشل میڈیا کے گلیاروں میں بڑا چرچا رہا۔ 
ہمارے یہاں کے تو ٹی وی میڈیا نے یہ اڑادیا تھا کہ نیپالی حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی لگادی اسلئے یہ سارا بکھیڑا کھڑا ہو گیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ جب یہاں سے ٹی وی چینلوں کے رپورٹر ’گراؤنڈ زیرو‘ پر پہنچے تو انہیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں دیکھ کر مظاہرین نے نہ صرف تالی، تھالی بجائی بلکہ دھکامکی کرکے گالیوں سے بھی ’نواز‘ دیا۔ جیت ایکس جی نے ایکس پرایک ویڈیو شیئرکیا جس میں این ڈی ٹی وی کے آدتیہ راج کول نظر آرہے ہیں اور ان کے آس پاس مظاہرین تھالی پیٹتے دکھائی دے رہے ہیں، جیت نے لکھا کہ ’’نیپال کے نوجوان ہندوستان کے گودی میڈیا کی رپورٹنگ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ ‘‘پروفیسر الٰہ آبادی (نور) نے لکھا کہ ’’آر بھارت کے پترکار کی نیپال میں پٹائی کی کڑی نِندا کرتا ہوں۔ نیپال کے جین زی نے گودی میڈیا کا جم کر بائیکاٹ کیا۔ ‘‘
 ڈاکٹر نیمو یادوٹو پوائنٹ زیرو کے اکاؤنٹ سے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا گیاکہ’’امبانی کے چینل کا رپورٹر نیپال کے احتجاج کے کوریج کیلئے گیا۔ لیکن نیپالی مظاہرین ہندوستانی گودی میڈیا سے واقف ہیں، انہوں نے مبینہ بدعملیوں پر انڈین میڈیا کو خوب گالیاں دیں اور نیپال چھوڑنے کا انتباہ دیا۔ کہا آپ کا سپورٹ نہیں چاہئے۔ ‘‘
ری پبلک کے رپورٹر کونیپالی نوجوان نے تھپڑجڑدیا۔ اس کا کلپ شیئر کرتے ہوئے بایو جگ میت سنگھ نے لکھا کہ ’’نیپال میں گودی میڈیا پیٹا جارہا ہے، کیا یہ ٹھیک ہے؟‘‘ترون گوتم نے اس پر لکھا کہ ’’آر بھارت کے صحافی کوطمانچہ جڑدیا۔ یہ ارنب جیسوں کی اپنے اسٹوڈیوز سے کی جانے والی زہرافشانی اور نفرت انگیزی کا شاخسانہ ہے، بھگتنا رپورٹروں کو پڑرہا ہے، حتیٰ کہ نیپال کی نئی نسل کو بھی پتہ ہے کہ کون گودی میڈیا ہے اور کون نہیں ہے۔ ‘‘الکی مسٹ نامی صارف نے لکھا کہ ’’نیپال کے جین زی نے انڈین گودی میڈیا کو سبق سکھا دیا۔ کہا کہ پہلے ہندوستان میں ایماندارانہ صحافت کرو۔ غضب دیکھئے کہ نیپال کی نئی نسل ہمارا مسئلہ ٹھیک کررہی ہے۔ ‘‘شیوراج یادو نے لکھا کہ ’’بھارت کا نیوز۱۸؍چینل نیپال مظاہروں کی رپورٹنگ کرنے پہنچا، لیکن نیپالیوں نے ان گنت گالیوں سے نوازا۔ رپورٹر نے کہا:ہم آپ کے سپورٹ میں ہیں۔ شہری نے کہا:ہمیں آپ کا سپورٹ نہیں چاہئے اور پھر گالیاں دیں۔ گودی میڈیا(سے سوال ہے کہ کیا) اپنے ملک کے موضوعات ختم ہوگئے جو نیپال پہنچ گئے؟‘‘
عین الحق نامی صارف نے فیس بک پر ایک خاتون رپورٹر کے ساتھ پیش آنے والی بدتمیزی کے معاملے کا ویڈیو شیئرکیا جس میں لوگ کہہ رہے ’’ہندوستان واپس جاؤ‘‘عین الحق نے لکھاکہ ’’اب تو گودی میڈیا کو نیپال سے بھگایا جارہا ہے، اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ ‘‘پنیت کمار سنگھ نے لکھا کہ ’’گودی میڈیا کی پہچان اب صرف ہندوستان تک محدود نہیں رہی۔ نیپال کے عوام نے بھی واضح طورپر کہہ دیا کہ پہلے اپنے ملک میں صحافت کرو، پھر ہمارے پاس آنا۔ سوال تو یہ ہے کہ صحافت کہاں بچی ہے؟‘‘
سینئر صحافی شکیل اختر نے ایک فیس بک پوسٹ شیئرکرتے ہوئے لکھاکہ ’’کس حالت میں پہنچادیا ہے میڈیا کو؟معروف صحافی، قلمکار اور جنوب ایشیائی امور کے تجزیہ کار آنند سوروپ ورما خود لکھ رہے ہیں کہ نیپال کی اتھل پتھل کے بارے میں تبصرے کیلئے گودی میڈیا مجھ سے رابطہ نہ کرے، میں بہت پہلے سے گودی میڈیا کا بائیکاٹ کررہا ہوں۔ ‘‘کانگریس پارٹی کے ترجمان اتل لونڈھے پاٹل نے نیپال معاملے پرآسام کے ایک مظاہرے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے بین السطور میں مین اسٹریم میڈیا سے کہاکہ’’نیپال اور فرانس سے واپس آگئے ہوں تو آسام کے آندولن کو دکھادینا۔ تھوڑا تو گودی (میڈیا)کا داغ دھونے کی کوشش کرو۔ ‘‘
ہنس راج مِینا نے لکھا کہ ’’نیپال میں تشدد اور بغاوت کا اصل سبب سوشل میڈیا پابندی نہیں ہے، بلکہ صدیوں سے چلی آرہی سماجی عدم مساوات ہے۔ اقتدار پر کچھ ذاتوں کا قبضہ اور دلت آدیواسی طبقات کو حاشیے پر رکھنا ہی آج کے بحران کی جڑ ہے۔ ‘‘
بِٹو شرما نے خوں آلود جوتے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’پی کے (فلم) میں عامر خان نے کہا تھا کہ اگر انسان نے انسان کی فکر نہ کی تو اس زمین پر صرف جوتا ہی بچے گا۔ آج نیپال میں کسی ماں کے بچے کا صرف جوتا ہی بچاہے۔ ‘‘رن وِجئے سنگھ نے شعلوں میں گھری ایک عمارت کی تصویر کے ساتھ لکھا کہ’’میڈیا ہاؤس میں آگ لگادی گئی۔ جنتا کو لگتا ہے کہ پردھان منتری کے بھرشٹا چار میں میڈیا ان کا ساتھ دے رہا تھا۔ دیش کے ضروری سوال نہیں پوچھے جاتے تھے، اور دن رات پردھان منتری کا گُن گان ہوتا تھا۔ نیپال‘‘
کاشف کاکوی نے ایک کلپ شیئر کرکے لکھا کہ ’’نیپال میں ہوئے تختہ پلٹ کیلئے کانگریس ذمہ دار! بہار کے نائب وزیراعلیٰ سمراٹ چودھری (کا بیان)‘‘اس میں چودھری نے نیپال بحران کے متعلق کہا کہ’’یہ کانگریس کی غلطی ہے، وہاں انارکی اسلئے ہورہی ہے کہ کانگریس نے اسےالگ رکھا۔ نیپال اگر بھارت کا حصہ ہوتا تو وہاں آج امن بھی ہوتا اورخوشحالی بھی ہوتی۔ ‘‘اس پر آرجے ڈی کی ترجمان پرینکا بھارتی نے طنزاً لکھا کہ ’’جو دیش میں ہورہا تھا اس کیلئے نہرو جی کو ذمہ دار ٹھہراتے ٹھہراتے اب جو کچھ وِدیش میں ہورہا ہے اس کیلئے بھی نہرو جی ذمے دار !نیپال میں جو ہوا اس کیلئے بھی !! یہ گیان کہاں سے ملا محترم؟‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK