Inquilab Logo

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق

Updated: December 31, 2023, 3:54 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

صاحبو،آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے انتخابی نتائج کا جب اعلان ہوا تھا توبرج بھوشن خیمہ سے بڑے طنطنے کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’’دبدبہ تو رہے گا‘‘ لیکن پہلوانوں کے جنوں کا نتیجہ ایسا نکلاکہ ’’دبدبہ تو رہےگا‘‘ کا جواب ہفتے بھر میں  ہی سامنے آگیا۔

Rahul Gandhi. Photo: INN
راہل گاندھی ۔ تصویر : آئی این این

صاحبو،آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے انتخابی نتائج کا جب اعلان ہوا تھا توبرج بھوشن خیمہ سے بڑے طنطنے کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’’دبدبہ تو رہے گا‘‘ لیکن پہلوانوں کے جنوں کا نتیجہ ایسا نکلاکہ’’دبدبہ تو رہےگا‘‘ کا جواب ہفتے بھر میں  ہی سامنے آگیا۔ پہلوانوں  کے احتجاج نے فوری اثردکھایا، سوشل میڈیا بھی ان کی حمایت میں  چیخ پڑا۔  پھر کیا جس قضیہ پر مٹی ڈالی جارہی تھی ، اسے ارباب اقتدار کو نمٹانا ہی پڑا۔ حکومت  نے  ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کی نوتشکیل شدہ باڈی کو تحلیل کردیا۔ برج بھوشن کو بھی بڑھتے ’دباؤ‘کے سبب کشتی کے امور سے ’سنیاس‘ لینا پڑا۔اسی اتھل پتھل  کا اثر تھا کہ پچھلے اتوار کو ’’دبدبہ جوتے کی نوک پہ‘‘ ٹرینڈنگ  میں  رہا۔اسی کے تحت اشفاق جویا نامی صارف نے لکھا کہ ’’جھکتی ہے دنیا جھکانے والا چاہئے، دبدبہ صاحب کردار کا ہوگا بدکردار کا نہیں ، دبدبہ کھلاڑیوں  کا رہے گا، جسمانی استحصال کا نہیں ، دبدبہ ساکشی کا رہے گا،برج بھوشن کا نہیں ۔‘‘روہت اگروال نے لکھا کہ’’گھمنڈ تو راون کا نہیں  ٹکا،تمہاری کیا حیثیت ہے،دیش کی بیٹی نے دبدبہ کی لنکا لگادی۔ ‘‘نانگا رام جاکھڑ نے کہاکہ ’’دبدبہ دیش کی بیٹیوں  کا تھا اور رہے گا‘‘کلدیپ جاتو نے اپنے تبصرے میں یہ امید جتائی کہ ’’دھراہ رہ گیا دبدبہ۔کھیل منترالیہ کے فیصلے کا ہم استقبال کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ دیش کا نام بڑھانے والی بیٹیوں کو انصاف ملے گا‘‘راہل منیش پانڈے صارف نے یہ دوٹوک تبصرہ کیاکہ ’’دبدبہ تودو دن میں ہی پھس ہوگیا،لیکن مجھے اب بھی یقین ہے کہ برج بھوشن شرن سنگھ کا کچھ نہیں  بگڑنےو الا ‘‘ اس معاملے پربہت سوں نے طنزومزاح کے تیر بھی چلائےپرنئے دیشوال نامی صارف نے چٹکی کاٹی کہ’’دبدے کا سنیاس‘‘سچن جانگڑا نےتمسخراڑایا کہ ’’یہ کیسا دبدبہ تھا جو دو دن میں  دبا دیا گیا؟‘‘صحافی اجے کمار نے جوتے کی نوک دکھانے والی اپنی تصویر کو کیپشن دیا ’’دبدبہ یہاں  دبا دیا گیا‘‘ دپیندر جاٹ نے لکھا کہ ’’کھیل منترالیہ نے کشتی فیڈریشن کی نئی باڈی کو معطل کیا، ڈھائی دن والا دبدبہ ختم‘‘راوت نہرا نے لکھا کہ ’’دبدبہ نہ تھا ،نہ رہے گا‘‘اتوار اور پیر کو برج بھوشن شرن سنگھ ، سنجے سنگھ ، کھیل منترالیہ جیسے ہیش ٹیگ کے تحت اس پر کچھ کہاسنا گیا۔اس سارے قضیہ پرہمیں تو مرزا عظیم بیگ کا شعر یاد آگیا:’’شہ زور اپنے زور میں  گرتا ہے مثل برق/وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں  کے بل چلے‘‘

یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ :’’یہ جمہوریت کے قتل کا ایک اور نیا باب ہے‘‘

شرومنی اکالی دل کے سربراہ سکھ بیر سنگھ بادل کا ایک طویل بیان پچھلے ہفتے موضوع بحث رہا۔ انہوں  نے مسلمانوں  کی سیاسی بے وزنی  کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’ملک میں مسلمانوں  کی آبادی  ۱۸؍فیصد ہے،لیکن ان کے پاس کوئی (سیاسی) قیادت نہیں ،ان کے پاس کسی طرح کا(سیاسی)پاور نہیں  ہے، جب میں پارلیمنٹ کی طرف دیکھتا ہوں  تو کشمیر سے لے کر حیدرآباد (سے پہلے )تک ان کا ایک بھی نمائندہ نہیں وجہ مسلمان متحد نہیں ہیں ،ایسے کئی حلقے ہیں جہاں ان کی بڑی آبادی ہے لیکن ایک نہ ہونے کے سبب ان کا کوئی نمائندہ منتخب نہیں  ہوتا، لیکن سکھ ۲؍فیصد ہیں  اورمتحد ہیں۔‘‘ اس بیان پر سوشل میڈیا پر کافی ردعمل سامنے آیا۔ نیوز ۲۴؍ نے اس بیان کی نیوز کلپ شیئر کی تو اس کے ذیل میں ’یوتھ اگینسٹ ہیٹ‘ نامی ایکس ہینڈلر سے لکھا گیا کہ ’’ایسا اسلئے ہے کیونکہ ۸۵؍فیصد سکھ پنجاب میں  اکھٹا ہیں ،اسلئے وہ اپنی حکومت بناسکتےہیں ، مسلم سبھی ریاستوں میں  پھیلے ہوئے ہیں اسلئے ہر جگہ ۱۰؍ سے ۲۵؍ فیصد ہیں، اسلئے اپنی سرکار تو نہیں  بناسکتے پر اپنی ریاست میں ایک غیر فرقہ پرست سرکار بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں ، جو ’مِیم‘ سے نفرت نہ کرتی ہو‘‘وینا جین نے لکھا ہے کہ ’’یہ سراسر غلط ہے، کیونکہ ۱۸؍فیصد مسلمان ملک بھر میں  آباد ہیں ، وہ مشکل سے اپنے بَل پر کوئی حلقہ جیت سکتے ہیں ، اگر وہ ایک ہو جائیں  توپھر ’ریورس پولرائزیشن‘ ہوجائے گا جس سے جیتنے کے امکانات مزید کم ہوجاتے ہیں ۔ اس تناظر میں  دیکھیں  تو سکھ ایک  ہی ریاست میں  اکثریت میں  ہیں  ،اس لحاظ سے یہ دونوں مثالیں متضاد ہیں۔‘‘ حمزہ دھنگل میواتی نے لکھا کہ ’’سکھبیر جی کی ایک ایک بات صد فیصد صحیح ہے، مسلم سماج کو اس سے سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر دھیرے دھیرے آپ کو سیاست کے اصل دھارے سے غائب کردیا گیا اور آپ کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہوا۔‘‘ 
 بدھ کو راہل گاندھی ، بھارت نیائے یاترا، منی پورٹو ممبئی کے ہیش ٹیگ سوشل میڈیا پر چھائے رہے۔ کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ راہل گاندھی کی قیادت میں ۱۴؍مارچ سے یہ ریلی  امپھال سے نکلے گی اور۲۰؍مارچ کو ممبئی میں  اختتام کو پہنچے گی۔ راہل کی پہلوانوں  سے ملاقات اور کشتی میں  زورآزمائی بھی سوشل میڈیا گلیاروں  میں   چھائی رہی ۔ لوگوں  نے ان کی فٹنس اور سادہ لوحی کی تعریفیں  کیں ۔  جمعرات کو مدرانڈیا فیم اداکار ساجد خان نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ۷۱؍سالہ ساجد خان کینسر میں  مبتلا تھے۔فلم انڈسٹری سے لے کر عام افراد نے بھی رنج و غم کا اظہار کیا۔ اس دوران کسی نے فلم ہدایتکار، پروڈیوسر اورٹیلی ویژن ہوسٹ ساجد خان کے انتقال کی افواہ اڑادی ۔ حد تو یہ ہوئی کہ کسی پورٹل نے غلطی سے انتقال کی اس خبر میں  فرح خان کے بھائی ساجد کی تصویر بھی لگادی۔ جس کے بعد ان کے یہاں فون کالز اور پیغامات کا نہ تھمنے والا سلسلہ چل پڑا۔ ساجد خان نے بات بڑھتی دیکھ فوراً انسٹاگرام کا رخ کیا اور اپنے فالوورز کو اطلاع دی کہ ’’ابھی ہم زندہ ہیں‘‘انہوں نے بتایا کہ انتقال مدرانڈیا فلم کے اداکار ساجد خان کا ہوا ہے۔ یہاں  تو ہم نام ہونے کے سبب کنفیوزن ہوگیا لیکن یہ عام بات ہے کہ مشہور شخصیات جہاں  کچھ دن ’لائم لائٹ‘ سے دور ہوتے ہیں کوئی نہ کوئی ان کی بیماری یا دنیا سے چلے جانے کی افواہ اڑادیتا ہے۔ بہرحال، اس اعتراف میں  کوئی مضائقہ نہیں  کہ  جائزہ میں بہت ساری باتیں چھوٹ گئی ہیں ، جبکہ کچھ دانستہ چھوڑ دی گئیں۔ جو چھوٹ گئیں اس کا سبب کچھ تو تنگی داماں ہے اور کچھ اپنی بے خبری ۔ اورجن سے دامن بچالیا گیا ان کا سبب نہ پوچھئے۔ ایسی صورتحال کیلئے سوشل میڈیا کے جغادری بھوجپوری کا ایک فقرہ کہتے ہیں ’’کہب تو لگ جائی دھک سے‘‘ سمجھدار کو اشارہ کافی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK