یہ افسوسناک ہے کہ دکھ کی اس گھڑی میں بھی نفرت کے کچھ سوداگر فرقہ واریت پر مبنی بیانئے کو ہوادینے کا کام کررہے ہیں۔ تاہم انسانیت نوازوں نے نفرت انگیز شور کی پروا نہیں کی اور محبت و بھائی چارے کے پیغام کو پھیلانے کی ہرممکن کوشش کی۔
EPAPER
Updated: April 27, 2025, 1:50 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
یہ افسوسناک ہے کہ دکھ کی اس گھڑی میں بھی نفرت کے کچھ سوداگر فرقہ واریت پر مبنی بیانئے کو ہوادینے کا کام کررہے ہیں۔ تاہم انسانیت نوازوں نے نفرت انگیز شور کی پروا نہیں کی اور محبت و بھائی چارے کے پیغام کو پھیلانے کی ہرممکن کوشش کی۔
پہلگام حملے پر سوشل میڈیا حلقے بھی مضطرب ہیں۔ ۲۶؍بے گناہوں کے قتل پر لوگ رنج و غم کا اظہار کررہے ہیں۔ ہر کوئی دہشت گردوں کے اس ظالمانہ فعل کی مذمت کررہا ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ دکھ کی اس گھڑی میں بھی نفرت کے کچھ سوداگر فرقہ واریت پر مبنی بیانئے کو ہوادینے کا کام کررہے ہیں۔ تاہم انسانیت نوازوں نے نفرت انگیز شور کی پروا نہیں کی اور محبت و بھائی چارے کے پیغام کو پھیلانے کی ہرممکن کوشش کی۔ لوگوں نے ان کشمیریوں کی بہادری اور انسانیت نوازی کی پزیرائی کی جنہوں نے حملے کے دوران اپنی جان پر کھیل کر سیاحوں کومحفوظ مقامات پر پہنچایا۔
گورو پنڈھی نے ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے لکھاکہ ’’دہشت گرد کیا چاہتے ہیں ؟ یہی کہ ہم کشمیر جانا بند کردیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ہم کشمیریوں سے نفرت کریں تاکہ کشمیری الگ تھلگ پڑجائیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہندو او رمسلم ایک دوسرے کے سامنے آجائیں، کیونکہ اس سے ملک کمزور ہوگا۔ اسلئے انہیں وہ نہ دیں جو وہ چاہتے ہیں۔ ‘‘ورون سنتوش نے سید عادل حسین شاہ کی قربانی کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ اس سچے ہیرو(سید عادل)کی یاد میں اپنے سروں کو احتراماً جھکائیں جو ہندوؤں کی حفاظت کیلئے دہشت گردوں سے لڑکر شہید ہوگیا۔ ‘‘ رَشمی پُرانک نے اپنے تاثرات یوں بیان کئے کہ ’’سانگلی کے سیاحوں نے بتایا کہ ڈرائیور نے ان کی جان بچائی، گائیڈ اور مقامی افراد نے مدد کی، کھانا کھلایا۔ دہشت گردوں نے بے گناہوں کی جانیں لیں لیکن عام کشمیریوں نے انسانیت دکھائی۔ انسانیت جیتنی ہی چاہئے۔ ‘‘
ابھینو پانڈے یوں رقمطراز ہوئے کہ ’’یہ سچ ہے کہ دہشت گردوں نے مذہب پوچھ کر مارا مگر یہ بھی سچ ہے کہ فوج نہیں تھی وہاں اور بچانے والوں نے دھرم دیکھ کر نہیں بچایا، کوئی کندھے پر لے کر بھاگا تو کوئی گھوڑے سے، یہ سچ ہے کہ دہشت گردوں نے کلمہ پڑھوایا مگر یہ بھی سچ ہے کہ عادل حسین نے لوگوں کو بچانے کیلئے دہشت گردوں کی بندوق چھیننے کی کوشش کی اور اسے تین گولی ماری گئی۔ یہ سچ ہے کہ لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر الگ کرکے مارا گیا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اننت ناگ کے جی ایم سی اسپتال میں ڈاکٹر رخسانہ کی ٹیم ۳؍ دن سے اسپتال چھوڑ کر گھر نہیں گئی۔ سبھی نے زخمیوں کا جی جان لگاکر علاج کیا۔ مارنے والوں نے نفرت کو چنا، بچانے والوں نے انسانیت کو۔ ‘‘
وویک لاٹا نے سجاد احمد بھٹ نامی نوجوان کی پزیرائی کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ نفرت کے اس دور میں انسانیت اب بھی زندہ ہے۔ وطن کیلئے مرمٹنے کو تیار لاکھوں سورما اب بھی زندہ ہیں۔ اوروں کی خودداری اور ایمان پر سوال اٹھانے والے جاہلوں ذرا غور سے سنو، وطن سے محبت اور انسانیت کو مذہب سمجھنے والوں کی تعداد تم سے زیادہ ہے۔ یہ ہیں سجاد احمد دیش کے اصلی ہیرو۔ ‘‘
ڈاکٹر میدوسا نے لکھا کہ ’’مذہب پوچھ کر ہجومی تشدد کرنا، دھرم پوچھ کر نوکری سے نکالنا، دھرم پوچھ کر گھر دینے سے انکار کرنا اور دھرم پوچھ کر انہدامی کارروائی کرنا وغیرہ وغیرہ بھی دہشت گردی ہی ہے۔ اصلی دہشت گرد کو پہچانئے۔ ‘‘
نغمہ نگار منوج منتشرنے نفرتی پروپگنڈہ کو ہوا دیتے ہوئے لکھا کہ ’’آتنک واد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، آتنک وادی ہندو یا مسلمان نہیں، صرف آتنک وادی ہوتے ہیں، ہے اِیشور، اگلے جنم میں مجھے بھیڑیا بنانا تاکہ میں ایسا کہنے والے دانشوروں کا منہ نوچ لوں۔ ‘‘اس پر انل یادو نے انہیں لکھا کہ ’’بھائی تو اسی جنم میں بھیڑیا ہے، شیشہ دیکھ لے۔ ‘‘گرجیش وششٹھ نے منتشر کو آئینہ دکھایا کہ ’’تم اس جنم میں بھی بھیڑیا ہی تو ہو، ملک کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے میں لگے ہو۔ آتنک واد کا دھرم ہے تو پھر ایل ٹی ٹی ای، گوڈسے اور پربھاکر کے ساتھ تمہیں بھی دہشت گرد قرار دے دیں کیا؟‘‘ڈاکٹر مشیرخان نے جئے پورایکسپریس کے دہشت گردانہ حملے کی مثال دیتے ہوئے منتشر کو یاددلایا کہ ’’ یہ چیتن سنگھ ہے، اس نے ٹرین میں نام پوچھ کر ہی گولی ماری تھی، اس آتنکی کا کیا مذہب تھا منتشر؟‘‘
امیت آف لائن نامی صارف نے کشمیری طلبہ کے ساتھ اظہار یگانگت کرتے ہوئے ایکس پر یہ پیغام جاری کیا کہ ’’چنڈی گڑھ میں مقیم کوئی بھی کشمیری طالب علم اگر خود کو ڈرا ہوا محسوس کررہا ہو تو وہ میرے گھر آسکتا ہے۔ میرا وعدہ ہے کہ اس کی میزبانی میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ منقسم ہندوستان ہارے گا، متحد ہندوستان جیتے گااور آگے بڑھے گا۔ جنہیں اس ٹویٹ سے مسئلہ ہے وہ براہ مہربانی مراقبہ کریں اور خود کو سدھاریں۔ آپ انسان ہی پیدا ہوئے تھے۔ اگر آپ نفرت میں زومبی بن گئے ہیں تو خدارااپنے آپ کو پھر سے انسان بنائیں۔ خدا نے آپ کو نفرت پھیلانے کیلئے نہیں بنایا ہے۔ اچھی کتابیں پڑھئے۔ ‘‘
حافظ لطیف نامی کشمیری نوجوان نے ان وارداتوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایکس پر لکھا کہ’’یہ کشمیری مسلمان ہی ہیں جنہوں نے پہلگام حملے کی مذمت کی، یہ کشمیری مسلمان ہی ہیں جنہوں نے احتجاجاً بند منایا، یہ کشمیری مسلمان ہی ہیں جنہوں نے کینڈل مارچ نکالا۔ یہ کشمیری مسلمان ہی ہیں جنہوں نے سیاحوں کیلئے مفت رہائش و طعام کا انتظام کیا، انہیں بلامعاوضہ ان کی منزل تک پہنچایا، وہ کشمیری مسلم عادل حسین ہی تھا جو سیاحوں کو بچاتے ہوئے شہید ہوگیا۔ باوجود ان سب کے کشمیری مسلمانوں پر تشدد کیا جارہا ہے۔ کیوں ؟‘‘
سعدیہ نامی صارف نے لکھا کہ ’’کشمیر میں جو کچھ ہوا اس سے دل چھلنی ہے، لیکن اس کے بعد کشمیری طلبہ کے ساتھ جو کچھ وادی کے باہر ہورہا ہے وہ بھی بہت برا ہے۔ انہیں کشمیری ہونے کے سبب ہراساں کیاگیا، ہدف تشد د بنایا گیا۔ ہم اس درد اوررسوائی کے حقدار نہیں ہیں۔ ہمارے ساتھ کھڑے ہوئیے۔ ‘‘
پہلگام سانحہ کے بعدجو کچھ تاثرات ہم نے سوشل میڈیا پر پڑھے، ان کی بنیاد پر ہم جاتے جاتے اتنا ہی کہیں گے کہ نفرت کی آندھی چاہے کتنی ہی منہ زور ہوجائے، محبت کے شجر کی جڑیں بڑی مضبوط ہیں۔ اسی کا ثبوت ہے کہ ہرطرف سے دہشت گردی اور نفرت کے خلاف توانا آوازیں اٹھیں۔ یہ ہونا بھی چاہئے، بقول چرن سنگھ بشر:
یہ دنیا نفرتوں کے آخری اسٹیج پہ ہے
علاج اس کا محبت کے سوا کچھ بھی نہیں