مسٹر کرکٹ انالسٹ نے لکھا کہ ”سلیکٹروں کا بے حد خراب فیصلہ، ایک ٹیسٹ بلے باز کو متاثر کن کارکردگی کے باوجود ٹیم سے باہر کردیا گیا۔
EPAPER
Updated: October 26, 2025, 4:37 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
مسٹر کرکٹ انالسٹ نے لکھا کہ ”سلیکٹروں کا بے حد خراب فیصلہ، ایک ٹیسٹ بلے باز کو متاثر کن کارکردگی کے باوجود ٹیم سے باہر کردیا گیا۔
یوں تو سوشل میڈیا پر پچھلے آٹھ دنوں میں کئی موضوعات ٹرینڈنگ رہے۔ لیکن ہم بات کریں گے ممبئی کے ہونہار بلے باز سرفرازخان کیلئے چھڑنے والی لفظی جنگ کی۔ کیونکہ سرفراز کو ٹیم انڈیا سے باہر کئے جانے کے بعد اب انہیں جونیئر ٹیم میں بھی جگہ نہیں دی جارہی ہے۔ جنوبی افریقہ کیخلاف انڈیا اے ٹیم کیلئے بھی انہیں نظر انداز کردیا گیا۔ اس پر سرفراز کے مداحوں کے ساتھ ساتھ کرکٹ بین بھی ہتھے سے اکھڑگئے ہیں۔ بی سی سی آئی انتظامیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر جم کر تنقیدیں کی جارہی ہیں۔
سینئر صحافی و کھیل مبصرایاز میمن نے ایکس پر ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ”سرفراز خان کو انڈیا اے میں منتخب نہ کرنا واقعی حیران کن لگتا ہے۔ وہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں رنوں کا انبار لگاچکے ہیں۔ اپنے مختصر ٹیسٹ کرکٹ کریئر میں بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ ایسے میں انہیں نظرانداز کرنے پر اجیت اگرکر اور بی سی سی آئی انتظامیہ کو سرفراز کی عدم شمولیت کا سبب واضح کرنا چاہئے۔ “
کرکٹ تجزیہ کاروکرانت گپتا نے لکھا کہ ”سرفراز خان کی مسلسل عدم موجودگی پر میں بھی حیران ہوں۔ اب انہیں افریقہ کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں کیلئے بھی اے ٹیم میں بھی جگہ نہیں دی گئی ہے۔ “ بھرت رام راج نے لکھا کہ”سینئر ٹیم نہ سہی لیکن سرفراز خان کم ازکم انڈیا اے کی طرف سے توکھیلنے کے حقدار ہیں۔ “مسٹر کرکٹ انالسٹ نے لکھا کہ ”سلیکٹروں کا بے حد خراب فیصلہ، ایک ٹیسٹ بلے باز کو متاثر کن کارکردگی کے باوجود ٹیم سے باہر کردیا گیا۔ اس کی انتھک محنت اور استقامت کے صلے میں جگہ تو بنتی ہے۔ افسوس!اسے مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ “
یہ بحث اتنی بڑھی کہ میڈیا کو بھی ’مسالہ‘ مل گیا۔ ہوا یوں یہ کہ ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی جو خود بھی ماضی میں یونیورسٹی لیول کے کرکٹر رہے ہیں، نے سرفراز کے مسئلے پر انڈین ایکسپریس میں شائع ہونیوالے دیویندر پانڈے کا مضمون شیئر کرتے ہوئے سوال قائم کردیا کہ ”سرفراز خان کو انڈیا اے کیلئے کیوں منتخب نہیں کیا گیا؟“ان کے ساتھ ساتھ کانگریس کی لیڈر شمع محمد نے بھی سوال پوچھ لیا کہ”کیا سرفراز کو ان کے سرنیم کے سبب منتخب نہیں کیا جارہا ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ اس معاملے میں گوتم گمبھیر کا کیا موقف ہوگا؟“ٹی وی میڈیا کو ’مذہب‘ کا اینگل ملنے کی دیر تھی، وہ شروع پڑگیا۔ اس درمیان کرکٹراورکمنٹیٹر عرفان پٹھان نے غیرجانبدارانہ رخ اپناکر یہ مشورہ دیا کہ ”سلیکٹر اور کوچ(مینجمنٹ) کے پاس ہمیشہ کوئی پلان ہوتا ہے۔ مداحوں کو یہ غلط بھی لگ سکتا ہے۔ لیکن براہ مہربانی بات کو غلط رخ پر نہ لے جائیں اور نہ ہی کوئی بیانیہ گھڑیں جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ “
عرفان کایہ مشورہ نیٹیزنس کو پسند نہ آیا۔ فرحان اشفاق نے عرفان سے استفسار کیا کہ ”آپ بالکل صحیح ہو، پھر جب آپ کو دھونی نے بٹھایا تھا تو کیوں لوگوں سے کہا تھا کہ آپ حقہ بناکر دینے والوں میں سے نہیں، اسلئے ٹیم میں نہیں ہیں ؟ تب کو چ اور سلیکٹر کو پلان کا کریڈٹ کیوں نہیں دیا؟آپ دن بہ دن بے شرمی کی حدوں کو پار کر رہے ہیں۔ “پون کمار بیونالے نے عرفان کو لکھا کہ ”لگتا ہے کہ آپ کو بی سی سی آئی نے پیسہ دیا ہے ان کا بیانیہ چلانے کیلئے۔ حتیٰ کہ میچ کی کمنٹری میں آپ روہت پر تب بھی تنقید کررہے تھے جب اس نے شاندار ففٹی بنائی تھی۔ آپ یہ بتارہے تھے کہ کتنی بار روہت کو گیند بازوں نے بِیٹ کیا۔ اسلئے دوسروں کو بیانیہ پروسنے کی نصیحت نہ کریں۔ “ سیم این آرآئی نامی صارف نے لکھا کہ ”ٹھیک ہے کہ کوچ اور سلیکٹرز کا کوئی منصوبہ ہوتا ہے۔ لیکن سرفراز کے معاملے میں کیسے صفائی دیں گے؟وہ تو ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل کرکٹ میں لاجواب فارم میں نظر آیا ہے۔ پھر بھی اسے نظر انداز کیا جارہا ہے۔ فینز کوئی بیانیہ نہیں گھڑرہے ہیں۔ “
سینئر صحافی راج دیپ سردیسائی نے بھی سوال قائم کیا کہ ”سرفراز خان انڈیا اے کیلئے بھی اہل نہیں سمجھے جارہے، جبکہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں ان سے کم ریکارڈ کے حامل کھلاڑیوں کو مسلسل موقع پر موقع دئیے جارہے ہیں ؟اس رویہ کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی کرکٹ انتظامیہ میں کوئی تو ہے جسے سرفراز سے مسئلہ ہے۔ اس سے بھی برا یہ ہے کہ سلیکشن نہ کرنے پر انتظامیہ کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں دی جاتی۔ “ سری ناتھ رائے چودھری نے کوچ گوتم گمبھیر کا نام لئے بغیر اشارتاً لکھا کہ ”کوئی ڈومیسٹک ریکارڈ نہ ہونے کے باوجود ہرشیت رانا کو منتخب کرلیا جاتا ہےکیونکہ وہ بلہ گھماسکتا ہے اور صحیح لوگوں کو رام کرسکتا ہےجبکہ سرفراز خان فرسٹ کلاس کرکٹ میں ۶۵؍ کا اوسط رکھنے کے بعد بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ مسخرے پن کی حد ہے یہ۔ “
شکور سُروے نامی صارف تو اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ انہوں نے لکھا کہ ”بی سی سی آئی سے درخواست ہے کہ سرفراز خان کوگھریلو کرکٹ میں بھی نہ کھلائےکیونکہ جب آپ کو اسے چننا ہی نہیں ہے تو کیوں کھلاتے ہو؟“ وکاس نامی صارف نے لکھا کہ ”پچھلے ۵؍ سال میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں سرفراز نے۱۱۷ء۴۷؍کے ایوریج سے رن بنائے، دس سنچریاں اور ۵/ نصف سیکڑے بنائے۔ اپنا وزن ۱۷؍کلو گھٹادیا اور فٹ نیس کو بھی بہتر کیا۔ اس کے باوجود ساؤتھ افریقہ کیخلاف ہونیوالی انڈیا اے کی سیریز کیلئے اسے جگہ نہیں دی گئی۔ سلیکٹرز اسے کیوں نظر انداز کر رہے ہیں ؟“
سنتوش بھارت ونشی نے لکھا کہ ’’یہ سوال صرف دو کھلاڑیوں (محمدسمیع اور سرفراز خان) کا نہیں ہےبلکہ اس بھروسے کا ہے جو کروڑوں ہندوستانی کرکٹ میں رکھتے ہیں۔ جب سرفراز جیسا کھلاڑی جو لگاتار رن بنارہا ہے، اور محمدسمیع جیسا تجربہ کار گیندباز ٹیم سے باہر رہتا ہے یہ صاف نظر آتا ہے کہ ٹیلنٹ سے زیادہ سیاست کی چالیں چل رہی ہیں۔ “جاوید ایم انصاری نے لکھا کہ ”میں حیران ہوں کہ سرفراز خان نے ایسا کیا غلط کردیا ہے؟کیا اس نے کسی کی جیب کترلی؟یا کوئی بینک لوٹ لی ہے؟ سرفراز نے ڈومیسٹک کرکٹ میں ہزاروں رن بنائے ہیں لیکن انڈیا اے میں اس کی جگہ نہیں۔ بی سی سی آئی کووضاحت دینی چاہئے۔ “فرضی کرکٹر نامی ہینڈل سے طنز کیاگیا کہ ”سرفراز خان کیلئے سلیکشن کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ ایک ٹانگ پر کھڑا رہ کر بنا بلہ تھامے بلے بازی کرےاور سنچری بنائےجس میں ۸۰؍رن دوڑ دوڑکر بنائے اور پوری اننگز میں دو سے زیادہ چوکے نہ لگائے۔ “
خیر! خداجانے سلیکشن کے کس معیار اور کسوٹی پر سرفراز کو پرکھا جارہا ہے۔ ہم نور قریشی کا یہ شعر ان کی نذر کررہے ہیں کہ”گو آبلے ہیں پاؤں میں پھر بھی اے رہروو/منزل کی جستجو ہے تو جاری رہے سفر“۔