Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشل میڈیا کا استعمال اور اخلاقی قدروں کا بحران

Updated: June 07, 2023, 4:22 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

لائک، ڈِس لائک کے طلسم میں الجھا انسانی معاشرہ اپنے وجود کی ان حقیقتوں کو فراموش کرتا جا رہا ہے جن کی بدولت اسے اشرف اور افضل کہا جاتا ہے

The use of social media has increased significantly in the country
وطن عزیز میں سوشل میڈیا کا استعمال کافی بڑھ گیا ہے

سوشل میڈیا جب سوسائٹی میں متعارف ہوا تھا تو زندگی کے مختلف شعبوں کو اس سے ملنے والے ممکنہ فائدے کا جو اندازہ لگایا گیا تھا وہ اندازہ اب ان حدود سے بھی تجاوز کرتا نظر آرہا ہے جو حدود اس کے استعمال کو فرد اور سماج کیلئے فائدہ مند بناتی ہیں۔ اس میں کلام نہیں کہ سوشل میڈیا نے عالم گیر سطح پر انسانی سماج میں فکر و عمل کی سطح پر ایسا انقلاب پیدا کیا جس نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے طور طریقوں کو یکسر بدل دیا۔ اس تبدیلی نے جہاں ایک طرف فرد اور سماج کو اپنے عہد کے جدید مسائل اور معاملات سے آشنا کیا وہیں دوسری طرف اس کے کچھ ایسے اثرات بھی ظاہر ہونے شروع ہوئے جن کے سبب ہر دو سطح پر زندگی ان نئے اور پیچیدہ مسائل سے دوچار ہونے لگی جو مسائل اقدار حیات کے تصورکو دھندلا بنا رہے تھے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس تصور میں مزید دھندلا پن آتا رہا اور اب تو حالات یہ ہو گئے ہیں کہ جدید تکنیکی وسائل کے استعمال میں فرد اور سماج ایسے غیر معتدل رویے کا حامل ہو گیا ہے جو انسانی اخلاقیات کیلئے سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ اس ضمن میں یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ اس مسئلے کا احساس سب کو ہے لیکن اس سے نمٹنے کیلئے نہ تو کوئی نتیجہ خیز حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے، نہ ہی ایک فرد کی حیثیت سے سماج کے تئیں اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ اقدام کیا جا رہا ہے جو فرد اور سماج کے رابطے کو استحکام عطا کرتا ہے ۔ فرد اور سماج کے رابطے میں پیدا ہوئی یہ صورتحال پورے سماجی نظام کو متاثر کرتی ہے اور آج کے دور میں اس کا مشاہدہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے کہ انسان اپنے رویے اور عمل کو ان سماجی اخلاقیات اور اقدار سے بالاتر سمجھنے لگا ہے جن کے بغیر ایک صالح سماج کا وجود ممکن نہیں ہے۔
 سوشل میڈیا پر مقبول ہونے کیلئے اب ایسے طریقے استعمال کئے جا رہے ہیں جو ایک مہذب سماج کیلئے قطعی نامناسب ہیں۔اس پر طرہ یہ کہ سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم پر تحریر یا تصویر کی شکل میں کوئی مواد ارسال کرنے کے بعد بھیجنے والا اس پر عوام کا رد عمل جاننے کیلئے اس قدر بے چین رہتا ہے جیسے اس کے بغیر اس کے وجود کی کوئی حقیت ہی نہیں ہے۔ اس ضمن میں مزید توجہ طلب معاملہ یہ ہے کہ اگر رد عمل مثبت ہوتو ٹھیک اور اگر صورتحال اس کے برعکس ہو تو فریقین کے درمیان تبادلہ ٔ خیال مغلظات کی سطح پر پہنچ جاتا ہے ۔اس اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا کے لائک اور ڈِس لائک کے طلسم میں الجھا ہوا انسانی معاشرہ اپنے وجود کی ان حقیقتوں کو بہت تیزی سے فراموش کرتا جا رہا ہے جن حقیقتوں کی بدولت اسے اشرف اور افضل ہونے کا امتیاز حاصل ہوا ہے ۔جیسے جیسے اس لائک اور ڈس لائک کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے اس امتیاز کے نقوش تیزی کے ساتھ مٹتے جا رہے ہیں۔ 
 سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر ایسے مواد کا ملنا عام بات ہو گئی ہے جن سے نہ صرف انسانی اخلاقیات پر حرف آتا ہے بلکہ ایسے مواد سے سماج کے اجتماعی رویے پر بھی ایسے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو انسانوں کے باہمی رابطہ کو کئی طرح کے مسائل سے دوچار کرتے ہیں۔اس وقت عوام کے درمیان پسندیدگی کا یہ خبط ایسی وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے جو ہر عمر اور ہر طبقہ اور ہر رشتہ کو متاثر کر رہا ہے۔ اس خبط نے شرم و حیا کے اس تصور کو بری طرح متاثر کیا ہے جس تصور کی بنا پر انسانی معاشرہ میں تہذیب اور اخلاقی اقدار کا دار و مدار ہے۔ اس وقت بچوں سے لے کر معمر شہریوں تک میں یہ خبط اتنی گہرائی تک سرایت کر چکا ہے کہ عمر کے اعتبار سے انسانی رشتوں میں حفظ مراتب کا جو معاملہ ہوا کرتا تھا وہ رفتہ رفتہ معدوم ہوتا جارہا ہے۔ سماج کے سینئر افراد  یہ شکایت کرتے نہیں تھکتے کہ معاشرہ بگاڑ کے اس مقام پر پہنچ چکا ہے جس میں سدھار کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے ۔ شکایت کرنے والوں میں بھی ایسے لوگ بہ آسانی مل جائیں گے جو سماج کی تبدیل شدہ صورتحال پر افسوس تو ظاہر کرتے ہیں لیکن یہ افسوس صرف زبانی سطح پر ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے شب و روز کا مشاہدہ کیا جائے تو اکثر یہ سچائی سامنے آتی ہے کہ یہ طبقہ بھی اپنی انسانی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنا بیشتر وقت ایسے کاموں میں صرف کرنے لگا ہے جن کاموں سے نہ تو سماج کا کوئی بھلا ہونے والا ہے اور نہ ہی ان کی عزت و توقیر میں کوئی اضافہ ہوگا۔اس طبقہ میں بھی ایسے افراد کی تعداد بتدریج بڑھتی جا رہی ہے جو سوشل میڈیا کے طلسم میں پوری طرح گرفتار ہو چکے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو نہ تو اپنی عمر کا خیال ہوتا ہے، نہ ہی انھیں اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر جس مواد کی تشہیر کر رہے ہیں اس کا ان کی ذات اور ان کی ذات سے وابستہ دیگر افراد پر کیا اثر ہوگا؟
 سماج کے سینئر افراد کی حیثیت اب ایسے خاموش اور بے حس تماشائی کی ہو گئی ہے جو ساحل پر کھڑا ہو کر صرف موجوں کا تلاطم دیکھ رہا ہے ۔ اگر چہ وہ ان موجوں کے تلاطم پر قابو پانے کی کئی تدابیر کا اہل بھی ہے لیکن اپنی ذات پر عدم اعتماد اور سماجی سطح پر عدم تحفظ کی نفسیات نے اسے اس قدر جکڑ لیا ہے کہ وہ ان تدابیر کو بروئے کار لانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے۔ اور اس صورتحال نے سماج کے باقی تمام طبقات کا بھی برا حال کر رکھا ہے۔ خصوصاً وہ نسل جس پر ملک اور معاشرہ کی ترقی اور خوشحال کا دار و مدار ہوتا ہے۔ نوجوان نسل اپنی توانائی اور وقت کا بیشتر حصہ ایسے ہی بے سود اور لایعنی کاموں میں صرف کرنے کی خوگر ہو گئی ہے جس سے اس کی شخصیت میں کوئی نکھار پیدا ہونا تو دور کی بات الٹے ان کی شخصیت میں ایسی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں جو انھیں نفسیاتی اور جذباتی طور پر مجروح کرتی ہیں۔یہ نسل جسے اپنے بہتر مستقبل کیلئے سنجیدہ ہونا چاہئے اب اس بات پر زیادہ سنجیدہ دکھائی دیتی ہے کہ اسے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمس پر کتنی شہرت حاصل ہے۔ اگرشہرت کے معاملے میں ان کی توقع اس طرح پوری نہیں ہوتی جیسا کہ انھوں نے اپنے ذہن میں خاکہ بنایا ہوتا ہے تو پھر اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اس نسل کے بعض افراد سماجی مقبولیت کے حصول کیلئے اکثر ایسا راستہ بھی اختیار کر لیتے ہیں جو بالآخر ان کی ان کے متعلقین کیلئے باعث رسوائی ثابت ہوتا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ ان سب سے بے پروا یہ نسل ایک لائک پانے کیلئے کیا کیا کچھ نہیں کرتی ۔سماجی مقبولیت اور پسندیدگی کا شوق اس نسل میں اب رفتہ رفتہ جنون کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے اور جنون کی تسکین کیلئے یہ نسل ہر وہ عمل کو کر گزرنے پر آمادہ نظر آتی ہے جو انسانی اخلاقیات کی رو سے انتہا درجے تک معیوب قرار دی جا سکتی ہے۔
 اس نسل کا یہ جنون صرف لڑکوں میں ہی نہیں ہے بلکہ لڑکیاں بھی اس جنون میں بری طرح گرفتار نظر آتی ہیں۔کسی بھی قسم کے سماجی اور معاشی اختصاص سے ماورا یہ نسل اپنی شخصیت اور کردار کو سماج میں مقبول بنانے کی غرض سے ایسی ایسی حرکتیں کرتی نظر آتی ہے جو مہذب انسانی سماج کیلئے ایک بدنما داغ کی حیثیت رکھتی ہیں۔خود کو نام نہاد ترقی اور جدید طرز حیات کا حامل ثابت کرنے کے پھیر میں اس نسل نے اپنی شخصیت کے اظہار کا ایسا بیہودہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے جو انتہائی شرمناک ہے۔ یہ جنون صرف نوعمر یا نوجوان لڑکیوں ہی کے سر پر سوار نہیں ہے بلکہ بعض عمر دراز خواتین بھی پسندیدگی کے اس چکر میں اس طرح الجھی نظر آتی ہیں کہ انھیں اپنی عمر کا بھی لحاظ نہیں رہتا۔ ماڈرن بننے اور سماج میں اپنی انفرادی شناخت قائم کرنے کی خاطر ان کی حرکات بیہودگی کے دائرے سے تجاوز کر کے فحشیات کی حدود میں پہنچتی نظر آتی ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود انھیں اپنی غیرت اور عزت کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔
 اس خبط کی تسکین کی خاطر سینئر افراد نے اب کم عمر بچوں کو بھی اس جال میں الجھا دیا ہے۔ یہ افراد سوشل میڈیا پر اپنی مقبولیت میں اضافہ کیلئے بچوں سے ایسی حرکتیں کرواتے ہیں جو بجا طور پر مخرب اخلاق کے دائرے میں آتی ہیں۔ کم عمر بچوں کو تشدد اور فحش کلمات اور حرکات کا عادی بنا کر ممکن ہے کہ ایسے افراد اپنے ہی جیسے دوسرے لوگوں سے لائک حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہوں لیکن ان کے اس عمل سے کم عمر بچوں کی زندگی کس نہج پر جائے گی اس کا انھیں اندازہ بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں کم عمر بچوں کے اندر تشدد، نفرت اور جنسی کج روی کے معاملات بہت زیادہ پائے جانے لگے ہیں۔ سوشل میڈیا کی نعمت اب ایسی زحمت بنتی جا رہی ہے جس کا خمیازہ کسی نہ کسی سطح پر پورا سماج بھگت رہا ہے ۔ اس کے باوجود انسانی معاشرہ اپنی اس روش کو تبدیل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ظاہر کررہا ہے ۔ اگر یہ صورتحال تادیر باقی رہی تو مستقبل کا انسانی سماج اخلاقیات اور اقدار حیات کے معاملے میں جو رویہ اختیار کریں گی اس کاتصور بھی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK