Inquilab Logo

سوشل میڈیا :دینی تعلیم کی روشنی میں مثبت استعمال کیجئے

Updated: January 08, 2021, 12:10 PM IST | Mohammed Iqbal Chishti

وقت اور حالات کے ساتھ ٹیکنالوجی کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اکثر اس کا منفی استعمال بھی ہوتا ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ بالخصوص نئی نسل پوری ذمہ داری کے اس سے فائدہ اٹھائے۔

Social Media - Pic : INN
ایک مسلمان اسلامی اقدار پر عمل کرتے ہوئے اپنے وجود کو دوسروں کے لئے نفع مند بناتا ہے

مرورِ زمانہ کے ساتھ  جہاں انسان نے اپنی زندگی کو راحت و فرحت فراہم کرنے کے لئے اختراعات و ایجادات کا دروازہ کھولا ہے، وہیں پر انسانی زندگی برائی اور اس کے امکانات کے ساتھ بھی بری طرح دوچار ہوئی ہے۔ اخلاقی اقدار کا انحطاط و زوال جس طرح دورِ جدید میں سوشل میڈیا کے ذریعے ہوا ہے، شاید ہی کوئی ایسا دور گزرا ہو جس میں انسانی اقدار کو اس طرح مجروح کیا گیا ہو۔ آج کے ’’سوشل میڈیا وار‘‘ کے دور میں  سوشل میڈیا پر ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو خیر و شر پر مبنی مواد شیئر کرنے کی تمیز ہی نہیں رکھتے  ۔
 سوشل میڈیا پر انسانی شکلوں کی بگاڑ، مخالفین پر طعن و تشنیع، عزت ِ نفس کی پامالی اور بغیر تحقیق و تنقیح کے مختلف پوسٹس کی ترسیل اور ’’فرینڈشپ‘‘ جیسے اُن مسائل نے جنم لیا ہے کہ جن کا علاج دورِ حاضر کے باحثین و محققین کے ہاں اگر ناممکن نہیں تو کم از کم مشکل ضرور ہے۔  دورِ حاضر کے نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ایجابی و سلبی (Positive & Negative) پہلوؤں کی آگہی دینا والدین اور معاشرے کے تمام باشعور طبقات پر فرض ہے۔ سوشل میڈیا کے متعلق  مناسب اور بروقت تربیت نہ ہونے کے باعث آج کا نوجوان اپنے آباء و اجداد اور سماجی و اخلاقی اقدار کو بے خبری میں روندے جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال آج وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے مگر اسے  اسلامی اقدار اور تہذیب ِ افکار کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے استعمال کرنے سے ہی دنیاوی و اخروی کامیابی کا حصول ممکن ہے۔
 سوشل میڈیا کے ہماری معاشرتی اور اخلاقی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں اور وہ کون سے محرکات ہیں جن کے باعث ہم جانے انجانے میں مثبت و منفی مواد کو شیئر کرتے ہیں؟ ان نکات کو زیرنظر مضمون میں ان اسلامی تعلیمات اور جدید تقاضوں کی روشنی میں بیان کیا جارہا ہے:
سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بنانا
 عصر حاضر میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا۔ فی نفسہ ٹویٹر، انسٹاگرام، اسکائپ اور فیس بک وغیرہ پر اکاؤنٹ بنانا  اسلامی اقدار پر مبنی معلومات فراہم کرنے ، یا لوگوں کو اچھائی کی طرف راغب کرنے کی نیت  سے ہوتو بہتر ہے ۔ کوئی شخص عصری علوم کو عام کرنے کی غرض سے بھی اکاؤنٹ بنا سکتا ہے ۔ البتہ اگر اس کے ذریعے گناہ کے فروغ اور برائی کا پھیلاؤ مقصد ہو تو یہ بالکل ناجائز اور حرام ہوگا۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
 ’’اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ ‘‘(المائدہ:۲)
جعلی اکاؤنٹ: اسلام سچ بولنے کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر نہ صرف یہ کہ جھوٹ سے بچنے کی ترغیب دلائی گئی ہے بلکہ جھوٹ بولنے والے کو زبانِ نبوی نے منافق  قرار دیا ہے۔ آج سوشل میڈیا پر اپنے ناواقف فرینڈز سے جھوٹ بولنا اور اصل حقائق کے برعکس بیانات دینے کا رواج عام ہے۔ اسی طرح عموماً یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بسا اوقات لوگ کسی مجہول یا فرضی نام سے اپنا اکاؤنٹ بنالیتے ہیں۔ اگر ہم جعلی (Fake) اور غلط شناخت والے اکاؤنٹ کو اسلامی اقدار کے پیرائے میں پرکھیں تو یہ عمل انتہائی قبیح اور قابل مذمت ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
 ’’بے شک تم لوگوں میں سب سے برا اس کو پاؤ گے جس کے دوچہرےہوں گے، ایک کے پاس ایک چہرے سے  ملاقات کرے گا اور دوسرے کے پاس دوسرے چہرے سے۔‘‘ 
(صحیح بخاری ، ج۶، ص۲۶۲۶)
’فرینڈشپ ریکویسٹ ‘قبول کرنا
 دورِ جدید میں دوستی کا معیار بھی تبدیل ہوچکا ہے۔ ہمارے اسلاف کا یہ طرز عمل تھا کہ وہ اگر کسی کے ساتھ دوستی بھی کرتے تو نیک اور دیندار شخص کو ترجیح دیتے ، لیکن دورِ جدید میں دوستی کا ٹرینڈ بدل گیا۔ بسا اوقات سوشل میڈیا پر ہمیں دوستی قبول کرنے کے پیغامات ملتے رہتے ہیں۔ اس صورت میں  اس بندے کے کوائف کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے کہ اس میں کسی قسم کی غیراخلاقی بات نہ پائی جاتی ہو۔
سوشل میڈیا پر تعلیمی و مفید 
پروگرامز میں شرکت
 سوشل میڈیا کے جہاں منفی اثرات  ہیں وہیں اس کے فوائد اور مثبت اثرات سے بھی کوئی ذی شعور اور فہم و فراست رکھنے والا شخص انکار نہیں کرسکتا۔  سوشل میڈیا پر تعلیمی یا مفید پروگرامز اور فورم میں شرکت کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’حکمت کی بات بندہ مومن کی گمشدہ متاع ہے، وہ اسے جہاں پاتا ہے اس کا حقدار ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی، السنن، ج۵، ص ۵۱)
 سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف پروگرامز کا انعقاد کرنا، جس میں عوام الناس کے لئے منافع اور لوگوں کو موجودہ مسائل سے متعلقہ رہنمائی میسر آسکے، جائز اور مستحسن امر ہے اس لئے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
 ’’لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب شخص وہ ہے جو لوگوں کے لئے زیادہ نفع مند ہو۔‘‘ (طبرانی، المجم الکبیر، ج۱۲، ص۴۵۳) اس حدیث کی روشنی میں ایک مسلمان اسلامی اقدار پر عمل کرتے ہوئے اپنے وجود کو دوسروں کے لئے نفع مند بناتا ہے، نہ کہ مضر۔
غیرتحقیقی مواد کی نشر و اشاعت
 اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
 ’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔‘‘ (الحجرات:۶)
 حدیث نبویؐ قرآن کی وہ پہلی تفسیر ہے جو ہر حوالے سے تعلیمات ِ قرآنیہ کے معارف، غوامض،  رموز اور اشارات کو بالتفصیل و بالتوضیح بیان کرتی ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا:
 ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اُسے آگے بیان کردے۔‘‘ (صحیح مسلم، ۱:۱۰)
 مذکورہ بالا آیت  و حدیث کا مفہوم بڑی صراحت و وضاحت  کے ساتھ اس بات کو بیان کررہا ہے کہ کوئی بھی بات بغیر تحقیق و تنقیح کے آگے بیان نہیں کرنی چاہئے۔ یہی اصول و ضوابط ائمہ اسلام نے اپنائے۔ حصول ِ حدیث کے دوران اگر  انہیں کسی شخص کے متعلق جھوٹ بولنے  کا پتہ چلتا تھا تو وہ شخص سے حدیث نہیں لیتے تھے۔ آج کے دور میں ہم تصدیق کرنا گوارا نہیں کرتے، جونہی کسی کی بات سنتے ہیں، فوراً آگے بیان کرنے لگ جاتے ہیں۔ کسی پوسٹ کو آگے بڑھا دینا (فارورڈ کرنا) اسی نوع کا عمل ہے۔ مذکورہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں اس عمل سے بچنا چاہئے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK