Inquilab Logo

سیرت ِ علیؓ کے چند تابناک پہلو تاریخ و روایات کے آئینہ میں

Updated: April 01, 2024, 1:26 PM IST | Maulana Syed Abul Hasan Ali Nadvi | Mumbai

۲۱؍ رمضان المبارک: شہادت حضرت علی ؓ۔

"Masjid Ali ibn Abi Talib" was built in Dubai in 1979, which is also called the Iranian Mosque. Photo: INN
’’مسجد علی ؓ ابن ابی طالب‘‘ ۱۹۷۹ء میں دبئی میں تعمیر ہوئی تھی جسے ایرانیان مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ تصویر : آئی این این

 احکام شریعت کی سب سے زیادہ فہم رکھنے والے اور سب سے زیادہ صحیح فیصلہ کرنے والے
  متعدد روایات کے ذریعے رسول اللہ ﷺ سے یہ روایت ثابت ہے کہ آپؐ نے فرمایا : ’’أقضاکم علی‘‘ ’’تم لوگوں میں سب سے زیادہ صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت علیؓ میں ہے۔ ‘‘ حضرت علی ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جب مجھے رسولؐ اللہ نے یمن بھیجا اس وقت میں کمسن تھا۔ میں نے عرض کیا: آپؐ مجھے ان لوگوں میں بھیج رہے ہیں جن کے آپس میں جھگڑے ہوں گے اور مجھے فیصلہ چکانے اور فیصلہ کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تمہاری زبان سے صحیح بات نکلوائے گا اور تمہارے دل کو مطمئن کرے گا (کہ تم فیصلہ صحیح کررہے ہو)۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں، اس کے بعد مجھے کبھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں شک نہیں ہوا (کہ فیصلہ صحیح ہے یا نہیں )۔ (مسند امام احمد بن حنبل، ج۱ ص۸۳)
 حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسے الجھے ہوئے مسائل سے پناہ مانگتے جن کے کرنے کے لئے ابوالحسنؓ (حضرت علیؓ) نہ ہوں۔ (روایت ابوعمر از سعیدالمسیب ’ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفاء ‘)
 حضرت عمرؓ کا یہ مقولہ مروی ہے:لولا علیُّ لھلک عمر یعنی اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمر ؓ تباہ ہوجاتا۔ (ایضاً) حضرت عمرؓ کا حال یہ تھا کہ جب کوئی فیصلہ طلب پیچیدہ مسئلہ سامنے آتا تو فرماتے ’’مشکل پیش آگئی ہے اور اس کو حل کرنے کے لئے ابوالحسن نہیں ہیں۔ ‘‘ (عربی میں غایت احترام کے طور پر بجائے نام لینے کے کنیت کا حوالہ دیتے ہیں ) (العبقریات الاسلامیۃ للعقاد) 
 سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے حکیمانہ اور دُور اندیشانہ فیصلہ کا نمونہ وہ ہے جس کی روایت امام احمد بن حنبل نے مسند علی میں اپنی سند سے بیان کی ہے جو حنشؓ سے روایت کردہ ہے۔ وہ حضرت علی ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
 ’’جب رسو ل اللہ ﷺ نے مجھے یمن (اپنا نمائندہ بنا کر) بھیجا، وہاں مجھے ایسے لوگوں سے سابقہ پڑا جو آپس میں ایک عجیب قسم کے جھگڑے میں الجھے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے شیر کے شکار کے لئے ایک کمین گاہ کھودی تھی۔ جس وقت لوگ ایک دوسرے کو دھکا دے رہے تھے کہ ایک آدمی اس کے اندر گرنے لگا، وہ آدمی دوسرے آدمی سے جو دہانے پر تھا چمٹ گیا، اس دوسرے آدمی نے تیسرے آدمی کو پکڑلیا اور اس تیسرے نے چوتھے کو مضبوطی سے پکڑ لیا، نتیجہ یہ کہ چاروں یکے بعد دیگرے گر گئے اور شیر نے ان سب کو زخمی کردیا۔ اتنے میں ایک شخص نے اپنی کمر سے چھرا نکال کر شیر کو مارڈالا اور یہ چاروں زخموں کی تاب نہ لا کر ختم ہوگئے۔ میں نے ان لوگوں سے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں تم آپس میں دست و گریباں ہوگئے؟ میں تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں۔ اگر میرا فیصلہ منظور ہے تو خیر، ورنہ اس وقت جنگ مت کرو اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤ، آپؐ جو فیصلہ فرمادیں وہ تسلیم کرنا پڑے گا اور اس سے جو سرتابی کرے گا اس کا کوئی حق نہ ہوگا۔ 
 حضرت علی ؓ نے فرمایا : جن لوگوں نے کنواں (کمیں گاہ) کھودا ہے ان سے خوں بہا چار آدمیوں کا جمع کرو، ایک کا چوتھائی، دوسرے کا تہائی، تیسرے کا نصف اور چوتھے کو مکمل خوں بہا دیا جائے۔ 
  لوگوں نے اس فیصلہ کو منظور نہیں کیا اور وہ سب آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ اس وقت مقام ابراہیم کے قریب تشریف فرما تھے۔ ان لوگوں نے ماجرا سنایا۔ آپؐ نے فرمایا میں تمہارا فیصلہ کئے دیتا ہوں۔ لوگوں میں سے ایک نے کہا کہ علیؓ ہمارے درمیان فیصلہ کرچکے ہیں۔ آپؐ نے وہ فیصلہ سن کر اسی کی منظوری دے دی۔ 
حضرت حنشؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا علیؓ نے فرمایا: چوتھے شخص کو مکمل دیت (خوں بہا) کا حق ہے۔ (المسند)
کتاب و سنت کے عالم جلیل
  ابوعمیر ابوطفیل کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے حضرت علی ؓ کو اس وقت دیکھا جب لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے اور کہہ رہے تھے، ’’کتاب اللہ کے بارے میں جو چاہو پوچھ لو، بخدا قرآن کریم میں کوئی بھی ایسی آیت نہیں ہے جس کے بارے میں مجھے یہ نہ معلوم ہو کہ یہ رات کو نازل ہوئی ہے یا دن کو، (ہموار) راستے میں چلتے ہوئے نازل ہوئی ہے یا اس وقت جب آپؐ کسی پہاڑی پر تھے۔ (ازالۃ الخفا، ص۲۶۸)
 شریح بن ہانی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مسح علی الخفین کا مسئلہ دریافت کیا، آپؓ نے کہا : علیؓ سے پوچھو، اُن کو میری نسبت یہ مسئلہ زیادہ معلوم ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں جایا کرتے تھے۔ پھر میں نے حضرت علی ؓ سے دریافت کیا، انہوں نے کہا: فرمیا رسولؐ اللہ نے مسافر کے لئے تین راتیں اور دو دن ہیں اور مقیم کے لئے ایک دن و رات۔ (المسند، ج۱) 

ایک نرم خو اور مونس انسان: سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اپنی شجاعت، دلیری، دل کی مضبوطی اور ارادہ کی ٖپختگی کے ساتھ انتہائی نرم دل اور اُنس و محبت رکھنے والی شخصیت تھے۔ نازک انسانی احساسات کے مالک تھے، بہت ہی ملنسار، دلنوازاور نرم خو طبیعت پائی تھی۔ انسان کی یہ تمام خصوصیات اپنے جمال و کمال کے ساتھ اس وقت نمایاں ہوتی ہیں جب اس کا قاتل اس کے روبرو کھڑا ہو۔ روایت ہے کہ اس کے بارے میں، جس نے زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے آپؓ پر حملہ کیا تھا، آپؓ نے اپنے صاحبزادہ سیدنا حسنؓ سے فرمایا:
 ’’دیکھو حسنؓ! اگر میں اس کے حملہ سے جانبر نہ ہوسکوں تو اس پر ایک ہی وار کیا جائے، اس کا مثلہ ہرگز نہ کیا جائے۔ میں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، خبردار کسی کا مثلہ نہ کیا جائے خواہ کٹہا (کاٹنے والا) کتا ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘ (الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ، ج۳)
  جب ابن ملجم کو آپؓ کے سامنے لایا گیا تو آپؓ نے فرمایا: اس کو گرفتار کرو اور اس سے نرمی کا معاملہ کرو، اگر میں زندہ رہ گیا تو رائے قائم کروں گا کہ اس کو معاف کردوں یا قصاص لوں، اور اگر میں مرجاؤں تو ایک جان کا بدلہ صرف ایک جان ہے۔ (الجوہرۃ فی نسبی النبی ؐ و اصحابہ العشرہ، ج۲)
  جب سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ حضرت طلحہ ؓ کی لاش پر گئے تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اپنے دست ِ مبارک سے ان کے رخسار پر پڑی ہوئی گرد صاف کرتے ہوئے فرمایا: ابو محمد برداشت نہیں ہوتا کہ تم کو آسمان کے تاروں کے سایہ سے زخموں سے چور او ر پٹیوں میں بندھا ہوا دیکھوں۔ (اس موقع پر آپ کی زبان سے نکلا کہ) کاش اس دن کو دیکھنے سے بیس برس پہلے وہ دنیا سے رخصت ہوچکے ہوتے۔ 
(العبقریات الاسلامیہ)
  حضرت علی ؓ جس طرح اپنے چھوٹوں پر شفقت کرنے میں مشہور تھے اسی طرح اپنے بڑوں کی عزت و احترام کیلئے بھی ممتاز تھے۔ بچوں سے پیار کرتے، ان سے ہنسی کھیل کی باتیں کرتے اور ایسے لوگوں کو پسند فرماتے تھے جو بچوں کی دلجوئی اور دل بستگی سے دلچسپی رکھتے تھے۔ 
  آپؓ فرمایا کرتے تھے :
 ’’باپ کا بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر حق ہے، باپ کا یہ حق ہے کہ بیٹا ہر حال میں اس کی اطاعت کرے الّا یہ کہ باپ کسی معصیت کی بات کا حکم دے اس میں اس کا اتباع نہیں کیا جائے گا، اور باپ پر بیٹے کا یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، اچھی تربیت کرے اور قرآن پڑھائے۔ ‘‘ (ایضاً)
  ایک شخص آپ ؓ کی خدمت میں آکر کہنے لگا: یاامیرالمومنین! میری آپ سے ایک ضرورت ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا: اپنی ضرورت زمین پر لکھ دو، مجھے اچھا نہیں لگتا کہ سوال تمہارے چہرے پر پڑھوں۔ چنانچہ اس نے لکھا، آپؓ نے اس کی طلب سے زیادہ اس کی حاجت روائی فرما دی۔ (البدایہ والنہایہ، ج۸)
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے جن امور کی ابتداء ہوئی
 امیرالمومنین حضرت علی ؓ ابن ابی طالب سے متعدد ایسے کاموں کی ابتداء ہوئی جس کے آثار نہ صرف یہ کہ باقی و پائندہ ہیں بلکہ جب تک عربی زبان اور اس کے قواعد نحو و صَرف باقی ہیں، وہ کارنامہ زندۂ جاوید رہے گا۔ ابوالقاسم الزجاجی کی ’’امالی‘‘ میں مذکور ہے کہ میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ؓ کو دیکھا کہ سر جھکائے متفکر بیٹھے ہیں۔ میں نے عرض کیا: امیر المومنین! کس معاملہ میں متفکر ہیں ؟ فرمایا: میں تمہارے شہر میں عربی غلط طریقہ پر بولتے ہوئے سنتا ہوں، اس لئے چاہتا ہوں کہ زبان کے اصول و قواعد میں ایک یادداشت تیار کردوں۔ میں نے عرض کیا: اگر آپؓ ایسا کردیں تو ہمیں آپ کے ذریعہ زندگی مل جائے گی اور ہمارے یہاں عربی زبان باقی رہ جائے گی۔ اس گفتگو کے بعد پھر میں تین روز کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ایک کاغذ مرحمت فرمایا جس میں علم نحو کے ابتدائی مسائل درج تھے۔ 
 محقق فاضل استاذ العقاد کا بیان ہے:
 ’’یہ بات بالکل سچ ہے کہ اس علم کی تشکیل میں سیدنا علی ؓ بن ابی طالب کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ یہ روایت تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ ابوالاسود الدولی نے آپؓ سے اس امر کا شکوہ کیا کہ (ان مفتوحہ ممالک میں ) لوگ عربی کا تلفظ صحیح نہیں اداکرتے اور اُس کے پڑھنے میں غلطیاں کرتے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا لکھو، جو میں املا کراتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے اس کے ابتدائی اصول املا کرائے، اور ابوالاسود سے کہا کہ اسی طرز پر دیگر قواعد لکھ ڈالو۔ اس وقت یہ علم نحو کے نام سے مشہور ہوا۔ ‘‘ 
  العقاد مزی لکھتے ہیں : ’’حضرت علی ؓ کے اولین کارناموں میں سے عقائد و علم کلام، علم قضا اور نحو اور عربی کتابت کے ضبط و اصول کی تدوین ہے۔ ‘‘ (العبقریات للعقاد)
 اسلامی تقویم (کیلنڈر) کے بارے میں یہ فیصلہ کہ سال ہجرت ِ نبویؐ کو تقویم اسلام کی اصل قرار دی جائے، حضرت علی ؓ کی رائے تھی جس کو حضرت عمر ؓ اور دوسرے صحابہ نے پسند کیا تھا اور یہ حکم دیا گیا کہ اسلامی جنتری کا ابتداء سال ہجرت نبوی کو قرار دیا جائے۔ 
(بحوالہ: ’’المرتضیٰ‘‘) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK