Inquilab Logo

اُردو زبان و ادب اور تہذیب کا ترجمان نہرو سینٹر کا مشاعرہ

Updated: December 12, 2022, 11:56 AM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

اردو کی ادبی و تہذیبی تاریخ نہرو سینٹر کے مشاعرہ کے بغیر ادھوری ہی رہے گی،۳۲؍ سال سے ممبئی میں جاری اس روایت نے اہل اُردو کے ادبی ذوق کی آبیاری کی ہے

In these pictures of Nehru Center mushairas, Dr. Rafiq Zakaria, Dilip Kumar, IM Qadri, Kaifi Azmi, Jagannath Azad, Nida Fazli, Shak Nizam, Rafia Shabnam Abidi, Saleh Bin Tabish, Bashar Nawaz, Javed Nasir, Qasim Imam, Abdul Ahad Saaz and others can be seen
نہرو سینٹر کے مشاعروں کی ان تصاویر میں ڈاکٹر رفیق زکریا، دلیپ کمار، آئی ایم قادری، کیفی اعظمی، جگناتھ آزاد، ندا فاضلی ، ش ک نظام، رفیعہ شبنم عابدی، صالح بن تابش، بشر نواز، جاوید ناصر، قاسم امام ، عبد الاحد ساز اور دیگر کو دیکھا جاسکتا ہے

  ممبئی میں اردو کی ادبی و تہذیبی تاریخ مشاعروں کی روایت کے بغیر ہمیشہ ادھوری رہے گی اور یہی ادھورا پن ہمیں تب بھی محسوس ہو گا  جب ہم ممبئی کے مشاعروں کے ذیل میں نہرو سینٹر کے مشاعروں کا ذکر نہیں کریں گے ۔ ہر سال نہرو سینٹرکے زیر اہتمام منعقد  ہونے والے مشاعرےاپنی نوعیت، حیثیت اور اہمیت کے لحاظ سے ممبئی کے مشاعروں کا طرۂ امتیاز‘ کہلائے جاسکتے ہیں جن میں ایسی ایسی شخصیتوں نے شرکت کی ہے کہ جس کے خاطرخواہ تذکرے کیلئے ضخیم کتاب درکار ہوگی۔ ۹۰ء کی دہائی میں نہرو سینٹر میں شروع ہونے والی یہ روایت آج تناور درخت کی شکل اختیار کرگئی ہے جس نے ایک  پوری ادبی نسل کو پروان چڑھانے میں اور ان کی ذہنی و ادبی تربیت کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب تک اس کے تحت ۳۱؍ مشاعرے منعقد ہو چکے ہیں۔ صرف کووڈ کا دور ایسا رہا جب  یہ سلسلہ موقوف تھا ورنہ ہر گزرتے سال کے ساتھ یہ روایت نہ صرف مضبوط ہوئی بلکہ اس نے اردو زبان و ادب کی  پرانی نسل کو استحکام بخشنے کے ساتھ ساتھ نیا خون بھی فراہم کیا۔ مشہور آرکیٹیکٹ آئی ایم قادری کی سرپرستی  اور نہرو کلچرل سینٹر کے روح رواں لطافت قاضی (مرحوم)کی نگرانی میں شروع کئے گئےسالانہ مشاعرے میں علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، مخمور سعیدی، احمد فراز، شہریار، قیصرالجعفری، ندا فاضلی، یوسف ناظم، عزیز قیسی،  حمایت علی شاعر،  زبیر رضوی، امجد اسلام امجد، جاوید اختر، تقی عابدی، گلزار دہلوی، افتخار امام صدیقی، بشر نواز،  محمد علوی، ظفر کورگھپوری، پروفیسر ملک زادہ منظور، حسن کمال، انجم رومانی، ممتاز راشد، وسیم بریلوی، عبدالاحد ساز، نور جہاں ثروت، شمیم طارق، شاہد لطیف، حامد اقبال صدیقی، عرفان جعفری، عبید اعظم اعظمی ، ساغر خیامی، مختار یوسفی، پروفیسر شفیع شیخ، کلیم ثمر بدایونی، جاوید ناصر، سید محمد اشرف، رفیعہ شبنم عابدی اور ایسے ہی کئی دیگر شعراء شرکت کرچکے ہیں۔ اس مشاعرے میں شرکت کرنے والے شعراء بھی اور جو سامعین ہوتے ہیں وہ بھی مشاعروں کی تہذیب اور آداب سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہرو سینٹر کے مشاعرے کو اردو تہذیب کی بنیادی درسگاہ کے نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہیں سے نئی نسل کے شعرا ءنے اپنے پیش روئوں کو دیکھ کر شعر کی نوک پلک درست کی اور ادبی کارواں کو آگے بڑھانے کا کام بھی بخوبی انجام دیا۔  یہاں شرکت کے لئے پاس لازمی ہوتا ہے جو کم تعداد میں دستیاب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال دسمبر کی شروعات ہوتے ہی اردو حلقوں میں  اس مشاعرے کے ’پاس ‘ کے لئے ہلچل شروع ہوجاتی ہے۔ 
   اس مشاعرے کی روایت کے بنیاد گزار اگر آئی ایم قادری اور لطافت قاضی ہیں تو قاسم امام اور شاہد لطیف کو اس کا محرک کہا جاسکتا ہے۔ ان دونوں حضرات نے پہلے مشاعرے کے انعقاد سے لے کر آج تک اس روایت کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قاسم  امام نے اس اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ’’ پہلا مشاعرہ ۹۰ء کی دہائی میں جب ہوا تھا تو جاوید ناصر صاحب کی نظامت نے اس میں چار چاند لگادئیے تھے۔ یہ مشاعرہ نہرو سینٹر کے وسیع و عریض لان میں منعقد کیا گیا تھا   جہاں کیفی صاحب سے لے کر جاوید ناصر تک نے سماں باندھ دیا تھا ۔‘‘ بقول قاسم امام: ’’ اگلے ایک سے ۲؍ سال تک یہ مشاعرہ لان پر ہی منعقد ہوتا رہا اس کے بعد اسے آڈیٹیوریم میں منتقل کیا گیا جہاں یہ آج بھی منعقد ہوتا ہے۔ یہیں پر کیفی اعظمی نے اپنی  شہرہ آفاق نظم ’ایودھیا ‘ پڑھی تھی اور ملک کی فرقہ وارانہ فضا پر گہری چوٹ کی تھی۔‘‘
  قاسم امام نے اس مشاعرے کو عوام کے جذبات کا ترجمان تو قرار دیا لیکن یہ بھی بتایا کہ اس میں شرکت کا موقع ’مشاعرہ باز شاعروں‘ اور’ متشاعرو ں‘ کو کبھی نہیں دیا گیا۔ لطافت قاضی نے ہمیشہ  اس بات کا خیال رکھا کہ یہاں کے مشاعرے میں وہی شعراء شرکت کریں جو اردو کی تہذیب اور مشاعرے کی اصل سے واقف ہیں۔  ہلڑباز شعراء کو یہاں مدعو ہی نہیں کیا گیا۔ یہی حال سامعین کا بھی ہے۔قاسم امام نے اسی مشاعرے کے تعلق سے یہ لطیفہ بھی ہمارے گوش گزار کیا کہ’’ دوسرے یا تیسرے مشاعرے میں کیفی اعظمی صدارت کررہے تھے  اور اسٹیج پر میں بھی موجود تھا۔ نہرو سینٹر کا ملازم تھوڑی تھوڑی دیر میں پانی کی بوتل میرے سامنے رکھ جاتا تھا کیونکہ اُسے وہاں سے سہولت تھی۔ کیفی صاحب یہ دیکھ رہے تھے ۔ جیسے ہی  مائک پر آئے، فرمایا کہ ایک صاحب جنہوں نے اپنا نام ’ امام ‘ رکھا ہوا ہے پانی  پر قبضہ کررہے ہیں، آگے بڑھاہی نہیں رہے ہیں۔‘‘ اس بات پر پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا تھا اور کافی عرصے تک اس ظریفانہ واقعہ پر ادبی حلقوں میں گفتگو ہوتی رہی۔ 
 اس نمائندہ نے محمد سروش تنگیکر، جو نہرو سینٹر  کے آڈیٹیوریم منیجر ہیں ، سے گفتگو کی تو اُنہوں نے  بتایا کہ نہرو  سینٹر کی روایت رہی ہے کہ وہ ملک کی مختلف زبانوں اور تہذیبوں کے پروگرام منعقد کرتا رہتا ہے ۔ اسی کے تحت اردو کے فروغ میں بھی ہم معاون  بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشاعروں کی روایت تو تین دہائی پرانی اور مستحکم ہے مگر ہم افسانوی  محفلیں ، بیت بازی کا مقابلہ اور ’کوئز کونٹیسٹ ‘ بھی منعقد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو کے دیگر تہذیبی پروگرام بھی ہمارے منصوبے میںشامل ہیں۔ بقول سروش تنگیکر نہرو سینٹر کے مشاعروں کی اپنی تہذیب رہی ہے جسے قائم رکھنے میں جتنا ہمارے شعراء نے تعاون کیا  اتنا ہی اس مشاعرہ کے سامعین نے کیا ہے۔ دونوں کے تال میل سے ہم نے کئی تاریخی مشاعرے منعقد کئے ہیں جن میں فیضؔ اور اقبالؔ کے مصرعوں پر طرحی مشاعرے بھی شامل ہیں۔
 نہرو سینٹر کے اس مشاعرے میں جہاں ایک طرف بہترین شعراء نے اپنے فن کا جادو جگایا ہے  اور اس کا انہیں کریڈٹ دیا جانا چاہئےتو دوسری طرف سامعین کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جن کی بدولت یہ مشاعرے کامیاب ہوتے ہیں۔ ایسی ہی ایک سامع، فریدہ  عبد الاحد سازؔ ہیں۔ وہ اس مشاعرے میں طویل عرصے سے شرکت کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نہرو سینٹر کا مشاعرہ صرف مشاعرہ نہیں ہوتا بلکہ جیتی جاگتی زندہ  تہذیب کا جھروکہ ہوتا ہے جس سے پورے ملک میں مثبت پیغام جاتا ہے۔ فریدہ صاحبہ کے مطابق   انہیں یہاں کئی ایسے شعراء کو سننے کا موقع ملاجن کی شعری عظمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ گلزار دہلوی، کیفی اعظمی ، احمد فراز ،شہر یار ، حسن کمال ، ظفر گورکھپوری  اور دیگر کو ایک اسٹیج پر ایک ساتھ دیکھنا اور سننا بہت بڑے اعزاز کی بات ہے اور یہ کام صرف نہرو سینٹر کے مشاعرے میں ہی ہوا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ حال ہی میں احمد فراز پر  دہلی دربار ہوٹل کے روح رواں جعفر بھائی (مرحوم) نےنہرو سینٹر میں ہی جس پروگرام کا انعقاد کیا تھا وہ بھی اپنی مثال آپ تھا اور یہ واضح کرتا ہے کہ نہرو سینٹر ہماری تہذیب کا اہم حصہ بن گیا ہے۔ 
  ایک اورسامع ، سابق  صدر مدرس اور کاتب  ذاکر حسین قریشی (ذال قاف ) نے ایک واقعہ بتایا کہ وہ کس طرح  نہرو سینٹر کے مشاعرے میں پہنچے تھے۔انہوں نے کہا کہ  ۹۲ء یا ۹۳ء کی بات ہے ،ان کے بڑے بھائی مظہر سلیم (مرحوم)کے پاس نہرو سینٹر کےاس مشاعرے کے ۲؍پاس تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تمہیں جانا  ہے تو بتائو ورنہ یہ پاس کسی اور کے کام آجائیں گے ۔چونکہ مشاعرہ سننا تھا اس لئے میں نے ہامی بھری مگر واپسی میں ٹرین چھوٹنے کا ڈر تھا اور وہی ہوا بھی ۔ ہماری  آخری ٹرین چھوٹ گئی لیکن جن کی ٹرین چھوٹی ان میں صرف میں اکیلا نہیں بلکہ ظفر گورکھپوری  سمیت کچھ اہم شعرا ء بھی تھے۔ پھر ہوا یہ کہ پہلی ٹرین کے انتظار میںہم سبھی اسٹیشن پربیٹھے رہے اورتھوڑی دیر بعد بائیکلہ ریلوے اسٹیشن پر ظفر صاحب کی صدارت میں دوسرا مشاعرہ شروع ہوا۔ ذاکر حسین قریشی کے مطابق نہرو سینٹر کےمشاعرےکا جو معیار اُس دور میں قائم کیا گیا تھا اسے آج تک متاثر نہیں ہونے دیا گیا اور یہی سب سے خاص بات ہے اس مشاعرے کی۔ یہیں پر ہم نے احمد فراز کو سبھی سنا اور کیفی صاحب کو بھی دلیپ کمار بھی  یہاں آچکے ہیں۔ یہ سلسلہ اُس کہکشاں کی مانند ہے جس میں ایک سے بڑھ کر ایک ستارے ہیں اور ہر کوئی اپنی چمک بکھیرکر اردو کو روشن کررہا  ہے۔ 

urdu mushaira Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK