اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد سے کچھ ہوگا یا نہیں، اس کا جواب مکمل طور پر نفی میں نہیں ہے مگر مکمل طور پر اثبات میں بھی نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: March 27, 2024, 11:10 PM IST | Mumbai
اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد سے کچھ ہوگا یا نہیں، اس کا جواب مکمل طور پر نفی میں نہیں ہے مگر مکمل طور پر اثبات میں بھی نہیں ہے۔
اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد سے کچھ ہوگا یا نہیں، اس کا جواب مکمل طور پر نفی میں نہیں ہے مگر مکمل طور پر اثبات میں بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے اب تک کی تاریخ میں، اقوام متحدہ کی کسی بھی قرارداد کو کبھی اہمیت نہیں دی مگر وہ قرارداد سے پریشان بھی رہتا ہے۔ پریشان اس لئے رہتا ہے کہ عالمی سطح پر اس کی سبکی تو ہوتی ہی ہے، یہ اندیشہ بھی رہتا ہے کہ مختلف ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات میں ایسی قرارداد آڑے آ سکتی ہے۔ قرار دار کی پاسداری نہ کرنے کی صورت میں اس پر دباؤ بھی پڑتا ہے۔ وہ دباؤ کو قبول نہ کرے یہ الگ بات ہے۔ جہاں تک چند روز قبل منظور کی جانے والی قرارداد کا تعلق ہے، ہم نے اس کالم میں گزشتہ روز لکھا تھا کہ جیسے ہی قرارداد منظر عام پر آئی، امریکہ نے اس کا اثر زائل کرنے کی کوشش شروع کردی اور اسے ’’نان بائنڈنگ‘ قرار دیا یعنی اس کو قبول کرنا ضروری نہیں۔ بائنڈنگ اور نان بائنڈنگ کا معاملہ ذرا تکنیکی نوعیت کا ہے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ۶؍ پر مبنی ہے جس میں تنفیذی شق نہیں ہے یعنی یہ درج نہیں ہے کہ اگر قرارداد کے مطالبہ کو تسلیم نہ کیا گیا تو کیا ہوگا۔ اگر یہ باب ۶؍ کے بجائے باب ۷؍ پر مبنی ہوتی تو اس میں تنفیذی طاقت پیدا ہوجاتی۔ خبروں کے مطابق ۷؍ کے بجائے باب ۶؍ کو امریکہ کے دباؤ کے تحت بنیاد بنایا گیا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو امریکہ اسے ویٹو کرسکتا تھا۔ اس پس منظر میں یہ سوال غلط نہیں کہ سلامتی کونسل کے غیر امریکی ممبران نے، جن کی تعداد ۱۴؍ ہے، امریکہ کو قائل اور آمادہ کرنے کیلئے کیا کیا؟
ایک بار پھر عرض ہے کہ اسرائیل، اقوام متحدہ کی قراردادوں کو کبھی خاطر میں نہیں لاتا۔ ۲۰۲۳ء میں جنرل اسمبلی نے ۱۵؍ اسرائیل مخالف قراردادیں منظور کی تھیں جو دُنیا کے دیگر ملکوں کے خلاف منظور ہونے والی قراردادوں سے زیادہ تھیں (پندرہ بمقابلہ سات)۔ اس سے قبل ۲۰۲۲ء کی بھی یہی صورت حال تھی۔ فلسطینی زمینات پر یہودی بستیاں بسانے سے اسے بارہا روکا مگر اس نے روک ٹوک پر خود حاوی نہیں ہونے دیا۔ ایسی صورت میں کم طاقت یا کم اثر والی قرارداد سے اس کا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے۔اس کی ہٹ دھرمی کا ادنیٰ سا نمونہ یہ ہے کہ تازہ قرارداد منظور ہونے کے باوجود اسرائیلی بمباری میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ کیا اسپتال کیا تعلیمی ادارے اور کیا رہائشی علاقے۔ بہت کچھ تہس نہس کردینے کے بعد بھی اس کی جارحیت میں کمی نہیں آئی ہے جو تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
غزہ میدان جنگ بنا ہوا ہے اور اس کی بچی کھچی آبادی دُنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں روز و شب گزارنے پر مجبور ہے۔ یہاں فوری طور پر مکمل جنگ بندی نافذ ہونی چاہئے تاکہ اہل غزہ کو امدادی سامان میسر آسکے اور بازآبادکاری کا کام شروع کیا جاسکے۔ اگر اتنی بربادی کے باوجود عالمی برادری اسرائیل کو روکنے میں ناکام ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس برادری کو انسانیت عزیز نہیں ہے۔ وہ دُنیا جسے غزہ کے بچوں کی فکر نہیں ہے وہ بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے کتنی ہی اسکیمیں بنالے، اپنے دامن کے داغ دھو نہیں سکتی۔ یہ وقت ہے کہ پوری دُنیاا س مسئلہ کو خالص انسانی نقطۂ نظر سے دیکھے اور عوام کو راحت بہم پہنچانے کی فکر کرے۔ جہاں تک جنگ بندی کا تعلق ہے، اس کا نافذ نہ کیا جانا ہماری نظر میں سلامتی کونسل کے اُن تمام ملکوں کی تحقیر ہے جنہوں نے قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔n