نیتن یاہو نے ساری دنیا کو یقین دلادیا تھا کہ وہ حماس کو ختم کردینگے اور موجودہ اسرائیل سے دریائے اُردن تک پھیلی ہوئی سرزمین کو اسرائیل بنادینگے۔ ان کو یقین تھا کہ امریکہ ان کی پوری مدد کریگا۔
EPAPER
Updated: July 28, 2025, 11:47 PM IST | Mumbai
نیتن یاہو نے ساری دنیا کو یقین دلادیا تھا کہ وہ حماس کو ختم کردینگے اور موجودہ اسرائیل سے دریائے اُردن تک پھیلی ہوئی سرزمین کو اسرائیل بنادینگے۔ ان کو یقین تھا کہ امریکہ ان کی پوری مدد کریگا۔
دنیا میں دو ہی ایسے ملک ہیں جنہیں امریکہ بلکہ امریکہ سے زیادہ ٹرمپ کی دوستی پر پورا اور پکا یقین تھا، ان کا خیال تھا کہ ٹرمپ کے صدر بنتے ہی ان کے تمام مسائل خود بخود حل ہوجائینگے لیکن اب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اندھی گلی میں بھٹکتے ان مسافروں کوشاید قدرت کے قوانین کا علم نہیں تھا۔ انہوں نے یہ دعوے زمینی حقائق کو بھول کر کئے تھے۔ انہیں شایدیہ بھی علم نہیں تھا کہ قدرت کے قوانین کچھ الگ ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ انسان کی عقل ان کا احاطہ کرسکے۔
اسرائیل نے ٹرمپ کے ایک بار پھر صدر بننے پر شاید عجلت سے کام لیا تھا۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد ان کے مسائل حل نہیں ہوئے بلکہ کچھ اور بڑھ گئے۔ سب سے پہلے ہم اسرائیل کو لیتے ہیں۔ اسرائیل او رامریکہ کی دوستی آج کی نہیں، برسوں پرانی ہے۔ اس قدرے طویل داستان کا یہاں ذکر اسلئے ضروری ہے کہ اسے سمجھے بغیر آپ اس مضمون کا مقصد نہیں سمجھ پائینگے۔ اسرائیل ۱۹۴۹ء میں قائم ہوا تھا اور تب سے نیتن یاہو کے اقتدار تک اسرائیل امریکہ کا ہی اتحادی تھا اور نیتن یاہو نے ساری دنیا کو یقین دلادیا تھا کہ وہ حماس کو ختم کردینگےاو ر موجودہ اسرائیل سے دریائے اُردن تک پھیلی ہوئی سرزمین کو اسرائیل بنادینگے۔ ان کو یقین تھا کہ امریکہ ان کی پوری مدد کریگا اور شروع میں یہی احساس ہوا کہ ایسا ہونے والا ہے مگر حالات برعکس ہوگئے۔ ٹرمپ نے اسرائیل کی مدد تو نہیں کی بلکہ غزہ میں جنگ بند کرادی اور یہ یقین دلایا کہ اب یہاں کبھی جنگ نہیں ہوگی۔ صدر ٹرمپ نے بذات خود تو یہ بات نہیں کہی مگر حالات سے یہ انداز ہ ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو جیسے ہی یہ معلوم ہوا کہ عرب دنیا میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا اور خود امریکہ میں فلسطینیوں کی مدد کا طوفان امڈ رہا ہے اور یہ طوفان کہیں ان کے اقتدار کیلئے جنجال نہ بن جائے۔
اس کے علاوہ ٹرمپ نے یہ بھی محسوس کیا کہ اسرائیل اب امریکہ یا مغرب کی مدد کیلئے اتنا کارآمد نہیں رہا جتنا کبھی ہوا کرتا تھا۔ شروع شروع میں امریکہ نے اسرائیل کی مدد ضرور کی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ اور مغرب یہ سمجھتے تھے کہ اس تمام علاقے میں عربوں یا مسلمانو ںکی تعداد بہت بڑی ہے اور ان کے پاس تیل کی دولت بھی ہے اس لئے اگر عربوں کے مفادات کا خیال نہ رکھا گیا تو امریکی مفادات کو سخت ٹھیس پہنچے گی۔ ویسے ہی اسرائیل کی مدد کیلئے امریکہ نے مالی مدد کے علاوہ ہتھیاروں کی مدد بھی دی اور یہ کوشش بھی کی کہ عرب ایک دوسرے سے لڑتے رہیں۔حالانکہ خود ٹرمپ نے ہی یہ پہل کی تھی کہ تمام عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ شاید یہ ہو بھی جاتا لیکن عرب حکمرانوں کو معلوم ہوا کہ ساری عرب دنیا بلکہ ساری دنیا میں فلسطینیو ںکیلئے اتنی زبردست ہمدردی ہے کہ انہوں نے اگر ایسا کچھ کیا تو ان کا اپنا اقتدار خطرہ میں پڑ جائیگا۔
شروع شروع میں خود ٹرمپ نے بھی یہی کوشش کی کہ تمام عرب ممالک اسرائیل کو قبول کرلیں ۔ انہوں نے ’ابراہم اکارڈ‘ یعنی معاہدہ ٔ ابراہیم پر بہت زور دیا اور عربوں کو بتانا چاہا کہ یہودی، مسلمان اور عیسائی حضرت ابراہیم کی داستان کا ایک حصہ بلکہ ان کا ضروری جز ہیں اس لئے انہیں آپس میں لڑنے کے بجائے ایک دوسرے سے مل جانا چاہئے مگر ٹرمپ شاید یہ بات نہیں جانتے تھے کہ یروشلم مسلمانوں کیلئے کتنا اہم ہے۔ وہ اس کیلئے جان تک دینے سے چوکیں گے نہیں۔ قبلہ اوّل سے مسلمانوں کا جذباتی اور روحانی رشتہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ خیر، امریکہ کو جیسے ہی یہ معلوم ہوا بلکہ یوں کہئے کہ ٹرمپ کو جیسے ہی یہ معلوم ہوا کہ ساری دنیا میں فلسطینیوں کی مدد کا طوفان امڈ رہا ہے اور حد یہ ہے کہ امریکہ میں بھی فلسطینیوں کی ہمدردی روز بروز بڑھ رہی ہے تو انہوں نے اسرائیل کی دوستی کو اس طرح بالائے طاق رکھ دیا جیسے اب یہ دوستی ان کیلئے بے معنی ہوچکی ہے۔ حال ہی میں یہ خبر بھی آئی ہے کہ نیتن یاہو کی سرکار جارہی ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل اور ہندوستان کے سیاسی حالات میں کافی مشابہت ہے۔ مودی کی حکومت کی طرح نیتن یاہو حکومت بھی بیساکھیوں کے سہارے ہے۔ اسرائیلی حکومت کی مدد وہ گروپ کررہے تھے جو اسرائیل سے بھی زیادہ عرب اور مسلم دشمن تھے۔اب انہوں نے ہاتھ کھینچ لیا۔ کہا نہیں جاسکتا کہ کس دن کیا ہو۔ ممکن ہے جب آپ یہ مضمون پڑھیں تب تک نیتن یاہو حکومت کا بحران بڑھ گیا ہو۔
اب ذرا ہندوستان اور مودی کی طرف آئیے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ صدر ٹرمپ کی دھمکی یا آرڈر یا آپ اسے جو کچھ بھی کہہ لیں، آسانی سے مودی اور ہندوستان کا پیچھا نہیں چھوڑ سکتی۔یہ سوال اب بھی موجود ہے بلکہ روز بروز سر اٹھا رہا ہے کہ مودی نے صدر ٹرمپ کو کیا جواب دیا اور کیا یہ کہا کہ کشمیر کے سلسلے میں امریکہ سے بات چیت کو وہ کس طرح دیکھتے اور سمجھتے ہیں کیونکہ ابھی تک سرکاری طور پر مودی کی حکومت نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ ہم اس سلسلے میں ہندوستان کی اپوزیشن بشمول راہل گاندھی کو، ا س کا ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔ شاید وہ نہیں سمجھتے کہ صدر ٹرمپ کا حکم صرف کشمیر کیلئے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ہندوستان کے مستقبل، قومی نظریہ اور ہندوستان کی ساکھ بھی ہے۔ ممکن ہے کہ ہماری اپوزیشن یہ بات سمجھتی ہو لیکن بعض مصلحتوں کے تحت وہ اس کا ذکر نہ کررہی ہو، اسی لئے وہ مودی کو بچنے کے لئے راہ دینا چاہتے ہوں۔ مودی حال ہی میں برطانیہ اور وہاں سے مالدیپ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ مودی نے برطانیہ سے کچھ معاہدے بھی کرلئے اور ان معاہدو ںکی وجہ سے ہی مودی کو برطانیہ میں وہی کچھ کرنا ہوگا جو حکومت برطانیہ چاہتی ہے۔ان معاہدوں سے ہندوستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اگر ہوا بھی تو بہت کم ہوگا، زیادہ تر فائدہ برطانیہ کو ہی ہوگا۔ یہاں بھی ہندوستانی اپوزیشن کی یہ کمزوری ہے کہ انہوں نے نہ تو مودی سے پوچھا کہ آخر کیا معاہدہ ہوا۔ صرف لوک سبھا میں سوال جواب کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ مودی خود صدر ٹرمپ کے آرڈر سے بچنا چاہتے ہیں اور شاید موجودہ سیاسی ڈھانچہ بھی انہیں اس کیلئے مدد کررہا ہے لیکن یہ مدد بہت تھوڑی ہے۔ ہماری اپوزیشن پارٹیاں مودی سے یہ بھی نہیں پوچھ سکیں کہ جب ٹرمپ نے انہیں کشمیر پر پاکستان سے گفتگو کیلئے کہا تو کیا مودی نے انہیں کوئی سخت جواب دیا؟n
hasankamaal100@gmail.com