Inquilab Logo Happiest Places to Work

طلبہ کی اہلیت اور تدریس کے چیلنج

Updated: February 06, 2023, 4:06 PM IST | Swati Jog | Mumbai

طلبہ خواہ کتنا ہی جاننے لگے ہوں، ایک استاد ہی جانتا ہے کہ انہیں کیا جاننا چاہئے۔ طلبہ بہت کچھ جانتے ہوں تب بھی استاد ہی ہے جو انہیں بتائے گا کہ کس چیز کو کس انداز سے دیکھنا چاہئے۔ اساتذہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ درس گاہ صرف معلومات کی فراہمی کا مرکز نہیں ہوتی، درس گاہ بہت سی صلاحیتوں کی آبیاری کا گہوارہ ہوتی ہیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

بیلگام کے ایک اسکول میں طلبہ کی کاؤنسلنگ کے ایک اجلاس میں، جس میں آٹھویں، نویں اور دسویں کے طلبہ شریک تھے، ایک سوالنامہ دیا گیا تھا۔ جب ان کے جوابات جانچنے کا وقت آیا تو کئی جوابات چونکانے والے تھے۔ مگر سب سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ کئی طلبہ نے ’’دلچسپی کے میدان‘‘ کے ذیل میں کرپٹو کرنسی، ڈاجی کوائنس اور این ایف ٹی  لکھا۔ اگر آپ کا خیال یہ ہے کہ انہوں نے ان چیزوں کو دلچسپی کامیدان بس یونہی لکھ دیا ہوگا تو آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ جب ان سے مزید سوالات ہوئے تو معلوم ہوا کہ جن چیزوں کو انہوں نے دلچسپی کا میدان لکھا، وہ ان کی دلچسپی کا حقیقی مرکز تھے۔ انہوں نے بس یونہی نہیں لکھ دیا تھا۔ انہیں اس بات کا بھی علم تھا کہ ان‌ شعبوں میں کریئر بنانے کیلئے انہیں کیا کرنا ہوگا۔اس سے بعض طلبہ کی ذہنی استعداد کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آج کے دور کے طلبہ کا ذہنی معیار کیا ہے اور وہ اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے کتنا فائدہ اٹھارہے ہیں۔ یہ بات عام طورپر اساتذہ اور والدین سے مخفی رہتی ہے۔ انہیں تھوڑا بہت تو اندازہ رہتا ہے مگر اس اجمال کی تفصیل ان کے سامنے نہیں ہوتی۔
 اکثر اساتذہ اور گھروں کے بزرگ یہ گلہ کرتے ہیں کہ بچوں کو پڑھنے‌لکھنے سے دلچسپی نہیں ہے۔ ان میں مطالعہ کا ذوق نہیں ہے مگر انٹیک ہیریٹیج کے ایک کوئز پروگرام میں اس وقت ہم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے جب یہ معلوم ہوا کہ وہ بہت سے مصنفین کے بارے میں جانتے ہیں، کتابوں کے اقتباسات سے ان کی واقفیت ہے اور’’پہچانئے کون‘‘ کے سلسلے کے تحت تصویر دیکھ کر شخصیت کا نام بتانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جب ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ ان شخصیات کو سرسری جانتے ہیں یا تھوڑی بہت تفصیل سے بھی واقف ہیں تو یہاں بھی ہمارا خیال غلط ثابت ہوا۔ وہ ان شخصیات کے بارے میں توقع سے زیادہ جانتے تھے۔
 معلوم ہوا کہ دور حاضر کے طلبہ سابقہ ادوار کے طلبہ سے مختلف ہیں۔ ان کیلئے اسکول علم یا معلومات کے حصول کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔ اساتذہ جن طلبہ کو پڑھا رہے ہیں وہ بھی ان کے تحصیل علم کا واحد ذریعہ نہیں ہیں بلکہ وہ `ڈجیٹل دنیا کے شہری ہیں اور اس حیثیت سے انٹرنیٹ کے دشت کی سیاحی تو کرتے ہی ہیں، ہمہ اقسام معلوماتی ایپس، ویب سائٹس اور ڈجیٹل پلیٹ فارمس تک ان کی رسائی ہے۔ اتنا ہی نہیں، ایک طالب علم کے پاس جتنے مواقع ہیں اتنے ہی دیگر طلبہ کے پاس بھی ہیں اس لئے وہ مختلف موضوعات پر ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کے ذریعہ بھی اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس میں ریاضی پڑھانے والے اساتذہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ انہوں نے ابھی یہ سمجھانا شروع بھی نہیں کیا تھا کہ سوال کیسے حل کریں، طلبہ کے پاس جواب حاضر تھا۔ کمپیوٹر پڑھانے والے اساتذہ بھی یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ وہ اپنے طلبہ کو جو کچھ بتانا چاہتے ہیں، طلبہ کا انہیں علم ہوتا ہے۔اوپر کی سطروں میں ڈیجیٹل دنیا کی بات کی گئی ہے ۔یہ دنیا کتنی وسیع وعریض ہے اس کا اندازہ آسانی سے لگایا نہیں جاسکتا۔ یہ معلومات کا سمندر ہے اور ٹیکنالوجی کا ایک صارف جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہتا ہےاس پر اتنا مواد موجود ہے کہ پڑھنے اور دیکھنے والاخود تھک جائے گا لیکن وہ مواد ختم نہیں ہوگا۔ اس نےطلبہ کیلئے تقریباً ہر موضوع پر اتنا متن ہے کہ طالب علم جس قدر استفادہ کرنا چاہے ، کرسکتا ہے۔اسے بیرونی ملکوں کے اپنے ہم عمرطلبہ سے رابطے کا بھی موقع ہوتا ہے۔یہ دنیا کل تک کسی کے سامنے نہیں تھی ۔ٹیکنالوجی کی وجہ سے اس کا وجود عمل میں آیا اور اب اس کی جلوہ سامانی ہر خاص وعام کے سامنے ہے۔
 اس کے باوجود اساتذہ کو تدریس کا فریضہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ کھیل کی دنیا سے مثال پیش کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ آندرے اگاسی اور سیرینا ولیمز بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد شہرہ آفاق ہوچکے ہوں مگر ان کے استاد نک بولیٹری کی اہمیت آج بھی ہے۔ یہی بات اساتذہ پر صادق آتی ہے کہ طلبہ بھلے ہی بہت کچھ جانتے ہوں انہیں اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
 اس کی وجہ یہ ہے کہ طلبہ خواہ کتنا ہی جاننے لگے ہوں، ایک استاد ہی جانتا ہے کہ انہیں کیا جاننا چاہئے۔ طلبہ بہت کچھ جانتے ہوں تب بھی استاد ہی ہے جو انہیں بتائے گا کہ کس چیز کو کس انداز سے دیکھنا چاہئے۔ اساتذہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ درس گاہ صرف معلومات کی فراہمی کا مرکز نہیں ہوتی، درس گاہ بہت سی صلاحیتوں کی آبیاری کا گہوارہ ہوتی ہیں۔ ٹیم ورک کیسے ہو، گفتگو کے آداب کیا ہیں، جذباتی ذہانت سے کیا مراد ہے، مسائل کا حل کیسے تلاش کیا جاتا ہے اور بہتر فیصلہ کرنے کی قدرت کیسے پیدا ہوتی ہے۔ درس گاہ طلبہ کو ان تمام باتوں کے بشمول اور بھی کئی باتوں یا صلاحیتوں کا حامل بنانے کے لئے ہوتی ہیں۔ اس لئے، کوئی طالب علم نئی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر کتنی ہی معلومات رکھنے والا کیوں نہ ہو، اسے استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بات طالب علم محسوس نہ کرے اور اس حوالےسے استاد کی قدر کرے یا نہ کرے، استاد کو اپنا کردار بہر طور نبھانا چاہئے۔
 اس سلسلے میں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ کلاس میں صرف وہی طلبہ نہیں ہوتے جو اسمارٹ یا ذہین کہلاتے ہیں۔ کلاس میں اوسط درجے کے طلبہ بھی ہوتے ہیں اور کم صلاحیتوں والے طلبہ بھی، ایک استاد کو سب کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور اسے ایسا کرنا چاہئے کیونکہ وہ طلبہ جن کی دلچسپی کرپٹو کرنسی جیسے موضوعات سے ہے، تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہوتے۔ ان مٹھی بھر طلبہ سے علاحدہ گفتگو ہو سکتی ہے، ان کو ذہن میں رکھ کر اوسط اور کم صلاحیت والوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوسکتا۔
 اساتذہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ذہین طلبہ کی کلاس میں تدریس لطف دیتی ہے مگر طلبہ ان اساتذہ کا زیادہ احترام کرتے ہیں جو کلاس کو استفادہ کا زیادہ سے زیادہ موقع دیتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ویلیو ایڈیشن۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK