Inquilab Logo Happiest Places to Work

طلبہ صرف بلیک بورڈکی تحریرکوہی نہیں پڑھتےبلکہ اساتذہ کی نقل وحرکت کوبھی پڑھتےہیں

Updated: September 05, 2023, 12:21 PM IST | Sheikh Chand Usman | Mumbai

 لفظ ’معلم‘کہنے کو تو چار حرفوں کا مجموعہ ہے لیکن یہ اپنے اندرپورے معاشرے کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہے۔ اس ایک شخصیت میں معاشرے کی تنزلی و ترقی پنہاں ہے۔

Teachers should always keep in mind that students try to be like them.Photo. INN
اساتذہ کو ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئےکہ طلبہ ان کے جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ تصویر:آئی این این

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہے
 لفظ ’معلم‘کہنے کو تو چار حرفوں کا مجموعہ ہے لیکن یہ اپنے اندرپورے معاشرے کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہے۔ اس ایک شخصیت میں معاشرے کی تنزلی و ترقی پنہاں ہے۔ یہ حیرت انگیز ایجادات اور نت نئی دنیا میں آپ کو تبدیلیاں نظر آرہی ہیں۔ یہ سب اس ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہیں۔ معلم کی حیثیت ایک رہنماکی ہے، معمار کی اور ایک داعی کی ہے۔ معلم کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری اللہ پاک نے رکھی ہے۔ ’معلم‘ کو جو مقام ہمارے مذہب   میں دیا گیا ہے شاید ہی کسی اور مذہب میں وہ مقام اس کو دیا گیا ہو۔ جس مذہب کی تعلیمات کی ابتداء ہی لفظ اقراء سے ہو، اس میں پڑھنے اور پڑھانے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ نے اس کائنات کے لوگوں کیلئے انبیاء مبعوث فرمائے جو انہیں حق کی اور ہدایت کی تعلیم دیتے تھے اور جو اُن کو اچھے اور برے میں فرق کرنا سکھاتے تھے۔ اسی علم کی بنا پر انسان کو وہ مقام ملا جو فرشتوں کو بھی نہیں ملا۔
علم کے بغیر دنیا اندھیری ہوتی۔ لوگ آج بھی غاروں میں رہتے اور قدیم طرز زندگی گزارتے۔سارے جہاں میں علم کے دیپوں کا اجالا ہیں علم جس نے پایا وہ نصیب والا ہیں۔علم، معلم کے بغیر نہیں سیکھا جاسکتا ہے۔ علم رب کا نور ہے جس کیلئے اللہ اپنے خاص بندں کو چنتا ہے۔ انبیاء کرام رب کے خاص بندے ہیں اور انہی خاص بندوں نے یہ ذمہ داری پھر انسانوں پر ڈال دی۔
حدیث مبارکہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے آسمان و زمین کی تمام مخلوقات، بلوں میں رہنے والی چیونٹیاں اور پانی میں رہنے والی مچھلیاں اس کیلئے دعائے خیر کرتی ہیں جو لوگوں کو بھلائی سکھاتا ہے۔ (ترمذی) دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ بہترین صدقہ یہ ہے کہ انسان علم سیکھے اور اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے۔(ابن ماجه)۔ معلم قوموں کے معمار ہیں، ان کےپاس بچے ہاتھوں میں ایک ایسی صاف تختی لے کر آتے ہیں کہ وہ اس پر جو لکھتا جائے گا وہ ان کے ذہنوں پر نقش ہوتا جائے گا۔
 ایک معلم اگرچاہے تو معاشرے کو ترقی کی اس منزل پر پہنچاسکتا ہے جس کی اس معاشرے کو ضرورت ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح دنیا کے عظیم معلمین نے اپنے شاگردوں کو کہاں سے کہاں پہنچادیا۔ اچھا معلم نہ صرف بچے کو نصابی کتب کی تعلیم دیتا ہے بلکہ وہ اپنی تخلیق اور مطالعہ کی وجہ سے بچوں میں نصاب کے علاوہ بہت ساری مہارتیں پیدا کرتا ہے۔ اساتذہ طلبہ کیلئے آئینہ ہوتے ہیں، طلبہ محض کلاس میں دیئے جانے والے لیکچر کے الفاظ اور بلیک بورڈ کی تحریر کو ہی نہیں پڑھتے بلکہ اساتذہ کی نقل و حرکت عادت و اطوار اور رویے ورجحانات کا بھی اثر لیتے ہیں، اسلئے اساتذہ کو چاہئے کہ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے اپنا بھی جائزہ لیں۔ وہ جن مقاصد اور اقدار کو بچوں میں منتقل کرنا چاہتے ہیں پہلے اُن کو اپنے وجود میں تلاش کریں تبھی وہ مخلص اور سچے اساتذہ کا کردار ادا کر سکتے ہیں اور سماج کو اپنی صلاحیتوں سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں کیونکہ بچوں میں اسی چیز کا انعکاس ہوگا جو اساتذہ میں موجود ہوگی۔ وہ اس کی روحانی، نفسیاتی، اخلاقی، معاشرتی بلکہ ہمہ پہلو تربیت کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ سب تبھی ممکن ہے جب معلم کا اپنا کردار اس چیز کا آئینہ دار ہو اور اس میں وہ تمام خوبیاں پائی جائیں جو ہمارے آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر موجود تھیں۔  یہ بات ہمیں بتائی گئی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے معلم تو  ہمارے آقا  ہیں۔ ہم اُن کے جیسے تو نہیں بن سکتے لیکن ان کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے جس پر چل کر ایک معلم اپنی اصلاح کرسکتا ہے اور اپنے طلبہ کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ کردار کے بغیر علم دماغ کا فتور ہے اور دل کا نفاق ہے۔ عمل کی خوبیاں پیدا نہ ہوں تو علم کا درخت بے ثمر اور بے فیض ہے۔ انہیں طالب علم کیلئے حسن اخلاق کا نمونہ ہونا چاہئے۔ قابلیت اور شرافت اور اخلاق کی وجہ سے تعلیم بارآور ہو۔استاد کی شخصیت براہ راست بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ وہ ان کے دلوں کو چھولیتا ہے ایک اچھا معلم وہ ہوتا ہے۔ وہ اسلام کے مطابق بچوں کی تربیت کرے۔ اسلام کے نزدیک معیاری تعلیم وہ ہے جس کے نتیجے میں انسان خودشناسی اور خدا شناسی سے ہمکنار ہو ورنہ تعلیم اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں لاسکے گی۔ وہ ایک اچھا ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، سائنس دان یا کچھ بھی بن جائے گا لیکن ایک اچھا انسان معاشرے کا ایک سرگرم رکن نہیں بن پائے گا اور نہ اس کو آنے والی دنیا میں کامیابی ملے گی
 علامہ اقبال اپنے نوجوانوں کو شاہین پرندے سے تعبیر کرتے تھے جو عیش و آرام کے بجائے پہاڑوں کی چوٹیوں پر زندگی گزارتا ہے۔ جو مردہ شکار نہیں کھاتا، اپنا شکار کرکے کھاتا ہے جو ایک باغیرت اور بہادر پرندہ ہے 
نہیں تیرا نشیمن قیصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
 معلم کو چاہئے اپنے طلبہ کو ایسا درس دیں کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کرسکیں۔ دنیا کے نت نئے چیلنجز کا مقابلہ کا مقابلہ کرسکیں۔ اپنے کردار کو بہتر بنائیں خود شناس اور خدا شناس ہوں تاکہ انہیں دونوں جہانوں میں کامیابی ملے۔موجودہ نظام میں تعلیم ایک کاروبار کی حیثیت اختیار کرگئی ہے جس نے معلم کے مقام کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ معلم کی شخصیت اب طلبہ کیلئے وہ مقام نہیں رکھتی جو پرانے وقتوں میں رکھتی تھی۔ جہاں خلیفہ ہارون الرشید کے بچے اپنے استاد محترم کے جوتے اٹھانے کیلئے بھاگتے تھے۔
 آج بیشتر معلم، تعلیمی، اخلاقی، روحانی لحاظ سے کہیں سے بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ ڈگریوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہمارا سماج معاشی بھیڑ چال کے ساتھ چل رہا ہے۔  جنہیں حق کی تعلیم دینی تھی وہ خود موجودہ دور کے پیروکار بن گئے ہیں اور اچھے اور برے کی تمیز، خودشناسی اور خداشناسی سکھانے کے بجائے معاشرے کے کارخانوں کے آلہ کار بنارہے ہیں لیکن یہ بات یاد رہے کہ اگراپنا حق نہ ادا کیا تو یہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکے گا بلکہ اسی طرح یہاں کرپٹ، بے ایمان، معاشرتی استحصال کرنے والے، مائوں اور بہنوں کی عزتوں کو پامال کرنے والے ہی لوگ تیار ہوتے رہیں گے اور معلم روز قیامت اللہ کے حضور جواب دہ ہوگا کہ اور اللہ ان سے سوال کرے گا۔ وارث بنایا تھا تو کیا تم نے وہ فرائض پورے کئے؟  اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام اساتذہ کو اس سوال کا جواب دینے والا بنائے۔ آمین۔

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK