زیر نظر کالموں میں چند ایسے تعلیمی اِداروں اور اُن کے بانیان کا تذکرہ ہے جن کی حیثیت ہمارے لئے مثالی ہے۔ اُن کی جدّو جہد اور اُن کی بصیرت کے تذکروں سے مستقبل کی راہیں روشن ہوسکتی ہیں۔
EPAPER
Updated: May 11, 2025, 4:13 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
زیر نظر کالموں میں چند ایسے تعلیمی اِداروں اور اُن کے بانیان کا تذکرہ ہے جن کی حیثیت ہمارے لئے مثالی ہے۔ اُن کی جدّو جہد اور اُن کی بصیرت کے تذکروں سے مستقبل کی راہیں روشن ہوسکتی ہیں۔
مولانا غلام محمد وستانوی
مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے قصبے اکّل کوا میں اپنے گھر کے چند بچّوں کو لے کر ایک دینی مدرسہ قائم کرنے والے مولانا غلام محمد وستانوی کا چند روز قبل انتقال ہوا۔ اُن کی دُور اندیش نگاہوں نے دیکھا کہ اُس بستی میں دین کی تبلیغ و اشاعت کا کام کرنے کیلئے ایک زرخیز زمین موجود ہے۔ رفتہ رفتہ اُس مدرسے میں اطراف و اکناف کے گائوں اور دیہاتوں سے طلبہ داخلہ لینے لگے۔ مولانا نے جائزہ لینا شروع کیا کہ اُن سارے طلبہ و والدین کے اصل مسائل کیا ہیں لہٰذا اُنھوں نے قیام گاہ شروع کرکے اُن طلبہ کے قیام و طعام کا انتظام کیا۔ تجوید سے شروع ہونے والے مدرسے میں عالمیت، فضیلت، قرآت اور حفظ کا انتظام بھی کردیا۔ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کے نام سے ایک مضبوط و منظّم مدرسے کے قیام کے بعد اُنھوں نے عصری علوم کے ادارے قائم کرنے کا آغاز کیا۔ ہائی اسکول، جونیئر کالج، ڈگری کالج، بی ایڈ کالج، پالی ٹیکنک، انجینئرنگ ڈگری کالج، فارمیسی کالج، یونانی میڈیکل کالج اور میڈیکل کالج قائم کئے اور اُن کا معیار اس درجہ بہتر رکھا کہ اب اُس کیمپس کو مساوی یونیورسٹی کا درجہ بھی حاصل ہوگیا۔
یہ ساری ترقی لگ بھگ نصف صدی کی مسلسل جد و جہد کے بعد ہی ممکن ہوپائی ہے۔ اس کامیابی میں مولانا وستانوی کی بصیرت کی ایک مثال ہم دینا چاہیں گے۔ لگ بھگ ۳۰؍برس پہلے اپنے کیمپس میں اُنہوں نے جن موضوعات پر خطاب کرنے کیلئے مجھے مدعو کیا تھا وہ تھا : (اساتذہ وسماج کے ذمہ داروں کیلئے)’دینی و عصری تعلیم کا کامیاب امتزاج، کیسے ممکن ہے؟ ‘ (فارغین دینی مدارس کیلئے): ’دینی مدارس کے فارغین کیلئے کریئر کے مواقع‘۔ ا س سے معلوم ہوجاتا ہے کہ مولانا وستانوی شروع ہی سے دینی و عصری تعلیم گاہوں کے درمیان ایک مضبوط پُل قائم کرنے کیلئے فکر مند تھے اور قدرت نے اُن کی اس نیّت میں اس قدربرکت دی کہ پہلی مرتبہ ایک عالمِ دین نے ایک میڈیکل کالج اور ایک یونیورسٹی قائم کی۔
یہاں میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ جب نیک نیتی ہوتب صحیح سمت میں محنت کو قدرت غیب سے بھی مدد فرماتی ہے۔ مولانا وستانوی کی جامعہ میں ہی مَیں نے دیکھا کہ دوپہر کے ایک بجے لگ بھگ۱۴؍ہزار طلبہ ایک ساتھ کھانا کھانے بیٹھے تھے اور دو بجے تک سب کھانے سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ جی ہاں، ایک گھنٹے میں ۱۴؍ہزار بچّے کھانے سے فارغ ہوجاتے تھے جبکہ ہمارے یہاں شادی کے ولیمے میں ۵۰۰؍افراد کے کھانے کے تعلق سے ۶۔ ۶؍ مہینے تک منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ جامعہ میں رات میں بھی اُتنی ہی تعداد میں طلبہ کھانے میں شریک ہوتے اور ایک گھنٹے میں کھانے کا معاملہ ختم۔ وہاں ہم نے۲؍ اہم باتوں کا یہ بھی مشاہدہ کیا کہ انتہائی معیاری کھانا طلبہ کو دیا جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ کھانا بالکل ضائع نہیں ہوتا تھا۔ ایسے معاملات دنیا کی بڑی سے بڑی مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ میں بھی سِکھائے نہیں جاتے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب اللہ تعالیٰ غیب سے مدد فرماتا ہے۔
خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی
ملک بھرمیں درگاہوں اور خانقاہوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ بزرگانِ دین نے دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا۔ اُن کی تعلیمات اور اُن کی اشاعت کے طریقۂ کار کو سیکھنے کے بجائے اُن کے مُریدوں نے اُن کی خانقاہیں وغیرہ قائم کیں۔ معتقدین آج بھی جب وہاں جاتے ہیں تب چندے کے صندوق میں کچھ رقم ڈال آتے ہیں۔ مسلکی عقائد سے بعید ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ان صندوقوں سے قوم کی فلاح کا کچھ کام ہورہا ہے یا نہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں بڑی بڑی صندوقیں نصب ہیں البتہ اس ملک میں صرف گلبرگہ کی خواجہ بندہ نواز درگاہ کی چندے کی صندوق کے ذریعے درگاہ کے ٹرسٹیان نے اسکول، کالج، پالی ٹیکنک اور میڈیکل کالج تک قائم کیا اب تو وہ خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی تک بن گئی ہے۔ گلبرگہ تو ایک قصبہ ہے، بڑے شہروں جیسے ممبئی، دہلی، اجمیر وغیرہ میں کروڑوں روپے کا چندہ جمع ہوتاہے، مگر کسی درگا ہ نے قوم کی تعلیمی ترقی میں اس طرح کی کوئی اعانت کی ہو، اس کی خبر اب تک نہیں ملی۔
ہماری اس تحریر پر کچھ افراد ناک بھوں بھی چڑھائیں گے البتہ ہماری قوم کی معاشی حالت کس قدر خستہ ہے اِس کا معائنہ کرناہے تو ہم ممبئی شہر کے اُن مندروں کے نام بھی بتانا چاہیں گے جن کے باہر برقعہ پوش خواتین کی لمبی لمبی قطاریں روزانہ دِکھائی دیتی ہیں اپنے بچّوں کے اسکول اور کالج کی فیس حاصل کرنے کیلئے ۵/۱۰؍ہزار روپے کا چیک پاکر وہ مائیں خوش ہوجاتی ہیں۔ اُن مندروں کے نام ہیں : سِدّھی ونایک مندر، سوامی نارائن مندر، لال باغ چا راجہ مندر اور مہالکشمی مندر وغیرہ۔ ہمارے جن احباب کو یہ سب پسند نہیں ہے اُنہیں چاہئے کہ ان ضرورت مند طلبہ کی فیس کی ادائیگی کیلئے فوری طور پر کوئی سبیل پیدا کریں۔
یہاں ہم یہ بھی عرض کرنا چاہیں گے کہ سید محمود الحسنین (جو خواجہ گیسودراز کے نام سے مشہور ہوئے) نے آج سے ۶۰۰؍ سال پہلے اُردو، عربی و فارسی میں ۱۹۵؍کتابچے بھی تحریر کئے اور اُن کی لائبریری میں دس ہزار سے زائد قیمتی کتابیں بھی موجود ہیں۔ خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی کے پہلے چانسلر ڈاکٹر سید شاہ خسرو نے دوران گفتگو ایک بار ہمیں بتایا تھا کہ وہاں روزانہ ہزاروں معتقدین آتے ہیں ہیں لیکن ان میں سے شاید ہی کوئی لائبریری کا رُخ کرتا ہو۔
اسماعیل یوسف کالج
ممبئی شہر کے جوگیشوری علاقے میں ۵۴؍ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا اسماعیل یوسف کالج شہر کا چوتھا قدیم کالج ہے۔ اتنے بڑے رقبے میں تو ایک یونیورسٹی قائم ہوسکتی ہے۔ حاجی اسماعیل ہاشم خاندان نے مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم کیلئے وقف کردیا تھا۔ اللہ نے اُس خاندان کو بے پناہ جائیداد و دولت سے نوازا تھا، اس حد تک کہ ممبئی پورٹ کے قریب وہ نہوا شیوا نامی ایک پورے جزیرے کے مالک تھے۔ دو نسلوں تک تو معاملہ ٹھیک ٹھاک رہا لیکن تیسری نسل تک آتے آتے یہ ادارہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس میں کہیں نہ کہیں اس خاندان کی تیسری نسل کی لاپروائی بھی شامل رہی۔ اس کے بعد بہت ساری کوششیں ہوئیں لیکن بات نہیں بنی۔
ایسا غصّہ سب کو کیوں نہیں آتا؟
۴۰؍سال پہلے کی بات ہے۔ باندرہ ممبئی کے تاجر اخترحسن رضوی نے اپنے بیٹے کو نرسری جماعت میں داخلے کیلئے ایک کانوینٹ اسکول کا رُخ کیا۔ اسکول کے فادر پرنسپل نے بتایا کہ جگہ خالی نہیں ہے۔ دو تین مرتبہ اُنھوں نے پرنسپل سے ملنے کی کوشش کی۔ آخری ملاقات میں فادر پرنسپل نے بڑی ہی جھنجھلاہٹ سے اُن سے کہا کہ’’ تم مسلمان داخلے کیلئے یہاں آجاتے ہو، اپنے اسکول کیوں قائم نہیں کرتے؟ ‘‘ اختر رضوی وہاں سے اُٹھے، گھر گئے اوراپنے ایک پلاٹ پر نرسری اسکول قائم کرنا طے کیا۔ اسکول رجسٹر کی، اساتذہ کا انتخاب کیا اور اخبارات میں اشتہاردیا۔ وہ اسکول پھر ہائی اسکول بن گیا، جونیئر کالج، پروفیشنل کورسیز کاسینئر کالج، انجینئرنگ کالج، دو چار تعلیمی اِداروں کے اضافے کے بعد اب یہ اِدارہ ایک یونیورسٹی بن سکتا ہے۔ ان کالجوں کے طلبہ سے جب ملاقات ہوتی ہے تب اُن سے گفتگو کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اِن اِداروں کا معیار بھی اچھا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری قوم کے کچھ اور افراد کو بھی کانوینٹ اسکولوں یا پروفیشنل کورسیز کے ذمہ داروں نے اسی طرح دھتکارا ہوگا۔ آخر اُنھیں غصّہ کیوں نہیں آتا جیسا کہ اختر حسن رضوی کو آیا تھا؟